حیرانی ہوتی ہے جب خود کو ماڈریٹ کے طور پر پیش کرنے والے عملی طور پر وہ سب کچھ کہہ کر رہے ہوتے ہیں جس سے سماج میں تنگ نظری اور چیرہ دستیوں میں اضافے کے خطرات بڑھنے لگیں ۔ کیا انتہا پسندی کو ایک بار پھر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پروان چڑھا یا جارہا ہے ؟ سوال کا پس منظر مردان کی ولی خان یونیورسٹی کا مشعال کیس ہے ۔
قتل کے اس مقدمے سے بری ہونے والوں کو جماعت اسلامی مردان کے امیر ڈاکٹر عطاء الرحمان نے غازی قرار دیتے ہوئے استقبالیہ پروگرام ترتیب دیا ۔ پروگرام ہوا اور اس میں جو تقاریر ہوئیں ان سے پریشانی فطری بات ہے ۔ کم از کم مجھے ایسا لگتا ہے کہ متحدہ مجلس عمل آئندہ انتخابات مسلم انتہا پسندی کو ہتھیار بنا کر لڑنا چاہتی ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بعض وجوہات کی بنا پر ریاست کے کردار پر سوال اُٹھ رہے ہیں ۔ اس بار سوال اٹھانے والے زیادہ تر پنجابی دانش کا چہرہ ہیں نوجوان چہرہ۔
پنجاب جسے ہم سارے حیلوں بہانوں سے کوستے رہتے ہیں ۔ اسی پنجاب کے چند نوجوان اہل دانش نے فیض آباد دھرنے کے موقع پر بھی بعض اداروں کے پر اسرار کردار پر سوالات اٹھائے تھے اب وہ مشعال کیس کے فیصلے پر سوال اُٹھارہے ہیں ۔ آج کا موضوع نوجوان پنجابی دانش کے سوال نہیں ہیں بلکہ مشعال کیس میں بری ہونے والوں کی وہ تقاریر ہیں جو ا نہوں نے اور بعض مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے مردان انٹر چینج پر منعقد ہ جلسہ میں کیں ۔ گوبرادرم امیرالعظیم نے جماعت اسلامی کی طرف سے ایک وضاحتی بیان جاری کیا ہے پر افسوس کہ اس وضاحتی بیان کا زمینی حقائق سے دور کا تعلق بھی نہیں ۔ڈاکٹر عطاالرحمن ، ایک بڑے باپ کے صاحبزادے ہیں قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں ۔جماعت کے ان چند لوگوں میں سے جن کا ان کے مطالعے کی وجہ سے احترام ہے ۔
حیرانی کی وجہ بھی پہلی ہے کہ انہوں نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا اور پھر ان کی موجود گی میں جو تقاریر ہوئیں ان سب سے یہ تاثر بندھا کہ مشعال کا قتل درست تھا اور کسی کو کوئی شرمندگی بھی نہیں ۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ بری ہونے والوں میں سے اکثر نے قرآن پر حلف دیا کہ وہ قتل میں شریک نہیں تھے مگر ان میں سے بعض نے جو تقاریر کیں وہ عدالتی بیان سے متصاد م ہیں ۔ مگر اصل شکوہ جماعت اسلامی سے ہے اور سوال بھی ۔کیا جماعت اسلامی نے اصلاح معاشرے کی اپنی دعوت اور سیاسی عمل میں نمایاں مقام نہ ملنے پر ایک انتہا پسندمذہبی جماعت کے طور پر زندہ رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے ؟ ۔
ہنسی آئی امیر العظیم کی اس وضاحت پر کہ بری ہونے والوں کے رشتہ دار وں نے جن میں جماعت کے کچھ لوگ بھی شامل تھے استقبالی پروگرام منعقد کیا ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ استقبالی پروگرام کی باقاعدہ تشہیر ہوئی شہر میں بھی اورسوشل میڈیا پر بھی ؟ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شہری حلقے ، خود مشعال کے والدین اور انسانی حقوق کے علمبردار پہلے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ مشعال کیس میں استغاثہ ، صوبائی حکومت اور اُن چند سیاسی و مذہبی جماعتوں کا کردار مجرمانہ تھا جن کے کارکنان مشعال کیس میں گرفتار تھے ۔
کچھ ایسے ہی تحفظات مردان کے ضلعی ناظم حمایت اللہ مایار کے حوالے سے بھی ہیں جن کا کردار پہلے دن سے عجیب و غریب ہے ۔ ان کے دو عزیز بھی ابھی تک مفرور ہیں۔افسوس یہ ہے کہ ایک بے گناہ نوجوان کی قبر کو بھی معاف نہیں کیا جارہا ۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ذمہ دار ان غالباً انتخابی سیاست کے کوچے میں انتہا پسندی کے ساتھ داخل ہونا چاہتے ہیں تاکہ 2002ء کی طرح ایک با ر پھر مسلم پختون ولی پرلوگوں کو ہمنوا بنا سکیں ۔ کیا وہ یہ نہیں سمجھتے کہ انتہا پسندی سے پہلے ہی بڑے بڑے نقصانات ہوئے مزید نقصانات کا متحمل نہیں ہوا جا سکتا ۔ افسوس یہ ہے کہ اس ملک میں مذہبی سیاست کرنے والوں نے تاریخ اور اپنے عصر سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ مجھ ایسے طالب علموں کی آج بھی یہ رائے ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے کے ایک حصے کو متاثر کرنے والی جماعت اسلامی کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ اگر وہ اپنا وزن انتہا پسندانہ افکار اور افراد و گروہوں کے پلڑے میں ڈالتی رہی تو اس کی سیاسی ساکھ اس سے بھی زیادہ متاثرہوگی جو لاہور کے حلقہ این اے 120کے انتخابی نتائج کے حوالے سے ہمارے سامنے ہے ۔
کیاہم امید کریں کہ سراج لالہ (امیر جاعت اسلامی سراج الحق) ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کرکے مردان میں جماعت کے کردار اور اس کے ذمہ داروں کے نامناسب طرز عمل کی جانکاری کرائیں گے ؟۔ حر ف آخر یہ ہے کہ انتہا پسندی اور اس کی کوکھ سے بر آمد ہوئے المیوں نے پاکستانی سماج کے مختلف طبقات کو جو گہرے زخم لگائے ہیں ان کے مداوے کی ضرورت ہے ۔ ایک حقیقی سوشل ڈیمو کریٹ سماج کی تشکیل ہی بذات خود اس امر کی ضمانت ہے کہ سیاسی نظریات پر خوش دلی کے ساتھ مکالمہ ہو سکتا ہے فقط یہی نہیں بلکہ انتہا پسندی سے محفوظ سماج میں سیاسی عمل میں شریک جماعتوں کیلئے مختلف طبقات تک اپنا پیغام پہنچانے میں زیادہ آسانی ہوگی ۔ کیا جماعت کی قیادت اس امر سے لاعلم ہے کہ نفرتیں بوکہ گلاب اگانا ممکن نہیں ۔ ہمارے سماج کوامن و محبت ،رواداری ، علم دوستی مکالمے ، انصاف اور مساوات کی ضرورت ہے ۔ براہ کرم سماج کی ضرورتوں کو مقدم سمجھیں ۔ ”شاید کے تیرے دل میں اُتر جائے میری بات ”۔
بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn