انتخابی ماحول میں رنگینی اور المیے دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ عالی جناب چودھری نثار علی خان کو نون لیگ نے جھنڈی کروا دی اور ان کے مقابلہ میں اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا۔ یعنی ثابت ہوا کہ پارٹی پر نواز شریف گروپ کی گرفت مضبوط ہے۔ حاکموں کی شکار سے تواضع کرنے والے گھوٹکی کے علی محمد مہر اپنے خاندان سمیت پیپلز پارٹی کے نکلے اور جی ڈی اے میں بھرتی ہوگئے۔
سندھ میں جی ڈی اے نامی اتحاد بھٹوز کی پیپلز پارٹی کے خون کے پیاسوں کی منڈلی ہے۔ اس بار اس منڈلی کو کہیں کہیں تحریک انصاف کی محبت بھی حاصل ہے۔ میرے وہ سارے صحافی دوست جو پنجاب سے نون لیگ کے بٹیروں کو بنی گالہ کے کھیتوں کی طرف لیجانے کا ذمہ دار کچھ اداروں کو قرار دیتے تھے سندھ میں انہی اداروں کے کردار کو سیاسی عمل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ پنجاب میں جو حرام ہے سندھ میں حلال، بلکہ میٹھا حلوہ۔ پروفیسر ساجد میر کی جمعیت اہلحدیث ایم ایم اے میں بھی شامل ہے اور اتوار کی سہ پہر تک نون لیگ کے ٹرک پر بھی سوار تھی مگر اتوار کی سہ پہر انہیں ان کی جماعت سمیت ٹرک سے اُتار دیا گیا ۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے کا پروگرام ختم ہوا۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کی تلاش جاری ہے، البتہ سرائیکی وسیب میں لوک سانجھ کے دوست پیپلز پارٹی کو ایک مقامی عقیدے کی حیثیت سے وسیب زادوں کیلئے لازم قرار دے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرائیکوں کی اس تنظیم میں وسیب کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے نوجوان اور بزرگ و متاثرین ومالکان این جی اوز بھی شامل ہیں مگر اختلاف کرنے والوں سے وہ مولوی خادم حسین رضوی کے سٹائل میں نمٹ رہے ہیں۔ گالم گلوچ اور الزامات کی تومار سے کیا فائدہ ہوگا یہ تو معلوم نہیں ہاں ان دوستوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کے مخالف تخت لاہور کے ایجنٹ ہیں۔ زرداری جب جاتی امرا میں 80-80کھانوں سے بھری میز پر نواز شریف کے پہلو میں بیٹھتے تھے یا نواز شریف کو بھائی اور دوستی کو آئندہ نسلوں کا ورثہ کہتے تھے تب ہمارے یہ سارے دوست بنام جمہوریت چپ تھے۔ لوک سانجھ کے دوستوں کا تکبر بھرا زعم یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کیلئے ان کے سیاسی فیصلے کو آسمانی ہدایت کے طور پر لیا جائے اور منکرین کیساتھ وہی سلوک ہو جو "واجبات” کی طرح لازم۔
ان دوستوں (لوک سانجھ والے) کے احترام کے باوجود ان کے تند رویوں پر افسوس ہے۔ پیپلز پارٹی سیاسی جماعت ہے، مذہبی فرقہ ہرگز نہیں لیکن عزاداروں کا نیا گروپ غالباً ایک نئے عقیدے کی بنیادیں رکھنے جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی بھی نون لیگ اور تحریک انصاف کی طرح سرائکی وسیب کی بجائے جنوبی پنجاب کی بات کرتی ہے۔ سرائیکی وسیب کی ایک تنظیم سوجھل دھرتی واس نے اپنے ضلع راجن پور میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی حمایت کی ہے۔ لوک سانجھ پی پی پی کی حمایت کرے تو اسلام سوجھل والے ایک ضلع میں پی ٹی آئی کی حمایت کریں تو کفر فقیر کو اس پر حیرانی بھی ہے اور پریشانی بھی
مجھ سے طالب علم سے نزدیک سرائیکی وسیب میں قوم پرستوں کی جانب سے کسی تحریری معاہدے کے بغیر کسی سیاسی جماعت کی انتخابی حمایت یکسر غلط ہے۔ پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والے (یاد رہے یہ حمایت ایک ضلع کیلئے ہے) ابھی تک تحریری معاہدہ سامنے نہیں لا سکے۔
پیپلز پارٹی کے کعبہ میں سجدہ ریز دوست بھی بس حق نسبت ادا کر رہے ہیں وہ آج تک یہ بات بھی نہیں منوا سکے کہ پی پی پی اپنی جماعت کے جنوبی پنجاب ریجن کا نام سرائکی وسیب رکھ دے۔ کچھ دوست نون لیگ کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں۔ سیاسی اقدار اور ہر کیات ہر دو کی روشنی میں یہ فیصلہ اور مہم غلط ہیں انہیں نون لیگ کے جرائم اور سرائیکی دشمنی سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہئے مگر جو رویہ اپنایا جا رہا ہے اس سے وسیب میں لسانی اختلافات بھڑکنے کا خدشہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سرائیکی اضلاع میں مقیم بھارتی پنجاب کے مہاجرین کی بڑی تعداد نون لیگ کی ہمنوا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کے موجب بہت احتیاط اور ذمہ داری کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔ نون لیگ نے پچھلے 10برسوں کے دوران سرائیکی وسیب کیساتھ وہی کیا جو مقبوضہ علاقوں کیساتھ فاتحین کرتے ہیں مگر اس استحصال کا جواب سیاسی انداز میں دینے کی ضرورت ہے ناکہ ایسی حکمت عملی سے جو سرائیکی غیرسرائیکی کی تقسیم کو بڑھاوا دے اور صوبہ مخالف قوتوں کے مقاصد پورے ہوں۔
لاریب سرائیکی وسیب کے لوگوں کی سیاسی فہم اور مطالبات کے حوالے سے قوم پرستوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان انتخابی تعاون پر مکالمہ ہونا چاہئے تھا کہ یہی دو فطری اتحادی تھے۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی وسیب میں ایک خاص قسم کے تکبر کا شکار رہی۔ پھر کچھ لوگوں نے گیلانیوں اور پی پی پی کو یہ تاثر بھی دئیے رکھا کہ وسیب کے لوگ ان کے باندھے ہیں۔ دوسری طرف قوم پرست بھی انا کے بانس پر چڑھے ہوئے دکھائی دیئے، کچھ نہ ہوتے ہوئے اس زعم کا شکار کہ وسیب زادے دیوانہ وار ان کی آواز پر نکل آئیں گے۔
اس پر ستم یہ کہ سرائیکی قوم پرست سیاست کی مدر پارٹی مرحوم تاج محمد خان لنگاہ کی پی ایس پی اور جمشید دستی کی عوامی راج پارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد کا قیام ہے۔ سیاسی شعور سے محروم اور سرائیکی دشمن جمشید دستی کن قوتوں کیلئے پتلی کا کردار ادا کرتے ہیں اس پر بحث مقصود نہیں البتہ سرائیکی پارٹی اور دستی کے انتخابی اتحاد پر فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ قوم پرست تقسیم درتقسیم کا شکار ہیں۔ اتفاق رائے سے سیاسی وانتخابی فیصلہ نہ کر سکنے کا خمیازہ انہیں بھگتنا ہوگا۔ پی ایس پی والوں کو دستی سے اتحاد کی لذت بھی چکھنا پڑے گی۔
حرف آخر یہ ہے کہ وقت ابھی ہاتھ سے نکل نہیں گیا قوم پرستوں کے دونوں اتحادوں کو ذاتی ناراضگیوں حسدوں اور نفرتوں سے اوپر اُٹھ کر وسیب کے مفاد میں مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ دوسری صورت ہم سب کے سامنے ہے وہ یہ کہ اس تقسیم کا فائدہ وسیب دشمنوں کو پہنچے گا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn