Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سانحات پر عقیدوں کا چورن بیچتے مچونے

قصور میں معصوم بچی زینب امین کی بے حرمتی اور سفاکانہ قتل پر جس طرح پورا پاکستان اٹھ کھڑا ہوا اس سے یہ تو طے ہوا کہ انسانیت ابھی بالکل مری نہیں ہے ، سانس لے رہی ہے۔ اس احتجاج کے دوران دو تین باتیں ایسی بھی ہوئیں جن پر کچھ لوگوں کی سوچ پر حیرانی ہوئی۔ اولاََ ایک حلقہ یہ کہہ رہا ہے کہ اصل مجرم زینب کے والدین ہیں جو بچی کو چھوڑ کر عمرہ کرنے چلے گئے۔ دوسری طرف ایک حلقہ یہ سوال لے کر آن موجود ہوا کہ قصور کی مقتولہ بچی کے لئے آسمان سر پر اٹھائے لوگوں نے ڈیرہ اسماعیل خان یا کسی اور مقام پر ہوئے اس طرح یا اس سے ملتے جلتے سانحہ پر آواز کیوں نہیں اٹھائی، کیا ظلم صرف پنجاب میں ہوتا ہے؟  لیکن ان دونوں آراء سے زیادہ گھمبیر، تلخ اور قابلِ نفرت بات وہ رہی جو خود مقتولہ زینب کے والد  محمد امین نے کہی۔ انہوں نے پنجاب حکومت کی قائم کردہ جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدابخش پر یہ کہہ کر عدم اعتماد کا  اظہار کیا کہ وہ قادیانی ہیں اس لئے کسی مسلمان افسر کو جے آئی ٹی کا سربراہ بنایا جائے۔ گو اس گفتگو  کے دوسرے حصے میں وہ یہ کہتے دکھائی دیے کہ ابوبکر خدا بخش نے فلاں فلاں کیس خراب کیا۔ ان کے مؤقف پر انسانیت پرستوں کو رنج ہوا، ان غمزدہ لوگوں میں یہ تحریر نویس بھی شامل ہے۔

ہماری رائے بڑی سادہ تھی اور ہے۔ محترم محمد امین ، ابوبکر خدا بخش کے عقیدے کا ذکر کیے بغیر بھی ان پر عدم اعتماد کا اظہار کرسکتے تھے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا اور کیوں اس بات کو لے کر مذہبی بوزنوں کا ایک طبقہ "جہاد” پر تل گیا۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے مکتب سے تعلق رکھنے والے چند  حضرات دوسروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی شدت پسندی پر اتر آئے۔ اس پر حیرانی اس لئے ہوئی کہ جناب قادری اپنی ذات میں صلح کل کے پرچارک اور اچھے انسان دوست ہیں۔

تو کیا ان کے عقیدت مند مولووی خادم حسین کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور آصف اشرف جلالی کی کتابوں سے خوفزدہ ہیں؟ کم از کم مجھے ایسا لگتا ہے کہ مولوی خادم حسین کی سلسلہ وار گالیوں کے سامنے ان لوگوں نے سپر ڈال دی ہے اور کوشش کر رہے ہیں کہ وہ یہ ثابت کریں کہ منہاج القرآن والے یا قادری کے عقیدت مند ، مولوی خادم سے بڑے قادیانی دشمن ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ مذہب و عقیدہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ سماج کے ارتقائی سفر اور قانون کی بالادستی  کو یقینی بنانے کے لئے مذہب و عقیدوں کی  بیساکھیوں کی نہیں زندہ انسانی رویوں کی ضرورت ہے۔ ایک بات اور ، مولوی خادم حسین اور کچھ منہاجی، پولیس  آفیسر ابوبکر خدابخش کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جو طوفانِ بدتمیزی برپا کیے ہوئے ہیں اس سے اگر تنگ نظر سماج میں کوئی سانحہ رونما ہوا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟

یہ بھی پڑھئے:  زینب کا خط اپنے باپ امین کے نام

ہم آگے بڑھتے ہیں۔ زینب کے والد نےجے آئی ٹی کے سربراہ کے عقیدے کی بنا پر جس عدم اعتماد کا ظہار کیا یہ ان کی ذاتی سوچ تھی یا کسی کی ایما پر ایسا کہا؟  دستیاب معلومات کی بنا پر یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ ایسا کرنے کا مشورہ انہیں مولوی خادم حسین نے دیا۔ میرے خیال میں خادم حسین  کی اس بات کو آگے بڑھانے سے قبل انہیں منہاج القرآن کی قیادت سے بات کرلینی چاہیے تھی۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں  نے بات کی ہو (میری اطلاع یہ ہے کہ مشورہ نہیں کیا گیا) ایسا ہے تو کیا منہاج القرآن والے بھی ایک المناک سانحہ کو اس گھٹیا سیاست کا حصہ بنانے پر رضا مند ہیں جو مولوی خادم حسین نے شروع کر رکھی ہے؟

دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شریف خاندان  سے دشمنی میں اس بات کو بھی ہتھیار کے طور پر اگلے مرحلے میں شامل کرنے کا فیصلہ منہاج القرآن والے بھی کرچکے ہوں لیکن اعتراف سے گریزاں  ہوں کہ 17 جنوری سے جب وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن  کے حوالے سے اپنی تحریک شروع کریں تو نواز لیگ اور شریف خاندان پر قادیانی نواز ہونے کا الزام لگا کر لوگوں کے جذبات بھڑکائے جائیں۔ ایسا ہے تو پھر 1977 والی پی این اے والی تحریک کا نقشہ بنتا دکھائی دے رہا ہے جو شروع تو انتخابی دھاندلی کے الزامات پر ہوئی تھی پھر منصورہ کی ٹیکسال سے نکلے نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے نفاذ کا مطالبہ گھڑ کر لایا گیا اور پھر 70-60 لوگ مروا کر گیارہ سالہ آمریت ہمارے گلے میں ڈلوا دی گئی۔

یہ وہ نکتہ ہے جو ہمیں پیپلز پارٹی اور ان دوسری جماعتوں سے سوال کرنے کا حق دے رہا ہے کہ کیا اگر 17 جنوری والی تحریک میں مذہب کو ہتھیار بنایا گیا تو پیپلز پارٹی محض شریف دشمنی میں اپنی بچی کھچی سیاسی ساکھ داؤ پر لگادے گی؟ لیکن کیوں نہ ہم پیپلز پارٹی سے پہلے یہ سوال  ڈاکٹر طاہر القادری سے پوچھ لیں کہ حضور! کیا ساری عمر صلح کل کا درس دیتے آپ تھکاوٹ محسوس کرنے لگے ہیں اور اب مذہب و عقیدے کو ہتھیار بنا کر کشتوں کے پشتے لگانے کا ارادہ ہے؟ یہاں یہ بھی عرض کر دوں  کہ سوشل میڈیا پر جو مچونے بے ہنگم باتوں کے ساتھ اس فقیر کو گالیوں سے نواز رہے ہیں انہیں ان کی زبان میں جواب دینا بہت مشکل ہے البتہ یہ ضرور عرض کروں گا کہ دستیاب مسلم فرقوں کے ایک دوسرے بارے کافرو زندیق ، مشرک و حرامی جیسے سنہری الفاظوں والے فتوے ضرور پڑھ لیں تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ خود ان کی اپنی مسلمانی کہاں کھڑی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  پاکستان درندوں کے شکنجے میں

مکرر عرض ہے کہ معصوم بچی زینب کی بے حرمتی اور قتل ہر صاحب اولاد کے لئے دکھ کا باعث ہے۔ اسی قصور میں اس سے قبل 10 بچیوں کی عصمت و جان گئی۔ گیارہویں بچی ذہنی مریضہ بن چکی۔ پنجاب سمیت دوسرے صوبوں میں بچوں کی بے حرمتی اور قتل کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ جن لمحوں میں یہ سطور لکھ رہا تھا چار افسوسناک خبریں موصول ہوئیں۔ کامونکی میں ایک مدرسہ کی معصوم  طالبہ کی عصمت دری کی گئی۔ گجرات میں ایک  پولیس کانسٹیبل تین نو عمر بچوں سے بدفعلی کے جرم میں بچوں کی طرف سے شناخت کیے جانے پر گرفتار ہوا، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک کمسن طالب علم کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے ساتھ اس فعل کی ویڈیو بھی بنائی گئی جبکہ شاہ پور میں ایک 13 سالہ بچے کے ساتھ زیادتی ثابت ہونے پر مقدمہ درج کر لیا گیا۔ تواتر کے ساتھ ہوتے یہ واقعات اس امر کے متقاضی ہیں کہ معاشرے میں اصلاح احوال کے لئے تعلیم و تربیت کے ساتھ جن دوسرے اقدامات کی ضرورت ہے ان پر بلاتاخیر عمل کیا جائے۔ حرف آخر یہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سبھی ڈھنگ سے اور ٹھنڈے دل سے اس امر پر غور کریں کہ جو عقیدے اور مذاہب تطہیر ذات و سماج میں معاون نہیں بن رہے ان کا بوجھ مزید لادے رہنا ہے یا پھر انسان دوستی، علم ، مکالمے، مساوات اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں انفرادی و اجتماعی کردار ادا کرنا چاہیے؟ کیا ہم میں اتنی بالغ نظری  موجود ہے کہ فتوؤں کی چاند ماری کی بجائے اس سوال پر ٹھنڈے دل سے غور کریں؟

حالیہ بلاگ پوسٹس