Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

جناب وزیر داخلہ قانون کی سربلندی اور بالادستی اہم ہے

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا یہ کہنابجا طور پر درست ہے کہ ریاست کے اہم ستون انتظامیہ کو ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے موقع دیا جانا چاہیے کیونکہ جب دوسرے ادارے ایگزیکٹوآرڈرکو موقع نہیں دیں گے تو کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی ۔انہوں نے کہا کہ انتخابی قوانین کے ترمیمی بل میں ختم نبوت کے حوالے سے جن الفاظ پر تنازعہ کھڑاہو ا۔ان الفاظ والے بل کی منظوری میں سب شامل تھے۔اس لئے ہمیں وزیر قانون زاہد حامد کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے تھا۔امرواقعہ یہ ہے کہ دھرنا جس طور پر اور جن شرائط پر اختتام پذیر ہوااس پر محض تاسف یاسو فیصد مسرت کا اظہار دونوں درست نہیں۔بہت ٹھنڈے دل سے اس امر پر غور کیا جانا چاہیے کہ اس دھرنے نے ریاست حکومت اور سماج کو جس مقام پر لا کھڑا کیا یہ قابل فخر ہے یا باعث شرم ؟۔انتظامی کمزرویوں کی ابتداء لاہور سے ہوئی جہاں پنجاب حکومت کے سربراہ کے حکم پر لاہور سے اسلام آبا کی حدود تک تمام اداروں نے ریلی کے شرکاء کو نہ صرف مکمل تحفظ فراہم کیا بلکہ بھرپور معاونت بھی کی ۔یہ وہ نکتہ ہے جس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہم وفاقی وزیر داخلہ کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پہلے گھر کی خبر لیجئے اور پھر دوسروں سے ایگزیکٹو آرڈرپر چونکہ چنانچہ کرنے کا جواب طلب کیجیے ۔اس دھرنا پروگرام میں بظاہر عدلیہ کا کردار بڑا متاثر کن رہا مگر اسلام آبادہائیکورٹ کے جج شوکت صدیقی نے جن کے خلاف سپریم جوڈیشنل کونسل میں اقربا پروری قانون سے تجاوز اور کرپشن کے الزامات پرمبنی ریفرنس زیر سماعت ہے ، محض ہیرو بننے کیلئے معاملات کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

یہ بھی پڑھئے:  سمیر و سمیعہ : ہمیں کس مصیبت کا سامنا ہے - عامر حسینی

بڑی عجیب بات ہے کہ جو شخص لال مسجد والے مولانا عزیز کے وکیل کی حیثیت سے دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوئے گیا رہ سیکیورٹی اہلکاروں کے قتل کے بعد منفی جواز پیش کرتا رہا وہ بطور جج سوال کر رہا ہے یہ سب کیسے ہوا؟۔کسی لگی پٹی کے بغیر یہ عرض کرنا از بس ضروری ہے کہ وفاقی حکومت کو کسی تاخیر کے بغیر ان صاحب کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنا چاہیئے کہ کیونکہ ان کے بعض ریمارکس سے فرقہ وارانہ خانہ جنگی کے خطرات منڈلانے لگے تھے۔دھرنے اور پھر 22ویں دن ہوئےمعاہدے نے قانون کی عملداری کاجوحشرکیااس پر رونے دھونے کی بجائے حکومت اور بالخصوص وزارت داخلہ کو مستقبل کے حوالے سے ایسے اقدامات کرنے ہونگے جن سے کسی بھی جتھے کو پورانظام مفلوج کرنے اور اپنی منوانے کا موقع نہ ملے ۔ایگزیکٹو آرڈر پر چونکہ چنانچہ کرنے والوں سے بھی دوٹوک بات کرنا ہوگی کہ دستور جن احکامات کی پابندی کا کہتاہے ان سے انحراف سے معاملات کیارخ اختیا ر کر سکتے ہیں ۔یہ امر بھی بجا طور پر درست ہے کہ انتخابی اصلاحات کے قوانین کی تیاری اور چھان پھٹک تین سال سے جاری تھی ۔مختلف کمیٹیوں میں نوک پلک سنواری جاتی رہی ۔قومی اسمبلی سے منظوری کے وقت ایوان میں حاضر ارکان نے اگر پڑھے بغیر غلاموں کی طرح منظوری دی تو بھی درست نہیں ۔

قانون ساز اداروں کے ارکان کو اس طرح معاملات میں غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے ۔مگر یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس حساس معاملے پر ن لیگ کے اند ر سے ہی سیاست چمکائی گئی ۔ایک آئینی اور قانونی حکومت اگر اپنی ذمہ داریاں درست طور پر ادا نہ کرسکے اور گھرکے بھیدی لنکا ڈھاتے پھریں تو چوپالوں پر بیٹھ کر آنسو بہانے کی بجائے عزت سے گھر کا راستہ لینا چایئے ۔یہاں ہم وزیر داخلہ سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ دھرنے کے دوران سرکاری و نجی املاک کو جو نقصان پہنچا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ دھرنے والوں کے تشدد سے جو پولیس اہلکار شہید ہوئے ان کے خاندانوں کی بحالی کیلئے کیااقدامات ہوئے اور زخمی سیکیورٹی اہلکاروں کی دیکھ بھال کے حوالے سے شکایات کانوٹس لیا گیا کہ نہیں؟ اس طرح ہم سب کیلئے یہ امر بھی تشویشناک ہے کہ کل کلاں کو اگر کوئی دوسرا انتہا پسند طبقہ ایسے دھرنا دے کر بیٹھ گیا تو کیا پوری ریاست اس کے قدموں پر ڈھیر ہوجائے گی ؟مناسب یہ ہوگا کہ اس سارے معاملے سے سبق سیکھا جائے ۔اصلاح احوال یقینی ہے مگر اس سے زیا دہ اہم یہ ہے کہ قانون کی سربلندی و با لادستی کو لازمی بنایا جائے

یہ بھی پڑھئے:  زندگی کا امتحانی پرچہ

یو این این

حالیہ بلاگ پوسٹس