ہمارے فوجی ترجمان کہتے ہیں "عزت کی قیمت پر امداد نہیں چاہیے”۔ ادھر ایک امریکی عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کو مزید قرضے دینے سے روکا جاسکتا ہے۔ دفتر خارجہ والے کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اب تک 120 بلین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ افغانستان نے ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان کے خلاف اقدامات کی تائید کر دی ہے۔ وزیرخارجہ فرماتے ہیں پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی کوئی خفیہ پناہ گاہ نہیں ہے۔ پاک امریکہ تعلقات میں در آئے نئے بگاڑ کے بعد کی یہ چند نمونے کی خبریں ہیں۔ ویسے خبر یہ بھی ہے کہ امریکہ کے پرانے لسوڑی مارکہ اتحادی یعنی مذہبی رہنما تو کہہ رہے ہیں کہ امریکی سفیر کو ملک سے نکال دیا جائے تاکہ وہ پوچھتا پھرے "مجھے کیوں نکالا” ۔ چند سخت امریکی اقدامات میں ایک اقدام یہ بھی ہے کہ امریکیوں نے پاکستان کو مذہبی عدم رواداری والی واچ لسٹ میں ڈال دیا ہے۔ اس کلب میں پہلے چین، ایران، سعودی عرب اور سوڈان شامل ہیں۔
کیا امریکہ خطے میں کوئی نیا کھیل کھیلنے جا رہا ہے یا وہ اس سارے شور شرابے کی آڑ لے کر افغانستان سے نکلنے کا ارادہ رکھتا ہے؟ تجزیہ نگاروں کی اکثریت یہ کہہ رہی ہے کہ امریکیوں کے پیشِ نظر دو باتیں ہیں۔ اولاََ سی پیک اور پاکستان کے بعض معاملات میں چین کے ساتھ روس پر انحصار بڑھانا۔ ثانیاََ ، بھارت کی ہر ممکن سرپرستی اور پاکستان کو مجبور کرنا کہ وہ مسئلہ کشمیر پر بھارتی خواہشات کے مطابق اقدامات کرے۔ لیکن جس سوال کو ہمارے ہاں سستی قسم کی حب الوطنی کے شور میں نظر انداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہماری پالیسیاں ،بالخصوص انسداد دہشت گردی کے حوالے سے دوہرے معیار کی حامل ہیں۔ لیکن یہ افغانستان کو کیا ہوا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شتر بے مہار ٹائپ افغان پالیسی نے یہی دن دکھانے تھے۔ ہمیں افغانوں سے شکوہ کرنے کی بجائے اپنی پالیسیوں اور ترجیحات کا ازسرِ نو جائزہ لینا ہو گا۔ جائزہ لیتے وقت دو باتیں بھی بہرطور مدنظر رکھنی ہوں گی۔ اولاََ افغانستان ہمارا پڑوسی اور مسلم برادرملک ہے۔ ثانیاََ سرحد کے دونوںطرف کے کروڑوں پشتونوں کی ذات برادری اور قبیلے مشترکہ ہیں اور لاکھوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکی فیصلے کر چکے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے پیدائشی حریف ممالک بھارت اور پاکستان میں سے فقط بھارت ہی ایٹمی طاقت ہو اور خطے میں سامراجی کردار ادا کرے جسے امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہو۔ یہ سمجھنا کہ یہ سوچ صرف ٹرمپ انتظامیہ کی ہے احمقوں کا خواب ہو گا۔ امریکی ریاست کی پالیسیاں عہدیداروں کے عمل کے لئے بنتی ہیں۔ ٹرمپ ان پالیسیوں کا چہرہ ہیں۔ ایک طویل مدت سے ان سطور میں خطے میں امریکہ کی بنائی ہوئی دہشت گرد تنظیموں کے کردار کے بارے میں عرض کرتے ہوئے متوجہ کرتا چلا آرہا ہوں کہ القاعدہ، جندللہ، لشکر جھنگوی العالمی اور اب داعش کو منظم کرنے والے امریکہ کے سامنے دو زانوں ہونے کی بجائے اپنے ملکی مفادات میں سوال کیجئے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے پالیسی ساز چونکہ خود بھی ملکی مفادات کا ادراک نہیں رکھتے اس لئے امریکہ کو آئینہ دکھانے اور اقوام کی برادری اس کے دوغلے پن کو بے نقاب کرنے کی بجائے اطاعت گزاری سے سرشار ہیں۔
حالیہ پاک امریکہ تعلقات کے بگاڑ کے دن سے آج تک بیان صفائی پیش کیے جارہے ہیں یا منہ بسور کر یہ پوچھا جا رہا ہے کہ ٹرمپ سرکار نے ایسا کیوں کیا؟ حضور! کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ گھوڑوں پر کاٹھیاں ڈالیں، ایٹمی بموں سے بھرے تھیلے اٹھا لیں اور میزائل کندھوں پر رکھ کر کسی معرکہ "حق و باطل” میں کود پڑیں۔ عرض یہی کیا جارہا ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر دو کام کریں۔ پہلا اپنی ہمہ قسم کی پالیسیوں پر نظر ثانی بذریعہ پارلیمان اور دوسرا کم از کم پچھلے پندرہ سال کے دوران دہشت گردی سے معیشت کو پہنچے نقصان بارے دنیا کو آگاہ کیجئے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پندرہ برسوں کے دوران معیشت کو پہنچے 300 ارب ڈالر کے نقصان کا بھولے سے بھی کوئی ذکر نہیں کرتا۔ کیوں مارگلہ کی پہاڑیوں میں سونا نکل آیا ہے کہ ہم نقصان پورا کر لیں گے؟
یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے دوسرے اقدامات کے ساتھ اس امر کی ضرورت بھی ہے کہ ایک قومی تحقیقاتی کمیشن کیا جائے جو دو مرحلوں کی افغان پالیسی کے نتیجے میں ارب پتی ہو جانے والے جہادیوں ، جرنیلوں ، سول بیوروکریسی، جرنلسٹوں اور دوسرے لوگوں کے اثاثہ جات کو عوام کے سامنے لائے۔ کیا یہاں فوج کے صوبیدار میجر کے پوتے اربون کھربوں میں نہیں کھیل رہے؟ نوشہرہ میں ایک معمولی سے حکمت خانے والوں کے آج اربوں کے اثانے نہیں؟ یہ دو مثالیں ہیں ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ دہشت گردی اور اس سے قبل کے جہاد دونوں کو کاروبار بنانے اور مال سمیٹنے والے اس ملک کے مجرم ہیں۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہم روزِ اول سے امریکہ کے دوست نہیں طفیلی تھے۔ معاف کیجئے گا طفیلیوں کی عزت نہیں ہوتی۔ لاکھ بیان دیجئے، بڑھکیں مارتے رہیں، حب الوطنی کی پھکی فروخت کریں مگر دنیا آپ سے پوچھے گی کہ کیسے کالعدم تنظیموں نے پہلے دفاع افغانستان کونسل بنائی اور اب دفاعِ پاکستان کونسل کے نام سے سودا فروخت کیا جا رہا ہے۔ لاریب امریکہ کو جواب دینا چاہیے مگر اپنی کج ادائیوں پر بھی نظر ڈالنے کی ضرور ت ہے۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی عدم رواداری کا جن بوتل سے باہر نکل کر اَت اٹھائے ہوئے ہے۔ اس جن کو باہر نکالنے کا الزام صرف اسٹیبلشمنٹ کو نہیں دیا جاسکتا۔ نون لیگ سمیت بہت ساری دینی و سیاسی جماعتیں شدت پسندوں کی سہولت کار ہیں۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ اقوام کی برادری کے پاس سنجیدہ سفارت کاری کے ذریعے اپنا مقدمہ لے کر جائیے لیکن اس سے پہلے اپنے گھر کے سارے کمرے اور صحن کے کونے کھدرے بھی دیکھ بھال لیجئے۔ ایک ایسے وقت میں جب ریاست اور آبادی کے مختلف طبقات کے درمیان عدم اعتماد نفرت میں تبدیل ہو رہا ہے کسی تاخیر کے بغیر ایسے اقدامات کیجئے کہ نفرت اور عدم اعتماد کا خاتمہ ہو تاکہ کسی مشکل صورتحال میں سب ایک دوسرے کے ہم قدم ہو کر کھڑے ہوں۔ دہشت گردی کے خلاف ہم نے تو جو کیا سو کیا ذرا ہمت کر کے امریکہ سے سوال کیجئے کہ پاکستانی ٹی ٹی پی کے دونوں گروپوں، جندللہ اور لشکر جھنگوی العالمی کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں کس نے فراہم کیں؟ ذہن نشین کر لیجئے اصلاح احوال کے بغیر اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ ممکن نہیں۔ اس امر کا خطرہ بہت بڑھ رہا ہے کہ امریکہ آنے والے دنوں میں مالیاتی اداروں کو پاکستان کو قرضے دینے سے روک دے اور کچھ پابندیاں بھی لگائے۔ ایسا ہوتا ہے تو کیا ہمارے سماج میں وہ یکتائی موجود ہے جو مشکل حالات کا مقابلہ کر سکے؟ فہمیدہ جواب یہ ہے کہ جی بالکل نہیں۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn