اتوار کی صبح زرغون روڈ کوئٹہ کے ایک چرچ پر ہوئے خودکش حملے میں19 افراد جان سے گئے اور60 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ ایک حملہ آور چرچ کے مین گیٹ پر مارا گیا، دوسرے نے احاطے میں خود کو اڑا لیا جبکہ دو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ مرنے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ داعش خراسان زون نے اس حملے کی ذمہ داری قبو ل کر کے بلوچستان حکومت کے اُن چند جانبازوں کا منہ بند کر دیا جو کسی ابتدائی تفتیش کے بغیر بڑ بولوں کی طرح اس سانحے کا ذمہ دار بی ایل اے کو ٹھہر ا رہے تھے۔ مسیحی برادری اپنی عید مقدس۔ میلاد حضرت عیسیٰ ؑ سے قبل جس رنج والم سے دوچار ہوئی اس درد کو ان کے دیگر پاکستانی بہن بھائی اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔ ہم 16دسمبر کو سانحہ آرمی پبلک سکول کو لے کر کچھ افسوس اور زیادہ قلابے ملا رہے تھے۔ اب بھی کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسیحی برادری کے9 افراد نے قربانی دے کر دہشت گردوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ معاف کیجئے گا! مرد وزن اور بچے چرچ میں عبادت کیلئے گئے تھے ناکہ محاذ جنگ پر۔ ثانیاً یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ قربانیوں کی کہانیاں بہت ہو چکیں۔ دہشت گرد کیا چاہتے ہیں، ان کے مقاصد کیا ہیں اور یہ کہ کیا لگ بھگ 10دن قبل محکمہ داخلہ بلوچستان کے پاس حساس اداروں کی یہ اطلاع پہنچ چکی تھی کہ دہشت گرد 15سے 25 دسمبر کے دوران شہر میں بعض حساس عمارات اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں؟۔ ایسا ہے تو پھر حفاظتی پلان کیا تھا؟۔ پورے چار دہشت گرد شہر کے ناکے پھلانگتے زرغون روڈ کے چرچ تک پہنچے اوردو بچ کر نکلنے میں کامیاب ہوگئے؟۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان نے اس حوالے سے دو باتیں ارشاد فرمائیں۔ اولاً یہ کہ تخریب کار عناصر یہیں ہم سب کے درمیان موجود ہوتے ہیں۔ دوسرے عام لوگوں کی طرح، اس لئے پتہ نہیں چل پاتا ۔ ثانیاً یہ کہ دہشت گرد افغانستان سے چلے اور کوئٹہ پہنچ کر واردات کر گزرے۔
کاکڑ صاحب! آپ کی دونوں باتوں میں جھول ہے۔ دہشت گرد اگر ہمیں لوگوں کے اندر ہوتے ہیں تو انٹیلی جنس ادارے کیا کرتے ہیں ؟ سوال بہت عام فہم ہے وہ یہ کہ ہم لکیریں پیٹنے کے عادی کیوں ہیں۔ سانپ مارتے ہیں نہ سانپوں کی پرورش کے مقامات پر کوئی کارروائی کرتے ہیں؟ سانحہ کوئٹہ پہلا واقع نہیں یہ شہر ہر ہفتہ یامہینہ بھر بعد اپنے پیاروں کے جنازے دیکھتا ہے ہمارے پاس تعزیتوں، تشفیوں اور ملتی جلتی باتوں کے سوا کیا رکھا ہے ۔ حضور! ہم حالت جنگ میں ہیں۔ دشمن ایسا ہے کہ اس کے بھائی بند ہمارے ارد گرد کے گلی محلوں میں موجود ہیں۔ لمبی اور پراثر بھل صفائی کی ضرورت ہے مگر کرے گا کون۔ خدا لگتی بات یہ ہے کہ یہی سوال اہم ترین ہے۔ لمحہ موجود کے حقائق بہت تلخ ہیں۔ سانحات ہمارے تعاقب میں ہیں،جی نہیں ہمارے اندر پل بڑھ رہے ہیں۔ جس اصلاح احوال کی ضرورت ہے وہ کسی کی ترجیح نہیں۔ فقط یہ کہہ کر جی بہلا لیتے ہیں کہ شکر ہے بروقت اقدام سے بڑا نقصان نہیں ہوا۔ قرآن عظیم الشان نے تو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا ہے۔ اتوار کے روز کوئٹہ میں،9 بار انسانیت قتل ہوئی اور پچھلے پندرہ سولہ سالوں کے دوران 70-75 ہزار سے زائد بار۔ تلخ نوائی کی پیشگی معذرت۔ کیا اس ملک کے بچے، مرد وخواتین اسی طرح مارے جاتے رہیں گے اور محض چند سطری بیانات سے ذمہ داریاں پوری ہو جائیں گی؟۔
معاف کیجئے گا کرنے کے کاموں پر توجہ دیجئے ۔ دہشت گردی راتوں رات پھیلی نا ایک رات میں صفایا ممکن ہے مگر پندرہ سولہ برسوں میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی سرکار، لوگوں کے دُکھ سُننے کا حوصلہ کیجئے۔ یہ ہمارے اور آپ کے نوحے ہیں۔ اصلاح احوال کیلئے محض آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کافی نہیں۔ ایک جامع پلان کی ضرورت ہے۔ رویئے بدلنا ہوں گے۔ تعلیمی نصاب، طور طریقے، پسند وناپسند کا کھیل بند کرنا ہوگا۔ ریاست، حکومت اور سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر اعلان کرنا ہوگا کہ کوئی بھی کسی ایسی فہم کے حامل لوگوں سے تعاون نہیں کرےگا جو شدت پسندی کو غذا فراہم کرنے کا ذریعہ بنے۔ یہ 22 کرورڑ لوگوں کا ملک ہے اور ان 22 کروڑ لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جان پائیں کہ ان کے عصر کو سنوارنے اور بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے ریاست، حکومت اور سیاسی جماعتیں کیا کر سکتی ہیں۔ مایوس اور نااُمید ہرگز نہیں ہوں لیکن نجانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ اعلانات اور دعوؤں کے باوجود دہشت گردی اور سہولت کاروں کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح نہیں۔ ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ عراق اور شام سے شکست کھا کر نکلنے والے داعش کے جنگجو خلافت خراسان کا سودا لیکر نئی مہم جوئی کیلئے پرتو ل رہے ہیں۔ خلافت خراسان کیا ہے؟۔ سادہ سا جواب یہ ہے کہ جو کچھ خلافت شام وعراق نے کیا۔ کیا ہم شام اور عراق جیسے حالات اور جرائم کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ جی ہرگز نہیں، ہمیں یکسوئی اپنانی ہوگی۔ بہت ادب کیساتھ عرض ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور پاکستانیوں کی جان ومال سے کھیلنے والے دہشت گرد ہوں یا ان کے سہولت کار کوئی بھی رتی برابر رعایت کا مستحق نہیں۔ اس بہتے ہوئے خون خاک نشیناں کا حساب لینے کیلئے جس عزم اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کسی تاخیر کے بغیر کیجئے، ہم سے مزید جنازے اٹھائے جاتے ہیں نہ بین ڈالے جاتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn