بھاگ لگے رہن رونقیں ہی رونقیں ہیں۔ ’’امید واثق‘‘ ہے عنقریب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہوئے 50 فیصد سے زائد آبادی کو سستی روٹی اور پینے کا صاف پانی مل جائے گا۔ بلکہ اب توجناب منصفِ اعلیٰ(چیف جسٹس آف پاکستان) جسٹس ثاقب نثار نے فرمایا ہے کہ ’’ ملک میں ایک جیسے سکول، بستہ اور کتابیں دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔ روٹی پانی اور بستے کتابوں کے بعد حضور کو کچھ وقت ملا تو ملاوٹ سے پاک اشیاء کی فراہمی پر توجہ دیں گے۔ ادویات بھی دونمبرہی ملتی ہیں۔ ایک عام ایم بی بی ایس ڈاکٹر دو یوم کی دوائی کے ساڑھے چار سو سے نو سو روپے لے رہا ہے۔ ہمارے ایک عزیز ڈاکٹر مفلوک الحال لوگوں کا کچھ خیال کرتے ہیں ان جیسے چند اور ڈاکٹر بھی ہوں گے ملک میں۔ چیف جسٹس یقیناًنجی کلینکوں کی لوٹ مار کا نوٹس لیں گے۔
یہ جو گلی محلے میں نجی اسکول اُگ آئے ہیں ان کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے انہیں ایف اے بی اے پاس استادوں اور استانیوں سے سات سے نو ہزار روپے ماہوار پر دستخط لے کر دیتے چار سے پانچ ہزار روپے ہیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس ایڈوانس وصول کرتے ہیں بچوں کے والدین سے مگر تدریسی عملے کو تعطیلات کی تنخواہیں دیتے ہوئے موت پڑتی ہے۔ اس پر ظلم یہ ہے کہ درسی کتب اور یونیفارم بھی اسکول سے یا سکول کی مقرر کردہ دوکان سے لینا لازم ہے۔ ایک چکر کبھی اگر فروٹ اور سبزی منڈیوں اور دوسرا اتوار بازاروں کا چیف صاحب لگالیں تو بند گان خدا دعائیں دیں گے۔ ایک ہی شہر میں سبزی اور فروٹ کے نرخ مختلف ہوتے ہیں یہ چھوٹے چھوٹے لُٹیرے غریبوں کی کھال اتارتے ہیں۔ گوشت کا ذکر اس لئے نہیں کررہا ہے کہ 50فیصد آبادی گوشت کا ذائقہ سال میں تین بار چکھ پاتی ہے۔ شادی، مرگ اور عید قربان پر ہاں چیف جی چاہیں تو آئندہ عید قربان کے لئے قصائیوں کے نرخ مقرر کردیں فی جانور ذبحہ کرنے کا۔
مسائل بہت ہیں لاہور کا سب سے اہم ترین مسئلہ شاہدرہ چوک سے بتی چوک تک صبح 9 بجے سے رات 10اور کبھی کبھی 12بجے تک ٹریفک جام رہنا ہے۔ یقین کیجئے چیف جی پُل صراط آسانی سے پار ہو جائے گا لیکن شاہدرہ سے بتی چوک کا سفر پُل صراط سے زیادہ بھیانک بن چکا ہے۔ آپ کو شاید اندازہ نہ ہو کیوں کہ جہاز کے راستے میں راوی پل نہیں آتا۔ چھوٹے بڑے شہروں میں آجکل چنگ چی موٹر سائیکل رکشوں نے لوگوں کی مت مار رکھی ہے۔ چیف صاحب کو نوٹس لینا چاہئے کہ کیسے موٹر سائیکل پر کمرشل کاروبار ہو رہا ہے اس سے تو ملکی خزانے کو سالانہ کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ ایک جے آئی ٹی بنائے تحقیقات کروائے کس نے موٹر سائیکل کوچنگ چی رکشہ بنانے اور پھر چلانے کی اجازت دی۔ ایک ظلم اور ہے اب موٹر سائیکل لوڈرز بھی سڑکوں پر ہیں ان کی وجہ سے حادثات بڑھ گئے ہیں سال 2017ء میں ملتان شہر کے سرکلر روڈ پر پچاس سے زیادہ افراد موٹر سائیکل لوڈرز کے حادثات کا رزق ہوئے۔
ایک ایک گلی میں تین تین مسجدیں ہیں بستہ کتابیں اور ایک سکول ہو سکتا ہے تو 10ہزار کی آبادی پر ایک مسجد کیوں نہیں؟ چیف صاحب دنیا میں نیک نامی کمانے کے ساتھ عاقبت سنوار پروگرام کے تحت مسجدوں کے قیام اور پہلے سے موجود مسجدوں کی تعداد کم کرنے کے لئے قانون سازی کروائیں اور یہ بھی یقینی بنائیں کہ فی مسجد ایک سپیکر ہو اس سے زیادہ بحق سرکار ضبط کرلئے جائیں۔ غربت کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت کی مقرر کردہ 15ہزار روپے ماہوار تنخواہ کوئی نہیں دیتا چیف صاحب فیکٹری مالکان اور انجمن تاجران کو طلب کرکے حکم دیں کہ ملازمین کو15ہزار روپے ماہوار تنخواہ دی جائے۔
مسائل اور بہت ہیں لیکن چونکہ پاکستانی تاریخ کے عظیم المرتبت چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے اگلے سال ریٹائرڈ ہو جانا ہے اس لئے اگر وہ مندرجہ بالا مسائل ایک سال میں حل کروادیں تو لوگ دعائیں کریں گے۔ فقیر راحموں کہتے ہیں کہ روٹی اور صاف پانی سپریم کورٹ سے تحصیل کورٹس تک کے احاطوں سے براہ راست عوام کے ملے تو چیف صاحب کا نام قیامت تک زندہ رہے گا۔ ان مسائل کے ساتھ اگر چیف صاحب مجھ غریب کا ایک مسئلہ حل کروادیں تو وعدہ کرتا ہوں کہ درجن بھر تو صیفی کالم لکھوں گا مسئلہ یہ ہے کہ جس بس پر روزانہ سفر کرتا ہوں یہ 45کلو میٹر کا فاصلہ 2سے 3گھنٹے میں طے کرتی ہے از خود نوٹس کے تحت ایل ٹی سی کی انتظامیہ کو حکم دیا جائے کہ یہ سفر ایک گھنٹہ پندرہ منٹ میں طے کرائے۔ محترم چیف جسٹس صاحب! آپ سیاسی لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں نہ کسی بندوق سے ڈرنے کی ضرورت ہے ہو سکے تو ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹیوں میں پلاٹ سستے کروادیں سفید پوش آدمی تو ڈی ایچ اے کے پلاٹوں کی قمیت سن کر ہی بیہوش ہو جاتا ہے۔
اس ملک میں جب کوئی بھی اپنے حصے کا کام نہیں کر رہا تو کیا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ بھی کچھ نہ کرے۔ اللّہ جانے ایسی عوامی طبیعت والا چیف جسٹس پھر نصیب ہونا ہوکہ نہ ہوذیا دہ مناسب یہ ہوگا کہ مردم شماری وغیرہ کے معاملے میں دائر درخواستوں کی سماعت اور فیصلے تک باقی کے سارے کام بند کرکے عوام کو شکریہ کا موقع دیا جائے۔ چیف صاحب کو اگر خدمت خلق کے ان کاموں سے کچھ وقت ملے تو 2عدد جے آئی ٹیز ضرور بنوادیں پہلی اس بات کی تحقیقات کرئے کہ این ایچ اے اپنے ملک بھر کے ٹال پلازوں سے وصول ہونے والی رقم کا کیا کرتا ہے۔ دوسری جے آئی ٹی اس بات کی تحقیقات کرے کہ لاہور میں کتنے گھروں کو وزیراعلیٰ کا پروٹوکول مل رہا ہے اور ان گھروں میں سے کتنوں کا تعلق وزیراعلیٰ سے ہے اور کتنوں کا ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز سے۔ چلتے چلتے ایک آخری کام بھی عرض ہے یہفروری کے اختتام اور مارچ کے آغاز پر جو گرمی دوڑی ہوئی آگئی ہے اس کا بھی نوٹس لیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لوگوں کے خلاف کس نے موسمیاتی سازش کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn