Qalamkar Website Header Image

حریت فکر کے مجاہد عبدالحفیظ لاکھو مرحوم – حیدر جاوید سید

پاکستان میں آزادی اظہار’ شرف آدمیت’ عوام کے حق حکمرانی’ انصاف کی بلا امتیاز فراہمی کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی تو ان سچے اور اجلے زمین زادوں کی خدمات کا اعتراف کیا جائے گا جنہوں نے عمر بھر مجبور و بے نوا زمین زادوں کے حق میں آواز بلند کرتے وقت کسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان عبدالحفیظ لاکھو کے سانحہ ارتحال کی خبر غم نے 1970ء کی دہائی کے آخری تین برسوں اور 1980ء کی دہائی کی یادوں کے دفتر کو کھول دیا۔ کیسے کیسے روشن کردار اور صاحبان استقامت دنیائے سرائے سے پڑائو اٹھائے اپنے خالق حقیقی سے ملاقات کے لئے روانہ ہوگئے۔ عبدالحفیظ لاکھو بھی حریت فکر کے ان مجاہدوں میں سے تھے جنہوں نے آئین و قانون کی بالا دستی’ شہری آزادیوں اور قومی جمہوریت کے لئے جدوجہد کو مقصد حیات بنائے رکھا۔ سیاست و صحافت کے اس طالب علم کو مرحوم لاکھو سے تعلق خاطر پر ہمیشہ فخر رہا اور رہے گا۔ ان کی زندگی اور جدوجہد ہماری نسل کے لئے سرمایہ افتخار تو ہے ہی ہماری آئندہ نسلیں بھی ان کی فکری استقامت پر عزم جدوجہد اور عوام کے حق حاکمیت پر یقین کامل سے رہنمائی حاصل کریں گی۔ جناب لاکھو ایک قانون دان کی حیثیت سے وکلاء کے اس پینل کا حصہ تھے جنہوں نے نظریہ ضرورت کے مقتول سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ لڑا۔ قانونی حلقوں میں فوجداری لاء کے ماہر کی شہرت رکھنے والے کو عوامی مقبولیت گو بھٹو صاحب کے وکیل کے طور پر ملی مگر ان کی شہرت کو چار چاند اس وقت لگے جب انہوں نے جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے خلاف ایم آر ڈی کی پاکستان بچائو تحریک میں حصہ لیتے ہوئے مردانہ وار ریاستی جبر و تشدد کا مقابلہ کیا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جناب لاکھو ہماری جمہوری جدوجہد کی تاریخ کا روشن کردار تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں انہوں نے سندھ کے بے نوا سیاسی کارکنوں کے بلا معاوضہ مقدمات لڑے بلکہ یہ جناب لاکھو ہی تھے جنہوں نے ستمبر 1979ء میں چند وکیل ساتھیوں اور کچھ دوسرے دوستوں کے تعاون سے سندھ کی جیلوں میں مارشل لاء کے تحت بند سیاسی قیدیوں کے لئے ریلیف فنڈ قائم کیا۔ سیاسی قیدیوں کے ریلیف فنڈ سے انہوں نے سندھ کی جیلوں میں بند کچلے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کی بھی مدد کی۔ ان کی سربراہی میں قائم وکلاء کی کمیٹی نے کراچی سمیت پورے سندھ میں کسی حق خدمت کے بغیرسیاسی کارکنوں کے مقدمات لڑے ۔ یہی نہیں بلکہ ان کی زندگی بھر کی شہرت یہ رہی کہ انہوں نے کبھی کسی ایسے سائل کو اپنے دفتر سے مایوس نہیں جانے دیا جو بڑی عدالتوں میں اپنے مقدمات کی سماعت کے لئے وکیل کرنے کی اسطاعت نہیں رکھتے تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک بحالی جمہوریت جسے پاکستان بچائو تحریک کا نام دیا گیا تھا کے دوران جب ریاستی مشینری نے نوابشاہ میں حکومت کے خلاف نکلنے والے سندھ کی تاریخ میں خواتین کے سب سے بڑے احتجاجی جلوس پر وحشیانہ تشدد کیا اور بعد ازاں لاکھو چند ساتھیوں سمیت گرفتار کرلئے گئے ‘ گرفتاری کے اگلے روز انہیں جب ساتھیوں سمیت فوجی عدالت میں پیش کیا گیا تو جناب لاکھو اور ان کے ساتھی وکلاء مارشل لاء ختم کرو’ جمہوریت بحال کرو کے نعرے لگاتے رہے۔ ہمارے یہ محبوب دوست اور قانون دان اپنی مثال آپ تھے۔ سندھ کے فوجی گورنر جنرل ایس ایم عباسی نے انہیں صوبائی وزیر قانون بنانے کی پیشکش کی تو انہوں نے اس ترغیب کو مسترد کرتے ہوئے جنرل عباسی سے پوچھا” مسٹر جنرل! وہ قانون ہے کہاں جس کا مجھے وزیر بنایا جاناہے۔ ملک میں تو مارشل لاء نافذ ہے’ فوجی حکومت کا بھونپو بن کر میں اپنی عاقبت کیوں خراب کروں؟” ذوالفقار علی بھٹو’ بیگم نصرت بھٹو ‘ شہید جمہوریت بے نظیر بھٹو سمیت سینکڑوں سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کے مقدمات میں وکیل کے طور پر پیش ہونے والے اس قانون دان سے فوجی انتظامیہ اور اس کے ساجھے دار بہت پریشان تھے۔ جنرل ضیاء الحق کا نفس ناطقہ سمجھے جانے والے جسٹس غوث علی شاہ کو انتخابی عمل سے گزارے بغیر فوجی حکومت نے سندھ کا وزیر اعلیٰ بنایا۔( غوث علی شاہ بعد ازاں ضمنی انتخابات کے ذریعے سندھ اسمبلی کے رکن بنوائے گئے) تو جناب لاکھو نے ایک جج کے اس عمل کو انصاف کا منہ کالا کرنے کے مترادف قرار دیا۔ اس ملک میں جمہوریت کے قیام کے لئے حریت فکر کے مجاہدں نے کیسی کیسی قربانیاں دیں اس کی تاریخ سے ہماری آج کی نسل کہ وہ فیس بکی مجاہدین نابلد ہیں جو سوشل میڈیا پر جمہوریت کو منہ بھر کر گالیاں دینے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ آج کون جانتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ریاستی تشدد سے شہید ہونے والے دو نوجوان سندھی سیاسی رہنمائوں نذیر عباسی شہید اور فقیر اقبال ہسبانی شہید کی پر اسرار گمشدگی کے خلاف عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے والے عبدالحفیظ لاکھو ہی تھے۔ شرف آدمیت میں گندھے لاکھو اب ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ اپنے خالق حقیقی سے ملاقات کے لئے حیات ابدی کے سفر پر روانہ ہو چکے۔ مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ پاکستان اور بالخصوص سندھ اپنے ایک ایسے سچے فرزند سے محروم ہوگیا جس نے پوری زندگی قانون کی حاکمیت کے قیام کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے بسر کی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم لاکھو کے درجات بلند فرمائے اور اس ملک کو سچی’ اجلی اور حقیقی جمہوریت کی روشن صبح دیکھنے کی توفیق عطا کرے۔آمین

یہ بھی پڑھئے:  نازک موڑ اور ببول کے درخت | اکرم شیخ

بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس