پچھلے کئی برسوں سے (جب سے الیکٹرانک میڈیا پاکستان میں وجود میں آیا ہے ) عسکری اداروں کے درجنوں سابقین اولاََ اولاََ تو دفاعی تجزئیہ نگار کے طور پر چینلوں کی سکرین پر ظاہر ہوئے پھر آہستہ آہستہ ہر فن مولا بنتے چلے گئے۔ اب صورت یہ ہے کہ چارپائی بننے سے لنٹر ڈالنے تک ہر کام میں یہ اپنی پیشہ وارانہ مہارت ایسے ثابت کرتے ہیں کہ ایک بار فقیر راحموں نے پوچھ لیا "شاہ جی! ان نابغوں کو ان کے اداروں نے ریٹائر کیوں کیا یہ تو بہت کام کے لوگ ہیں "؟ آپ ٹی وی چینلوں کے سیاپا فروشوں کی شام کے اوقات میں لگی عدالتوں کی جھلکیاں دیکھ لیجئے ہر چینل پر ایک سے بڑھ کر ایک نابغہ بیٹھا زمین آسمان ایک کر رہا ہوگا۔ کرپشن ، جمہوریت کے نقائص، فوج کی خدمات اور ہر قسم کے موضوع پر آستینیں الٹ کر جذباتی گفتگو کرنے والے ایک نابغے سے کچھ عرصہ پیشتر ایک شادی کی تقریب میں ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کسی کو بولنے کا موقع نہ دیا۔ پونے دو گھنٹے تک ملکی وعالمی حالات کے ساتھ بکواس جمہوریت پر "پرمغز” بھاشن دیتے رہے۔ درمیان میں ایک بار پانی پینے کے لئے رکے تو سوال کیا "حضور! صرف یہ بتا دیجئے کہ ایک بار لولی لنگڑی جمہوریت اور تین بار طبقاتی جمہوریت کا تختہ الٹ کر تقریباََ 34 برس آپ کا ادارہ اقتدار پر براہِ راست قابض رہا۔ ان 34 برسوں کے دوران ہی ملک ٹوٹا، سیاچن بھارت کے قبضے میں گیا، پشاور میں امریکہ کو فضائی اڈا دینے سے لے کر امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ اور دیگر معاملات میں گردن مارشل لاؤں میں پھنسائی گئی یا لولی لنگڑی جمہوریت اور طبقاتی جمہوریت کے ادوار میں”؟
سوال کا جواب دینے کی بجائے انہوں نے حقارت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے کہا، "تم کیا جانو کہ فوج کیسے اس ملک کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بچائے ہوئے ہے”۔ ان کی بات کاٹتے ہوئے کہہ ہی دیا "یہ اندرونی دشمن تخلیق کس نے کیے اور پالے کس نے”؟ اب حضرت کا غصہ دیدنی تھا۔ موصوف ہتھے سے اکھڑ گئے۔ ان لمحوں مین ایک دوست مدد کو آئے اور موصوف سے میرا تعارف کروایا۔ یہ سنتے ہی کہ میں صحافی ہوں انہوں نے لہجے میں حقارت مزید بڑھاتے ہوئے کہا "پاکستان میں صحافت کہاں ، صحافت تو یورپ میں ہوتی ہے” میں نے لقمہ دیا "جی بالکل، یورپ کی فوج اقتدار پر قبضہ بھی نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں کوئی ادارہ اپنا اصل کام نہیں کرتا تو ہم کیوں کریں”؟ انہیں توقع نہیں تھی ایسے جواب کی، بہت بدمزہ ہوئے اور سویٹ ڈش لینے چل دیئے۔ ذاتی زندگی کا ایک قصہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ نابغے سارے ہی ایسے ہیں۔ اپنے سوا سب کو حقیر اور جاہل سمجھنے والے۔ اپنے بارے میں ان کو زعم ہے کہ ان کی تخلیق ہی اعلیٰ و ارفع مقصد کے لئے ہوئی ہے اس لئے "وہ سب ” جانتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عسکری دانش کے ان "نابغوں” کو تجزئیہ کاروں کے طور پر ٹی وی چینل پر بٹھانے میں آئی ایس پی آر نے لابنگ کی۔ سیکورٹی اسٹیٹ میں کسی چینل مالک کی ہمت ہے کہ وہ انہیں جلوہ افروز نہ ہونے دے؟ اس پر ستم یہ ہے کہ سیاپا فروشوں کی اکثریت کا خمیر بھی جمہوریت دشمنی اور بھاڑے کی حب الوطنی سے گندھا ہوا ہے۔ ان کی حالت بھی یہی ہے کہ خود ہی مدعی ، وکیل اور جج بن جاتے ہیں۔فقیر راحموں نے انہیں پیراشوٹر کا نام دے رکھا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ہیں بھی پیراشوٹر ہی، صحافتی اقدار ، علم و مطالعے سے محروم اکثریت صرف شورمچانے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔
عسکری دانش کے ان نابغوں اور سیاپافروشوں کے ساتھ چند سادہ تجزئیہ کار بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ ان سادہ تجزئیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ساری برائیوں کی جڑ سول حکومت ہے اور پاکستان سول حکومت کے لئے نہیں بلکہ ایسی ٹیکنو کریٹ حکومت کے لئے بنا ہے۔ جو جی ایچ کیو کے فراہم کردہ نابغوں کی رہنمائی میں اس ملک کو ٹیک آف اور پرواز کرنے کے لئے تیار کر سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نابغے سیاپا فروش اور سادہ تجزئیہ کار تینوں کسی کی نہیں سنتے اور خود کو ہر فن مولا قسم کی چیز سمجھتے ہیں۔ ثانیاََ یہ کہ ان تینوں اقسام کے خواتین و حضرات کا یہ بھی خیال ہے کہ حکومت اگر ان کے مشوروں سے پالیسیاں بنائے تو صرف چند ہفتوں میں امریکہ کو سو سال پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔ یہ اور باتے ہے کہ ان کے اہلخانہ گھریلو پالیسیاں بنانے کے لئے ان سے مشورہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ایک دو تو ایسے بھی ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آسمان کی خبریں رکھتے ہیں۔ ان ساری معروضات کا مقصد یہ ہے کہ جمہوریت کو منہ بھر کے گالیاں دینے اور عوام کو کوسنے والون نے کبھی سوچا ہے کہ طبقاتی نظام اور مالکان کی ساجھے داری سے قائم ہوئی حکومتیں جمہوریت کا چہرہ کیسے کہلائیں گی۔ اپنے سوا ہر شخص کو کرپٹ قرار دینے والے ان ایماندارنِ اعظم سے کبھی ان کے ذاتی دھندوں بارے سوال کیا جائے تو منہ سے جھاگ بہاتے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ جس اہم سوال کو یہ سب خواتین و حضرات نظر انداز کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا عوام کے حق حکمرانی کے احترام اور سماجی و معاشی انصاف کے بغیر کوئی ریاست اپنا جغرافیہ برقرار رکھ سکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ دو تین فیصد بالادست 98-97 فیصد اکثریت پر وردی اور بنا وردی کی وارداتوں کے ذریعے مسلط رہیں؟ بجا ہے کہ سیاستدانوں میں سے بعض ،چلیں 95 فیصد کرپٹ ہیں مگر ریاست کے دوسرے ادارےاور خود میڈیا ہاؤسز اور میڈیا مینوں میں سے کس کا دامن صاف ہے؟
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ تطہیرسماج اور اعلیٰ اقدار کی حامل حکومت دونوں تطہیر ذات کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ 8 ارب روپے کا ٹیکس دینے کی بجائے کوئی میڈیا ہاؤس عدالت سے حکم امتناعی لے لے اور اس کے الیکٹرونک میڈیا چینل اور اخبارات صرف سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالتے رہیں۔ معاف کیجئے گا پورا سچ ناگوار تو ہوتا ہے مگر آدھا سچ یا چوتھائی سچ خطرناک ہوتا ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ کرپشن کی دھول سے سب کے چہرے اٹے ہوئے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn