Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

جاوید ہاشمی اب مرضی کا سودا نہیں کرسکیں گے

محمد جاوید اختر قریشی المعروف مخدوم جاوید ہاشمی کی داستان بھی بہت عجیب ہے۔ وہ ملتان سے وہاڑی جانے والی سڑک پر ملتان سے 9میل کے فاصلے پر واقع تاریخی قصبے مخدوم رشید کے رہنے والے ہیں۔ گورنمنٹ ڈگری کالج ملتان میں ان کا داخلہ (داخلہ فیس) اسلامی جمعیت طلبہ نے کروایا تھا۔ 1970ء کی دہائی میں دائیں بازو کے مقبول ترین طلباء رہنما تھے۔ 1977ء کے انتخابات میں انہوں نے لاہور سے تحریک استقلال کے کوٹے پر قومی اتحاد سے پنجاب اسمبلی کے امیدوار کے طور پر ٹکٹ لیا۔ اس سے قبل وہ ینگ پاکستانیز نامی تنظیم بنانے کا تجربہ بھی کرچکے تھے۔ جولائی 1977ء میں جنرل ضیاء الحق‘ بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آئے۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے جاوید ہاشمی کو ثقافت اور نوجوانان کا وفاقی وزیر مملکت بنا دیا۔ 1985ء کی غیر جماعتی اسمبلی میں وہ کور کمانڈر ملتان اور ڈپٹی کمشنر کے تعاون سے پہنچے کیونکہ بڑے صاحب کا حکم تھا کہ ہمارا گھوڑا جیتنا چاہئے۔ انہیں امید تھی کہ جنرل ضیاء انہیں قومی اسمبلی کا سپیکر بنائیں گے۔ لیکن جب اس منصب کے لئے خواجہ محمد صفدر( خواجہ آصف کے والد) نامزد ہوئے تو وہ مخالف دھڑے میں چلے گئے۔ اس دھڑے کے سپیکر کے لئے امیدوار سید فخر امام تھے۔ فخر امام جیت گئے اور خواجہ محمد صفدر ہار گئے۔ ہاشمی قومی اسمبلی میں بننے والی آزاد اپوزیشن کاحصہ بن گئے۔ پھر ایک مرحلہ آیا جب فخر امام کے خلاف عدم اعتماد ہوا اور اگلے مرحلہ میں حامد ناصر چٹھہ سپیکر بن گئے۔ جنرل ضیاء نے اپنی بنائی اسمبلیاں توڑیں جونیجو حکومت کو برطرف کردیا۔ مسلم لیگ جونیجو گروپ اور فدا محمد خان گروپ میں تقسیم ہوگئی۔ فدا گروپ آگے چل کر مسلم لیگ (ن) بنا۔

ہاشمی مسلم لیگ(ن) میں یہ کہہ کر شامل ہوئے کہ وہ خاندانی طور پرمسلم لیگی ہیں یعنی خاندانی مسلم لیگی اسلامی جمعیت طلبہ میں رہا۔(آگ اور پانی کا میلاپ) ان کا نام آئی ایس آئی اور مہران بنک سے رقم لینے والوں کی فہرست میں بھی آیا۔ آئی ایس آئی والے پیسوں کی وہ تردید نہیں کرتے البتہ مہران بنک والے پیسوں بارے ان کا موقف ہے یہ رقم ان کی کی ہوئی سرمایہ کاری کی تھی۔ سرمایہ کاری کے لئے رقم کہاں سے آئی۔ راوی اور ہاشمی دونوں خاموش ہیں۔ نواز شریف نے انہیں وفاقی وزیر صحت بنایا۔ اکتوبر 1999ء میں جنرل مشرف نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر برسر اقتدار آئے۔ 15ماہ کی قید و بند نے پنجاب کے مرد آہن نواز شریف کے سارے کس بل نکال دئیے۔ وہ امریکہ‘ سعودی عرب اور قطر کی معرفت مشرف حکومت سے ڈیل کرکے خاندان سمیت نکل گئے اور جاتے ہوئے جاوید ہاشمی کو نون لیگ کا قائم مقام صدر اور راجہ ظفر الحق کو چیئر مین بنا گئے۔ پھر یہ ہوا کہ مشرف دور میں دو طاقتور اداروں کی باہمی لڑائی کو نہ سمجھ سکنے والے ہاشمی ایک ادارے کے جھانسے میں آئے اور متبادل لیڈر بننے پر تیار ہوگئے۔ انہیں متبادل لیڈر بننے کا خواب جنرل احتشام ضمیر نے دکھایا تھا۔ مگر انہیں کیانی کے زیر کمان ادارے نے غداری کے مقدمہ میں پھنسوا دیا۔ یہ جیل بہت بھاری رہی۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بننے کے امیدوار تھے مگر برا ہو امریکی سفیر کا جس نے مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ تبدیل کروا کے میاں نواز شریف سے اعلان کروا دیا کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان ہوں گے۔ کچھ واقفان حال کہتے ہیں شریف برادران بھی انہیں قائد حزب اختلاف نہیں بنانا چاہتے تھے۔ اگلے مرحلہ پر ہاشمی نے پارٹی سے کہا کہ انہیں زرداری کے خلاف صدارتی امیدوار بنایا جائے مگر نواز شریف نے اپنے پرانے محسن جسٹس سعید الزمان صدیقی کو ترجیح دی۔ ہاشمی شریف خاندان سے دور ہوتے چلے گئے۔ نجی محفلوں میں وہ شریف جوڑی اور چودھری نثار بارے میں جو کہتے وہ من و عن بلکہ کچھ اضافے کے ساتھ نون لیگ کے مالکوں تک پہنچ جاتا۔

یہ بھی پڑھئے:  پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اور تجارت | اکرم شیخ

پھر ایک دن وہ ملتان سے پی آئی اے جہاز میں بیٹھے اورکراچی پہنچ گئے جہاں عمران خان نے ان کا استقبال کیا۔ اسی شام وہ مزار قائد کے سائے میں منعقد ہونے والے تحریک انصاف کے جلسہ کے دوران تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ عمران خان نے انہیں پارٹی کا صدر بنا دیا۔ وہ تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی کو دیوار سے لگوانے کے ارمان لے کر داخل ہوئے مگر دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔ 2013ء میں جاوید ہاشمی‘ اعجاز چودھری اور محمود الرشید (یہ تینوں اسلامی جمعیت طلبہ کے پرانے رفیق تھے) پر الزام لگا کہ انہوں نے ملتان‘ لاہور اور گوجرانوالہ ڈویژنوں کے مختلف افراد سے پارٹی ٹکٹ دلوانے کے لئے پیسے لئے ہیں۔ حالانکہ عمران خان کے کہنے پر عثمان ڈار نے انہیں لاہور میں قیام کے لئے گھر‘ گاڑی دینے کے علاوہ وظیفہ بھی مقرر کردیا تھا۔ ٹکٹوں کے پیسے پکڑنے کا الزام انہیں عمران سے دور کرتا چلا گیا۔ پھر دھرنا آگیا۔ اس دھرنے کے دوران عمران پر پارٹی کے اندر سے دباؤ تھا پیسے لینے والے تین کے ٹولے کے خلاف کارروائی کی جائے۔ عمران کے موڈ کو بھانپ کر انہوں نے لیگی دوستوں سعد رفیق اور خواجہ آصف سے رابطہ کیا۔ خواجہ ناظم الدین روڈ اسلام آباد کے ایک گیسٹ ہاؤس میں متعدد ملاقاتیں ہوئیں پھر ہاشمی تحریک انصاف سے الگ گئے۔ قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑی۔ آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترے ملتانیوں نے ان کی سیاست کو دفن کردیا۔ چند دن قبل وہ نواز شریف سے ملنے گئے اس ملاقات میں نواز شریف اور مریم نواز نے ان کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا مگر شہباز شریف نے ہاتھ ملانے کی بجائے منہ پھیر لیا۔ ان کی سیاست کا نیا موڑ ہے سفر کا اختتام کہاں ہوتا ہے لیکن ایک بات ہے کہ وہ اس بار مرضی کاسودا کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

یہ بھی پڑھئے:  ن لیگی محبوبہ کا انصافی محبوب کو آخری خط

بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس