Qalamkar Website Header Image

ایسے نہیں چلے گا "صاحب! عقل کے ناخن لیجئے – حیدر جاوید سید”

طالب علم نے جب بھی کھمبیوں کی طرح اگ آنے والے الیکٹرانک میڈیا چینلز اور جماندرو (پیدائشی) سینئر تجزیہ نگاروں کے پیدا کردہ مسائل پر بات کی۔ کچھ "مہربانوں” نے پھبتی کسی۔ تمہیں چینلوں والے بلاتے نہیں اس لئے حسد کا شکار ہو۔ وہی مہربان اب چند دنوں سے سرپکڑ کر رو رہے ہیں۔ ایک ایسے عامل صحافی کو بھلا آزادی اظہار سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے جس نے پہلی بار حوالات کا منہ اس وقت دیکھا تھا جب کراچی کے ایک ایونگر (دوپہر کے اخبار) میں بچوں کا صفحہ بناتا تھا۔ نصرت اسلام سکول میں تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لئے اپنے کلاس فیلو جاوید اختر کے توسط سے ان کےوالد کے اخبار میں ملازمت ملی تھی۔ مرحوم حمید اختر صاحب کے لئے ہمیشہ دعا گو رہتا ہوں۔ وہی تھے جنہوں نے آپا سیدہ فیروزہ خاتون کے سانحہ ارتحال کے بعد اپنے صاحبزادے کے ہم جماعت کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور اپنے اخبار کے بچوں کے صفحہ کے لئے کہانیاں لکھنے والے طالب علم کو اخبار میں ملازمت دے دی۔ سکول سے چھٹی کے بعد روزانہ سرکلر ٹرین سے چنیسر ہالٹ سٹیشن سے دفتر جاتا اور پھر 5 بجے اپنے کام کو مکمل کر کے ہاسٹل چلا جاتا۔ وہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا۔ کسی بات پر سندھ حکومت دوپہر کے اخبارات سے ناراض ہوئی ، اخبارات کے دفتر پر چھاپے پڑے جو لوگ ہاتھ لگے دھر لیا گیا۔ دھرے جانے والوں میں ہم بھی شامل تھے سو اپنے صحافتی اساتذہ اور سینئرز کے ساتھ حوالات پہنچ گئے۔ وہ منظر آج بھی یاد ہے جب سکول بیگ کاندھے پر لٹکائے ہتھکڑیاں پہنے پریڈی تھانہ کے حوالات میں جمع کروا دیئے گئے۔ چوتھے دن رہائی نصیب ہوئی۔ ان چار دنوں میں جناب حمید اختر اور استادِ محترم فضل ادیب صاحب کی کوشش سے دوپہر تک سکول سے ہوم ورک پہنچ جاتا اور پھر ان دونوں بزرگوں کی توجہ سے حوالات میں ہی بستہ کھول کر کتابیں کاپیاں نکالتا اور ہوم ورک شروع۔ اللہ مغفرت فرمائے ان بزرگوں اور مرحوم منہاج برنا کی جن کی کوششوں سے رہائی ملی۔ کتابِ زندگی کا ایک ورق الٹنے کا مقصد یہ ہے کہ آزادی اظہار و صحافت کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی۔ ایک لمبی جدوجہد ہوئی۔ تاریک راہوں میں اپنے لہو سے چراغ جلانے اجالا کرنے والی نسل کی کچھ نشانیاں باقی ہیں۔ بدقسمتی سے آزادی اظہار اور صحافت کے نام پر پچھلے چند برسوں یا عشرہ سوا عشرے سے چھاتہ برداروں نے جو ادھم مچایا ہوا ہے اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

چمونوں کا ایک غول ہے پیدائشی وکیل، عالم، مناظر، گلوکار، تاریخ دان، جج اور صحافی اچھل کود میں مصروف ہے۔ ایک ذات میں نصف درجن حیثیتوں کو لئے ان سینئر تجزیہ کاروں میں سے کچھ کو نمبر ون اینکر اور تجزیہ کار کہلانے کا خبط لاحق ہے۔ کیا معطر گفتگو فرماتے ہیں، تمسخر اڑاتے انداز میں۔ سوال تین منٹ کا اور جواب دینے کے لئے تین منٹ میں سے بھی دو منٹ لے اڑتے ہیں۔ جس کو چاہتے ہیں ملحد و بے دین ، غدار، بھارتی ایجنٹ، گستاخ اور نجانے کیا کیا کہہ دیتے ہیں۔ ان چمونوں میں سے ایک کے بھائی اپنی زندگی میں خود کو ترقی پسند آیت اللہ کہلواتے رہے۔ ترقی پسند آیت اللہ عمران لیاقت مرحوم نے اتنی ترقی کہ کہ سید فیض عالم دکنی مرحوم کے تراجم ہائے دیوانِ ابی طالب ، دیوان سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اپنے نام سے شائع کروا لیا۔ لاہور میں اس دیوان کی تقریب رونمائی کا اہتمام ایک بڑے ہوٹل میں ہوا۔ مجھے بھی شرکت اور دیوان پر گفتگو کی دعوت دی گئی۔ تقریب میں حاضر ہوا تو عرض کیا دونوں دیوانوں کا ترجمہ تو سید فیض عالم نقوی البخاری دکنی مرحوم نے 1875 میں کر دیا تھا جو 1879 میں لکھنو سے شائع ہوا۔ ترقی پسند آیت اللہ مترجم نہیں مرتب ہیں۔ یہ علمی بددیانتی ہے۔ مرتب کی گئی کتاب پر بطور مترجم نام دینا۔ پھر کیا ہوا یہ الگ قصہ ہے۔ ( اپنے قارین کے لئے فقط یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ سید فیض عالم دکنی مرحوم آپا سیدہ فیروزہ خاتون مرحومہ کے نانا جان تھے۔ چوتھی جماعت سے نویں جماعت تک طالب علم فیروزہ آپا کے آنگن اور گود میں پلا) یونیورسٹی کے قیام سے دو سال قبل پی ایچ ڈی کر لینے والے ڈاکٹر عامر لیاقت اسی مرحوم ترقی پسند آیت اللہ کے برادرِ خورد ہیں۔ اپنے وقت میں کراچی کے انتہائی قابلِ احترام شیخ لیاقت حسین اور محترمہ محمودہ سلطانہ مرحومہ کے لختِ جگر۔ کیا بلند اور باعزت مقام کے حامل والدین تھے اور کیا پست اور کج بحث و سرقہ پسند اولاد۔ اللہ تعالیٰ تمام صاحبان ِ اولاد کو اس طرح کی سزا سے محفوظ رکھے۔ الیکٹرانک میڈیا کے آ جانے کے بعد صحافت کے شعبہ میں جو چھاتہ بردار "نازل” ہوئے ان میں عامر لیاقت بھی شامل ہیں۔ اتنے باکمال شخص ہیں کہ انہوں نے جس امریکی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی وہ ان کی ڈگری کے اجراء سے دوسال بعد قائم ہوئی۔ ایم کیو ایم کی طرف سے 2002ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پرویز مشرف کی جرنیلی جمہوریت میں مذہبی امور کے وفاقی وزیر مملکت بنے۔ کرپشن کی شکایات کے ساتھ دو اخلاقی شکایات پر الطاف حسین نے انہیں ایم کیو ایم سے نکال باہر کیا۔ قومی اسمبلی کی رکنیت اور وزارت گئی تو ان پر انکشاف ہوا کہ الطاف حسین کے نظریات اور تنظیم اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں۔ چند برسوں تک شتر بے مہار کی طرح بھٹکتے رہنے کے بعد پچھلے سال ایک بار پھر ایم کیو ایم میں بھرتی ہوئے اور الطاف حسین کو مسیحائے وقت قرار دیا۔ الطاف حسین کی متنازعہ تقریر کے بعد چینلوں پر تنہاپرواز کرتے رہے اور ان کا خیال تھا کہ ان خدمات کے صلے میں لندن سے انہیں فاروق ستار کی جگہ عطا کردی جائے گی۔ اسی دوران گرفتار بھی ہوئے۔ شب بھر کی سرکاری مہمان نوازی اور تین تھپڑوں ( میں انہیں اڑھائی تھپڑ کہتا ہوں وجہ نہ پوچھیے گا) نے ان پر حب الوطنی کے نئے مفہوم آشکار کئے۔ اب الطاف حسین بھارتی ایجنٹ ، سابق مالک اور اس کا بیٹا سن آف بھارت اور یہ حضرت خود سن آف پاکستان ہیں۔ اللہ پاکستان پر رحم کرے۔ ایک دن دنیا کے لمبڑ ون چینل پر لمبڑ ون اینکر کے طور پر ابھرے اور سمجھانے لگے "ایسے نہیں چلے گا”۔ جیسے انہوں نے چلایا اس پر بیسواؤں نے انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔ پروفیسر سلمان حیدر اپنی آزاد روی کی بدولت اٹھائے گئے۔ چند دیگر بلاگرز بھی اٹھائے گئے لوگوں میں شامل تھے۔ جعلی پی ایچ ڈی اور عطائی مذہبی سکالر دنیا کے لمبڑ ون چینل پر عدالت لگا کر بیٹھ گئے۔ درجن بھر لوگوں کو غدار اور را کا ایجنٹ قرار دیا۔ اٹھائے گئے پروفیسر اور چند بلاگرز کو توہینِ رسالت ﷺ کا مرتکب قرار دے دیا۔ جو منہ میں آیا رولتے رہے۔

یہ بھی پڑھئے:  سبقتِ لسانی

عطائی کسی شعبہ میں ہوں خطرناک ہوتے ہیں۔ اس عطائی نے جن لوگوں پر سنگین الزامات عائد کئے ان کے بارے میں انکشاف کیا وہ غائب نہیں کئے گئے بلکہ بھارت میں مقیم ہیں اور را کے فلاں افسر کے ساتھ مل کر پاکستان و اسلام دشمن پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ غائب کئے جانے والے پانچ بلاگرز اور ایک پروفیسر کے حوالے سے احتجاج کرنے والے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، دانشوروں اور دیگر کو بھی شریکِ جرم قرار دیتے ہوئے فتوؤں کی چاند ماری شروع کر دی۔ عجیب صورتحال پیدا کردی ۔ان کی بدزبانی اور بے لگامی سے ہمارے دوست سید امتیاز عالم گیلانی بھی محفوظ نہ رہے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ پروفیسر سلمان حیدر بارے اس عطائی کے ساتھ جماعتِ اسلامی اور چند کالعدم تنظیموں کے سوشل میڈیا بلاگز پر جو بھاشن دئے گئے وہ محض سلمان حیدر کے ایک مسلک سے خاندانی تعلق بارے تعصب و نفرت کا نتیجہ تھے۔ پروفیسر سلمان حیدر سادات کے معروف خاندان کے فرزند اور شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں محض انسان دوستی اور روشن خیالی کا پہلو ہی نہیں بہت اعلیٰ نعتیں اور منقبتیں بھی انہوں نے لکھیں۔ دیگر بلاگرزر بارے ہم سب کا نکتہ نظر یہی رہا کہ اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو مقدمہ چلائیں کس نے روکا ہے۔ مقدس شخصیات اور مقدسات کی توہین کو کوئی بھی ذی شعور انسان آزادی اظہار قرار نہیں دیتا۔ لبرل فاشزم ہو یا مذہبی جنون دونوں قابلِ گرفت ہیں۔ اتنا ہی قابلِ گرفت بیہودہ زبان اور فتویٰ بازی ہے۔ مادر پدر آزادی کا مظاہرہ کرنے والے کمرشل لبڑل ہوں یا مذہبی چمونے، حکومت کو دونوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ افسوس کہ حکومت نے مولوی خادم حسین، اشرف جلالی اور افضل قادری سے اپنی عمران دشمنی کے میدان میں کام لینے کا منصوبہ بنایا۔ گو یہ منصوبہ ناکام ہوا لیکن اس نے لمبڑ ون اینکر جیسے عطائیوں کو یہ حوصلہ دیا کے وہ جسے چاہیں کافر، غدار، زندیق و ملحد قرار دے دیں۔ معاف کیجئے گا ایسے بالکل نہیں چلے گا۔ یہ 20 کروڑ کی آبادی کا ملک ہے۔ بھرے پُرے سماج کو چند ذہنی مریضوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ مسائل پہلے بہت ہیں اور بعض سنگین ترین ۔ ایسے میں بدزبان عطائیوں کو کھلی چھٹی دینے کا نتیجہ بھیانک ثابت ہو گا۔ صحافت سمیت دوسرے شعبوں میں نازل ہوئے چھاتہ برداروں کا علاج ہونا چاہیے۔ اداروں کے کردار سے اختلاف کا مطلب پاکستان سے انکار نہیں۔ یہ ہمارا ملک ہے۔ پانچ اقوام کا پاکستان کثیر القومی ملک ہے۔ کسی ایک قوم یا ایک مسلک کی بالادستی مسائل پیدا کرے گی۔ اور سچ یہ ہے کہ "ایسے نہیں چلے گا”
بشکریہ روزنامہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس