Qalamkar Website Header Image

مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا | حیدر جاوید سید

خوش آئند بات ہے اگر امریکہ پر انحصار کا دور ختم ہوگیا ہے۔ پنجابی میں کہتے ہیں ”لگدا تے نئیں پر خورے“۔ پاک امریکہ تعلقات کے 70برسوں کا ورق ورق الٹ کر دیکھ لیجئے۔ امریکیوں نے کبھی بھی ہمیں بااعتماد دوست نہیں سمجھا۔ زبانی دعوے لاکھ ہوئے مگر حقیقت میں یہ آقا و اطاعت گزار کا تعلق تھا۔ تقسیم ہند کے نتیجہ میں آزاد ہونے والے ملک کو پڑوسیوں کے مقابلہ میں امریکہ پر انحصار کیوں کرنا پڑا یہ ایک طویل داستان ہے۔ اس کی الف ب لکھی تو بہت سارے لوگوں کے بنائے ہوئے بُت کرچی کرچی ہوجائیں گے۔ سو اتنا ہی عرض کردینا کافی ہے کہ سوویت یونین کی دعوت قبول کرکے پھر پس پشت ڈالنا اور امریکہ کے دورہ پر چلے جانا بنیادی طور پر درست نہیں تھا۔ اگلے مرحلے پر پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان نے امریکہ کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے اڈے فراہم کرکے ذاتی حق خدمت کمایا۔ پھر افغان انقلاب ثور کے بعد ہمارے تیسرے فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق نے پاکستان کو افغانستان میں امریکی جنگ لڑنے والے ”مجاہدین“ کی منڈی بنادیا۔ چوتھے فوجی حکمران جنرل مشرف امریکی مفادات کی جنگ کو پاکستان کے صحن میں لے آئے۔ فوجی حکمرانوں کی امریکہ نواز پالیسیوں اور لولی لنگڑی جمہوری نما شخصی حکومتوں کی اطاعت گزاری نے پاکستان کو جس مقام پر لاکھڑا کیا اس پر لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں۔ لے دے کر ایک ذوالفقار علی بھٹو تھے انہوں نے قدرے غیرجانبدارانہ تشخص بنانے کی کوشش کی۔ ان کے ساتھ کیا ہوا وہ ایک الگ اور المناک داستان ہے۔ بجا ہے کہ آج کی دنیا میں امریکہ سپریم پاور کا کردار سنبھالے ہوئے ہے مگر پچھلے تین چار برسوں میں اس کی منہ زوری کو روس اور چین نے بہت سارے مقامات پر لگام ڈالی ہے۔ خود امریکہ بھی اپنی انسانیت دشمن پالیسیوں اور قبضہ گیری کے رجحان اور اس کے پیداکردہ فتنوں کی تباہ کاریوں کی بدولت بے نقاب ہوچکا ہے۔ چند دن قبل سابق افغان صدر حامد کرزئی نے افغانستان کے اندر امریکی افواج اور داعش کے درمیان روابط کے حوالے سے جو انکشافات کئے وہ بھی کم ہولناک نہیں۔ اسی طرح پچھلے کچھ عرصہ سے امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے بعض وزراءپاکستان کو جو کھلی اور ڈھکی چھپی دھمکیاں دے رہے ہیں وہ بھی اہل پاکستان کے لئے پریشانی کا باعث ہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حد سے بڑی نازبرداریوں، اطاعت گزاری اور دیگر پالیسیوں کے باوجود امریکیوں کا رویہ دوستانہ تھا، نہ ہے۔ بدقسمتی سے امریکی حکام پاک چین سی پیک منصوبے کے حوالے بھی پاکستان کے طویل المدتی مفادات کا احترام کرنے کے بجائے اس حوالے سے بھارت کی زبان بولنے لگے۔ ان حالات میں امریکہ پر انحصار ختم کرنے یا اس کے دن گزر گئے کی بات کرنا خوش آئند تو ہے لیکن یہ سوال اہم ہے کہ کیا اس کے لئے ضروری ہوم ورک کرلیا گیا ہے۔ بہترین دوست ممالک سے اس حوالے سے بات چیت کی گئی؟ بظاہر تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکی بڑبولوں کو ان کے لہجے میں جواب دیا ہے۔ بجاکہ پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان روس‘ فرانس اور چین کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے مگر کیا یہ حکمت عملی واقعتاً ایسی ہے کہ امریکہ کو ٹھینگا دکھایا جاسکے؟ امریکی شکنجے سے نکلنے کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں۔ باج گزاری بہت ہوچکی۔ وہ ہمارا نہیں بنتا تو ہمیں بھی ناکام عاشق کی طرح اس کے کوچے کے دیوانہ وار چکر لگانے کی ضرورت نہیں۔ افغان انقلاب کے بعد سے اب تک کی امریکہ نواز پالیسیوں کی وجہ سے ہماری معیشت کو جو نقصان ہوا امریکی امداد اس کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں۔ پاکستان میں امریکہ کے درشنی مخالفوں کی بھی کمی نہیں۔ ان میں سے اکثر آج بھی پرانی تنخواہوں پر ایک نئے انداز میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ البتہ پاکستانی عوام کی اکثریت امریکہ نواز پالیسیوں سے نالاں ہے۔ اب بھی وزیراعظم کے تازہ ارشاد پر تالیاں بہت بجیں گی مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ ہمیں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ امریکیوں پر انحصار اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا جب تک پاکستان کے اندر نچلی سطح تک امریکی مفادات کا تحفظ کرنے والوں کے بارے میں کوئی پالیسی مرتب نہیں ہوتی۔ پڑوسیوں سے ہمارے تعلقات کتنے خوشگوار ہیں یہ سب پر روزروشن کی طرح عیاں ہے اور کیا انحصار ختم کرنا فقط اسی کو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دفاعی ضروریات کا متبادل موجود ہے؟ معاف کیجئے گا اپنے وسائل سے استفادہ اور شفاف پالیسیوں کے بغیر ان سامراجی مالیاتی اداروں کی بالادستی سے کیسے نجات ملے گی جن کا اربوں ڈالر کا قرضہ دینا ہے؟ فقط یہی نہیں زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی امریکیوں کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ کیا کسی نے کبھی اس بات پر بھی غور کیاہے کہ سابق حکمرانوں اور اشرافیہ کے دیگر طبقات کے امریکہ میں جو ذاتی و مالی مفادات ہیں وہ خودانحصاری کی راہ میں حائل تو نہیں ہوں گے؟

یہ بھی پڑھئے:  اوکھے سوکھے یہ مہینہ گزارنا پڑے گا

امر واقعہ یہ ہے کہ جن خوابوں کو آنکھوں میں سجائے بٹوارے کے ہنگام میں لاکھوں مرد و زن کھیت ہوئے ان میں سے دو خواب اہم ترین تھے اوّلاً ایک آزاد و خودمختار مملکت جو دنیا بھر کی مظلوم اقوام کی ترجمان ہو اور ثانیاً فلاحی جمہوری نظام۔ بدقسمتی سے 70سال گزر جانے کے باوجود ان دونوں خوابوں کی تعبیر اس لئے نہیں مل پائی کہ ہمارے اہل اقتدار نے اپنے مفادات کے لئے پاکستان کو امریکی کیمپ میں لے جا بٹھایا اور داخلی طور پر عوامی جمہوریت کی جگہ طبقاتی نظام کو جمہوریت کے طور پر پیش کیا۔ رہی سہی کسر چار فوجی حکمرانوں نے پوری کردی جنہوں نے اہل قیادت کو ہرممکن طریقہ سے دیوار سے لگایا‘ راستے سے ہٹایا اور ان کی جگہ اپنے گملوں میں اُگے ہوئے بوزنوں کو قائدین کے طور پر ہمارے سروں پر مسلط کردیا۔ فہم و شعور سے محروم یہ پنیری اسی راستے پر چلتی رہی جو ان کے خالقوں نے انہیں دکھایا رٹایا تھا۔ امریکی استعمار سے نجات کا خواب آنکھوں میں لئے تین نسلیں شہرِخموشاں میں جابسیں۔ بچے کھچے وطن پرستوں کے لئے امریکہ کی غلامی سے نجات خوش آئند تصور ہے مگر کیا موجودہ حکمران قیادت جو اگلے دن کا پروگرام ایک نااہل وزیراعظم سے لینا فرض سمجھتی ہو پاکستان کو امریکی بالادستی سے نجات دلاسکتی ہے؟ سنجیدگی کے ساتھ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے خصوصاً ایسے وقت میں جب امریکہ افغانستان میں داعش کو منظم کررہا ہے خطے میں بھارتی بالادستی کے لئے ہرممکن اقدامات میں مصروف ہے۔ پاکستانیوں کے لئے وہ دن عیدین کے پُرمسرت دنوں سے بھی زیادہ اہم‘ باوقار اور پُرمسرت ہوگا جب امریکی تابعداری سے نجات حاصل کرکے پاکستان اقوام کی برادری اور بالخصوص خطے میں آزادانہ طور پر اپنا کردار ادا کرے گا۔ عجیب لگتا ہے کہ مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت کا اعزاز رکھنے والا ملک ایک نائب سیکرٹری آف سٹیٹ کے احکام بجا لانے کے لئے بربادیاں مول لے۔ کاش کہ وزیراعظم کا دعویٰ نما اعلان سچا ہوکہ ”امریکہ پر انحصار کا دور ختم ہوگیا“۔ بہت ادب سے عرض کروں امریکی خدا نہیں فقط غرض کے بندے ہیں اور اپنی غرض پوری کرنے کے لئے وہ سارے ضابطے اور اقدار روندتے چلے جاتے ہیں۔ سو وہ وقت آگیا ہے کہ امریکیوں سے دوٹوک انداز میں کہہ دیا جائے کہ دوستی ہوگی تو مساوی بنیادوں پر ہوگی تابعداری والی پالیسیاں نہیں چلیں گی لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہمارے پاس ایسی دلیر قیادت موجود ہے؟

یہ بھی پڑھئے:  افغانستان اورپاک امریکہ تعلقات | اکرم شیخ

بشکریہ: روزنامہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس