Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سانحہ کوئٹہ – 10سیکورٹی اہلکار دہشت گردی کا رزق بن گئے۔

کوئٹہ میں منگل کو ائیرپورٹ روڈ اور دشت کے علاقے میں ایک گھنٹے میں تین خودکش حملوں کے نتیجے میں 10سیکورٹی اہلکار دہشت گردی کا رزق بنے جبکہ 16زخمی ہوگئے۔ دشت کے علاقے میں ایف سی کی چیک پوسٹ پر حملہ کے دوران سیکورٹی فورسز کی جوابی فائرنگ سے ایک حملہ آور ہلاک اور دو نے خود کو اُڑا لیا۔ ائیر پورٹ روڈ پر رینجرز کے ٹرک پر ہونے والے خودکش حملے میں 20کلودھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان دوالمناک سانحات پر بعض سنگدل یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کوئٹہ میں منگل کو ہونے والے تینوں حملے بعض ریاستی حلقوں نے کروائے ہیں تا کہ پی ٹی ایم کی تحریک اور چند دیگر مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹا کر ہمدردی کے جذبات ابھارے جا سکیں۔

شقاوت قلبی کے اس مظاہرے پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ہمارے سماج کے کچھ حلقے اس قدر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں کہ وہ انسانی جذبات سے عاری ہو کر اپنی حفاظت پر مامور سیکورٹی اہلکاروں کی قربانیوں کا مذاق اڑانے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ستم بالائے ستم کچھ ایسے نابغے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ سیکورٹی فورسزکے افسران ماتحت اہلکاروں کو جان بوجھ کر مروارہے ہیں۔ اداروں کی پالیسیوں سے اختلاف اور اس حوالے سے اپنی ناقدانہ آراء کا اظہار ہرکس و ناکس کا حق ہے یہ حق پاکستان کے آئین سے متصادم ہرگز نہیں مگر اختلاف رائے کے اظہار کی آڑ میں شرمناک الزامات اور سوقیانہ جملہ بازی ہر دو پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ منگل کے سانحات پر دانش کے موتی چُور تقسیم کرنے میں وہ عناصر پیش پیش ہیں جنہوں نے دہشت گردی کا شکار ہونے والے خاندانوں سے کبھی ہمدردی کا اظہار کیا نہ دہشت گردوں کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کی دولفظی مذمت گوارہ کی۔

یہ بھی پڑھئے:  کیسے مذاکرات اور کیسی مفاہمت | اکرم شیخ

cمجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اس صورتحال کی ذمہ داری کسی حد تک بعض ریاستی اداروں اور ہمارے ان چُغد پالیس سازوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے ملک اور لوگوں کے طویل المدتی مفادات کو کبھی بھی مقدم نہیں سمجھا اور ہمیشہ ایک بورڈ گلوں میں لٹکائے رکھا ’’تمہارے پاس اگر جنگ ہو تو ہماری خدمات حاصل کرو‘‘۔ پچھلے 40برسوں کی افغان پالیسی کو ہی لے لیجئے بے حساب بربادیاں اپنے لوگوں کا مقدر بنوانے کے علاوہ اس افغان پالیسی کا اگر کوئی منافع ہے تو وہ مادر زاد گالیاں ہیں جو افغان مہاجر ان کے ہم وطن اور پشتون ولی کا شکار اپنے پشتون بھائی بھی جی بھر کے دیتے ہیں۔ کس کمال مہارت سے اپنے لوگوں کے حصے کے جرائم بھی دوسروں کے کھاتے میں ڈال لئے گئے ہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں ریاست اور اس کے ادارے اس ابتری کے ذمہ دار ہیں وہیں ان اداروں کا ساجھے دار بن کر بنام جہاد جرائم پروری کرتے لوگ اور تنظیمیں بھی اس ملک کے عام لوگوں کی مجرم ہیں۔ اب انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم سمجھا جائے لیکن چونکہ ہم پسند کا ظالم و مظلوم پالنے کی بیماری میں مبتلا ہیں اس لئے گالیوں کی تسبیح سے کچھ وقت نکلے تو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے سیکورٹی اہلکاروں کی قربانیوں پر سوقیانہ جملے بازیوں سے تسکین حاصل کرتے ہیں۔ بہر طور منگل کے سانحہ کوئٹہ کو لے کر ٹھٹھہ اڑاتے بوزنوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اگر دہشت گردوں کا ہدف شہری مقامات ہوتے تو کیا نتیجہ نکلتا؟۔

یہ بھی پڑھئے:  پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ہو.. | شاہانہ جاوید

حالیہ بلاگ پوسٹس