Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

مظلوموں، مظلوموں کے درد کو سمجھو

شدت پسند تنظیموں کی کسی واردات کے بعد کچھ لوگ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان تو یہ کام کرہی نہیں سکتا ۔ یہودوہنودکی سازشیں ہیں ۔ اب بلوچ علاقے میں 20پنجابی نوجوانوں کے سفاکانہ قتل کے بعد وہی ’’کچھ لوگ‘‘ ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ ان قتلوں میں بلوچ انتہا پسند ملوث ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ کھٹ سے ایک اعترافی بیان بھی سوشل میڈیا کی زینت بن گیا ۔ دو دن کے اندر پندرہ پنجابی نوجوانوں کا قاتل قرار دے کر یونس تو کلی نامی ایک بلوچ نوجوان کو ’’پار ‘‘ بھی کر دیا گیا ۔ پانچ لاشیں پھر مل گئیں ۔ ایک ممکنہ قاتل کے ’’پار‘ ‘ ہونے کی خبر کا انتظار کیجئے اور سردھنیئے کہ چیف جسٹس نے 20پنجابی نوجوانوں کے تربت کے قریب قتل ہونے کا از خود نوٹس لے لیا ہے ۔ جان کی امان رہے تو کچھ بلوچ دوستوں کے سوالات آئندہ سطور میں لکھ دو ں ؟ ۔ معاف کیجئے گا درجن بھر سوالات لکھ کر اپنی حب الوطنی کو مشکوک بنانے سے بہتر ہے کہ رفعت مگسی کا اکلوتا سوال لکھ دو ں ۔ وہ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس نے لالہ غلام محمد بلو چ سے حبیب جالب بلوچ تک اور کوئٹہ کے ہزارہ برادری کے مقتولین سے مسخ شدہ نعشوں پر کتنی بار از خود نوٹس لیا ؟ ۔ ہمیں سوالوں سے بھاگنا نہیں چاہیئے ۔ یادوں کا میلہ اور سوالوں کا رقص دونوں اچھے ہوتے ہیں۔ ایران کے راستے یورپ جانے کا خواب آنکھوں میں سجائے پنجاب کے دیہاتوں اور شہروں سے چلے نوجوانوں کی نعشیں ان کے گھروں کو واپس آئیں ۔ امید وں کے دیئے بجھ گئے ۔ باپوں کی کمر یں مزید دوہری ہوگئیں ۔ بہنوں کے سہاگن بننے کا سفر اور طویل ہوا ، نوحے ہیں ، یادیں ہیں ۔ کمزور طبقات کے گھروں میں اتری موت کا سیاپا ہے ۔ موت جوان و پیر اور شیر خوار کب دیکھتی ہے ۔ ہم سب رنجیدہ ہیں ، جوانی کے بھرے اُمیدوں والے دنوں کی موت پر کوئی پتھردل چپ رہے گا ۔ مگر کمشنر مکران ڈویژن اس بیان کو کہا ں فٹ کریں گے ایک قافلے سے شناخت کے بعد 15نوجوانوں کو اتار کر مارا گیا ۔ وہ قافلہ کہا ں ہے ۔ قافلہ بنانے اور لیجانے والے کون تھے ؟۔ بی ایل ایف کا دعویٰ اپنی جگہ اور ریاست کا جواب دعویٰ اپنی جگہ ۔ کوئی بتلائے کہ وہ کیا تحقیقات تھیں جو جھٹ منگنی پٹ بیاہ کی طرح ممکن ہوئیں اور یونس توکلی مار دیا گیا ۔ ذاتی طور پر اب بھی بی ایل ایف کے دعوے کو بے بنیاد ہی سمجھتا ہوں وجہ صرف اتنی ہے کہ گہرام بلوچ بی ایل ایف کے ترجمان کا دعویٰ تھا کہ 15مقتولین کی ویڈیوز ہمارے پا س ہیں انہوں نے ویڈیوز جاری نہیں کی ۔ کسی نے معاملے کے اس رخ پر تفتیش بھی نہیں کی کہ کہیں انسانی سمگلروں نے جوان نوجوانوں کو لیجارہے تھے کسی جھگڑے کے بعد کرائے کے قاتلوں سے قتل تو نہیں کروایا ؟ ۔ ایک صحافی کی حیثیت سے یہی عرض کر سکتا ہوں کہ تحقیقات کے بغیر نتیجہ اخذ کرلینا اور نتائج دے دینا مناسب نہیں ۔ ان 20نوجوانوں کے قاتل اگر بی ایل ایف والے ہیں تو انہوں نے اپنا مقدمہ کمزور کیا ۔کیا وہ بھول گئے کہ ڈاکٹر اللہ نظر کی اہلیہ کی گرفتاری پر سب سے شدید رد عمل پنجاب سے سامنے آیا ۔ پنجابیوں نے بلا امتیاز حکومتی اداروں کے اس عمل (خواتین کی گرفتاری ) کو انسانیت دشمن قرار دیا ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ قومی حقوق کی جدوجہد میں بد ترین نسلی شقاوت کا مظاہر ہ بھی کوئی جواز رکھتا ہے تو معاف کیجئے گا ایسا جواز صریحاً بیہودہ ہے قومی جدوجہد کی تحریکوں والوں کے لئے دوست اور ہمدرد اہمیت رکھتے ہیں ۔ بی ایل ایف نے اگر اس شقاوت کی مرتکب ہوئی ہے تو لاریب اس کی شدید مذمت بھی ہونی چاہیئے ۔ البتہ وہ لوگ جن کی حب الوطنی کی باسی کڑی میں ابال آیا ہوا ہے اور وہ اس المناک سانحہ کو نسلی فسادات کا ابتدائیہ بنانے پر تلے ہیں ان کی باتوں پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو ہر چند دن بعد نئی شناخت پرمصر ہوتے ہیں ۔ تربت کے قریب 20نوجوانوں کا قتل المیوں کا المیہ ہے ۔ کاش ہمارے پالیسی سازوں نے روز اول سے اس ملک کا حقیقی مالک عوام کو سمجھا ہوتا ۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم ہوتی ۔ بہت ادب کے ساتھ عرض کروں بدامنی و بد حالی اور دوسرے گھمبیر مسائل کے ذمہ دار صرف پالیسی ساز بھی نہیں ۔ پانچ قومیتی فیڈریشن کی پانچوں قومیتوں کے بالادست طبقات بھی تو ان پالیسی سازوں کے سا جھے دار تھے اور اب بھی ہیں ۔ ہمارے نا راض بلوچوں نے کبھی اس تلخ حقیقت پر غور کیا کہ پچھلے 70برسوں میں اقتدار اور وسائل کے مزے بھی سردار وں نے لوٹے اور نئی نسل میں نفرتوں کے بیچ بھی انہی سرداروں اور سردار زادوں نے بوئے ۔ ممکن ہے کہ میری رائے غلط ہو لیکن کیا کبھی سرداروں کے اس کلب کے خلاف بھی پرعزم عوامی جدوجہد ہوئی جو اقتدار میں کچھ اور اقتدار سے باہر کچھ ہوتے ہیں ۔ اس بد قسمت ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں کہاں بہتی ہیں؟۔ کیا مارے گئے 20پنجابی محنت کش جبرواستحال کے ذمہ دار تھے جس پر بی ایل ایف تلخی ہے؟۔ معاف کیجئے گا اگر ان20محنت کشوں نے لوٹ مار میں حصہ پایا ہوتا تو بہنوں کی امیدیں اور مائوں کا زیور فروخت کرکے انجانی منزلوں کے راہی ہر گز نہ بنتے ۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اگر بی ایل ایف کے دعوے کو درست تسلیم کر لوں تو پھر اس سوال کا کیا جواب ہوگا کہ ایک مظلوم طبقہ دوسرے مظلوم طبقے کے نوجوانوں کو قتل کر کے کس کی انا کی تسکین کا سامان کر رہا ہے ۔ مکرر عرض ہے کہ اس سانحہ سے بلوچ قوم پرستوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ بلکہ خود مظلوم طبقات میں دوریاں بڑھی ہیں اور دور یوں میں اضافے کا فائدہ مظلوموں کو نہیں بلکہ استحصالی طبقات کو پہنچے گا ۔ حرف آخر یہ ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں کو یکطرفہ طرز عمل کا مظاہر ہ کرنے کی بجائے اس ملک کے تمام مظلوموں کی دلجوئی کرنی چاہیئے ۔ ناراض بلوچوں سے بھی بات چیت ہونی چاہیئے اور دیگر مظلوم طبقات کی اپنی اپنی سرزمین پر بحالی کے لئے بھی کوئی سنجیدہ اور موثر حکمت عملی وضع کی جانی چاہیئے تاکہ آسانیاں پیدا ہوں ۔

یہ بھی پڑھئے:  پیپلزپارٹی سے 11 سوال | حیدر جاوید سید

بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور

 

حالیہ بلاگ پوسٹس