مکرر عرض ہے حالات کو جس سمت دکھیلا جا رہا ہے اس سمت کے اختتام پر پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس ابتری کا دروازہ مسلم لیگ (ن) نے کھولا ہے، ستم یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی غلطیوں پر شرمندہ ہونے یا لوگوں سے معذرت کرنے کی بجائے ملبہ اداروں پر ڈال رہی ہے، یہ صورتحال مزید تشویشناک ہے۔ سیاست وصحافت کے اس طالب علم کے خیال میں ایک قومی جمہوری سماج اور نظام کی عدم تشکیل کے سبھی مجرم ہیں، یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ تقریباً ساری سیاسی جماعتوں نے شدت پسندوں کے نخرے بوقت ضرورت اُٹھائے۔ کسی نے عام انتخابات کے موقع پر توکسی نے بلدیاتی انتخابات کے دوران، مگر لمحہ موجود کی صورتحال زیادہ گھمبیر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک نئی قسم کی انتہا پسندی سے دوچار ہونے والے ہیں۔ فرد اور خدا کے معاملات کو ازخود سنبھال لینے والے حضرات کو حالات اور نتائج کی سنگینی کا احساس نہیں۔ ایک کثیرالقومی اور کثیرالمسلکی معاشرے میں آگ لگانا آسان ہے مگر بجھانے پر کسی کو قدرت نہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جو عرض کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ انسان اور خدا کے معاملات میں مداخلت اور من پسند اقرار کیلئے شدت پسندی درست نہیں۔ 93 یا 95 فیصد مسلمان آبادی والے ملک میں اسلام اور ختم نبوتؐ کے تقدس کو کوئی خطرہ نہیں۔ کسی بھی سادہ لوح مسلمان کویہ معلوم ہے کہ ہر دو سے انحراف کیا مشکل پیدا کر سکتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پارلیمان میں انتخابی قوانین کے ازسرنو مرتب کئے جانے کے مرحلہ میں جو غلطی ہوئی اس کی درستگی ہو چکی۔ اب اگر کسی کو کسی کی شکل پسند نہیں تو یہ اور بات ہے ورنہ فہمیدہ انداز میں معاملات طے پاجانے کے بعد ہنگامے اُٹھانے کی ضرورت نہیں۔ جن حالات اور مسائل کا سامنا اس وقت ملک کو ہے یہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ اتحاد اور وحدت کیساتھ قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے۔ اندریں حالات بہت ادب سے عرض کروں گا کہ ذاتی خواہشات اور کسی محبوب ومعاون شخص کے ارادے کے معاملات کو قانون کی گرفت سے بچا نے کیلئے مذہبی تقدسات کی آڑ نہ لی جائے۔ یہ رسم چل پڑی تو پھر گلی گلی جو صورتحال ہوگی اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ اس کم لقمے کو بہت جانئے اور ملک پر رحم کیجئے جو پہلے ہی بحرانوں سے دوچار ہے۔دوسری بات پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے اس بیان کے حوالے سے ہے کہ ’’ملک کو نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے‘‘۔ یہ وہ بات ہے جو پچھلے تیس، پینتیس سالوں سے اس ملک سے قوم پرست اور آزاد خیال کرتے آرہے ہیں۔ اُن ساڑھے تین عشروں کے دوران پنجاب کی مسلمہ قیادت ہی عمرانی معاہدے کی بات پر بھڑک اُٹھتی تھی۔ خود جناب شہباز شریف اور ان کے برادر بزرگ نواز شریف یا مسلم لیگ (ن) نے ایسے کسی مطالبہ پر ماضی میں کیا کہا اور کس طرح کے الزامات عائد کئے یہاں انہیں دہرانا غیر ضروری ہے، البتہ یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اب جو عمرانی معاہدے کی بات کی جا رہی ہے اس میں اخلاص کم اور مفادات زیادہ ہیں۔ پنجاب کی قیادت اگر واقعتاً نئے عمرانی معاہدے کے سوال پر مخلص ہے تو پہلے اسے تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ پانچ قومیتی فیڈریشن ہے اور عمرانی معاہدہ بھی قومی اکائیوں کے درمیان ہونا چاہئے۔
فیڈریشن میں اس وقت قوموں کی جگہ صوبے اکائی ہیں۔ معاہدہ اگر صوبوں کے درمیان ہوتا ہے تو اس سے ایک تو ایک قومی اکائی سرائیکی یکسر نظر انداز ہو جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ پنجاب اپنے موجودہ مصنوعی حجم کی وجہ سے انصاف پر مبنی عمرانی معاہدے کی راہ میں حائل ہوگا۔ بلاشبہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بہت سارے معاملات پر ازسرنو غور وفکر کیساتھ قانون سازی ہو لیکن اس سے پہلے جو اہم ترین سوال ہے وہ یہ کہ کیا نیا عمرانی معاہدہ1973ء کے دستور کی روشنی میں ہو یا پورا دستور ازسرنو لکھا جائے؟۔ سیاست کے کسی بھی ادنیٰ سے طالب علم کیلئے بھی اس سوال کو یکسر نظر انداز کر دینا مشکل ہوگا۔ بہرطور یہ بھی حقیقت ہے کہ نئے عمرانی معاہدے کے سوال پر ملک گیر سطح پر مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ یہ تاثر نہ ملے کہ چونکہ پنجاب کی حکمران قیادت کو مسائل کا سامنا ہے اور وہ مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے عمرانی معاہدے کے نام پر دھول اُڑارہی ہے۔تیسری اہم بات یہ ہے کہ یہ تاثر بنیادی طور پر درست نہیں کہ فی الوقت مسلم لیگ (ن) کی جمہوریت اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی علمبردار ہے اور اس کی مخالفت جمہوریت دشمنی ہے اس طرح کی جمہوریت پسندی اور اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست مسلم لیگ (ن) نے سال 1999ء کے آخری اڑھائی مہینوں اور پھر 2000ء کے سال میں بھی کی تھی۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ سیاسی قوتیں دیکھتی رہ گئیں اور شریف خاندان فوجی حکومت سے معاہدہ کرکے ملک سے چلاگیا بعد ازاں 2002ء سے 2013کے درمیان مسلم لیگ (ن) پوری قوت کیساتھ اسٹیبلشمنٹ کے ہر اول دستے کے طور پر سرگرم عمل ہوئی، ان پانچ سالوں میں تو جمہوریت کی رگ پھڑک نہ پائی۔ اب پھر وہ 1999ء والی کہانی بیچ رہی ہے۔ کامل سنجید گی کیساتھ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ پچھلے ساڑھے چار سالوں کے دوران مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے مفاد عامہ میں کیا اقدامات اُٹھائے۔ غربت، بیروزگاری، بدامنی اور دوسرے مسائل پر قابو پانے کیلئے کیا اقدامات ہوئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کے سابق وزیرداخلہ شدت پسندوں کے گاڈ فادر بنے رہے، اب سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے بعد ڈاکٹر قادری کے مطالبات کی تائید کو اسٹیبلشمنٹ کی منشا قرار دیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ماڈل ٹاؤن میں ہوئی لشکرکشی اور انسانی جانوں کے ضیاع کو حکومت اور مسلم لیگ (ن) کا حق تسلیم کر لیا جائے؟ ثانیاً یہ کہ اگر کوئی بے بسی واقعتاً ہے تو انتخابی عمل کا دروازہ کھولئے تاکہ عوام نئی قیادت کا انتخاب کرسکیں۔
بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn