"جمہوریت پسندوں” کو سوا لکھ مبارکاں کہ جناب نوازشریف کا مسلم لیگ (ن) کے لئے حقِ ملکیت انتخابی قانون اور پارٹی دستور میں ترامیم کے ذریعے بحال ہوگیا۔ وہ چار سال کے لئے اپنی ملکیتی جماعت کے سربراہ بن گئے۔ پنجاب کی دستوری، قانونی اور سیاسی دھونس پر داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے لوگ بہت خوش قسمت ہیں کہ کوئی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کسی چھوٹے صوبے کا سیاستدان یہ سب کرسکتا تھا؟ سوال غور کرنے کے لئے ہوتے ہیں سرکاری پروٹوکول اور کروفر کے ساتھ سابق وزیراعظم کی عدالتوں میں پیشی پر محترمہ بینظیر بھٹو یاد آجاتی ہیں بچوں کی انگلیاں پکڑے کراچی، لاہور اور راولپنڈی کی احتساب عدالتوں میں دھکے کھاتی۔ اپنے بڑے بھائی کو نون لیگ کا صدر منتخب کرنے والے لیگی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شہبازشریف جب یہ کہہ رہے تھے کہ رینٹل پاور والی کمپنی نے عالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف مقدمہ جیت لیا ہے تو مجھے یاد آیا کہ عالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والی نجی پاور کمپنیوں میں میاں منشاء کی کمپنی بھی شامل ہے۔ 70ارب میں سے 14ارب کی حصہ دار وہ ہے۔ جانے دیجئے اس میں کیا رکھا ہے۔ اندھی شخصیت پرستی میں گردن تک دھنسے سماج میں جمہوری اقدار، دستور اور قانون کی بالادستی۔ مساوات اور انصاف کی باتیں جی بہلانے کے سوا کچھ نہیں۔ سوموار کو جب وفاقی وزیرداخلہ کو رینجرز نے احتساب عدالت میں داخل نہیں ہونے دیا تو وہ بولے "یہ بنانا ریپبلک نہیں۔ ریاست کے اندر ریاست نہیں چل سکتی۔ ایک قانون اور ایک حکومت ہوگی”۔ یاد آیا چند سال قبل سیدی یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کے ایوان میں ریاست کے اندر ریاست کی بات کی تھی تو حب الوطنی کے "دیوانے” ان پر ٹوٹ پڑے۔ اب خود پر بیتی ہے تو سوال کررہے ہیں۔ ہمارے یہاں جمہوریت کی باتیں فیشن کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ پارلیمان نے ایک نااہل شخص کو سیاسی قیادت کے لئے اہل بنانے والی قانون سازی کی شخصی نظام سے عبارت مروجہ سیاست میں بدلاؤ اور خیر کی توقع کبھی نہیں رہی۔
نون لیگ سیاسی عمل میں اقتدار کی چھترچھایہ کے بغیر کتنے قدم چل سکتی ہے اس پر لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں۔ اس وقت بھی ابھی اقتداراعلیٰ نون لیگ کے پاس ہے اسی لئے زمین و آسمان کے قلابے ملائے جارہے ہیں۔ ناخوشگوار صورتحال (اﷲ اس سے محفوظ رکھے) ہوتی تو قائدِ جمہوریت کوئی نیا معاہدہ کرکے پتلی گلی سے نکل گئے ہوتے۔ بہت عجیب لگتا ہے جب نون لیگ کے رہنما کہتے ہیں کہ نوازشریف کی قیادت میں ترقی کی منزلیں طے کریں گے۔ کوئی بتلائے کہ پچھلے 9 برسوں میں پنجاب اور سوا چار سال سے وفاق میں برسراقتدار نون لیگ نے ملک کو ترقی کی کتنی منزلیں طے کروائیں؟ کیا لاہور کی چند سڑکیں، تین شہروں کی میٹرو سروس یہی ترقی ہے؟ 6ارب روپے سالانہ مجموعی خسارہ ہے میٹرو کا۔ لاہور میں چلنے والی فیڈر بس سروس کا خسارہ الگ ہے۔ البتہ نون لیگ کی سیاست کے ساتھ بندھے ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو ککھ پتی سے کروڑپتی بنے۔ چھوڑیں مجھے اور آپ کو کیا۔ پاکستانی سیاست کا جمہوری دور کتنا تھا؟ تلخ سوال ہے۔ طبقاتی نظام اور مارشل لاؤں کے ادوار کتنے سال چلے۔ اب کیا ہے سچ یہ ہے کہ نون لیگ اپنے اقتدار کے لئے ہر حد کراس کرسکتی ہے۔ جس وقت یہ کالم لکھ رہا ہوں جناب نوازشریف اپنی ملکیتی جماعت کے "بڑے دربار” سے خطاب فرما رہے ہیں۔ بے اصولی اور ہارس ٹریڈنگ کے بانی کہہ رہے ہیں میں اصول پرست ہوں۔ چاپلوسی کر کے تو جنت میں جانے کا نہیں سوچا۔ جس انتخابی قانون کو وہ مشرف کا کالا قانون قرار دے رہے ہیں اسے پچھلے چار برسوں میں تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کیوں نہ کی؟ ایک وجہ تھی 2008ء سے 2013ء کے درمیان نون لیگ اس قانون کی پاسبان بنی رہی۔
مسلم لیگ (ن) کے بڑے دربار میں مقررین کے خطابات دلچسپ ہیں۔ نوازشریف کی سیاست اور طرزحکمرانی کے ناقد بھی آئین سے ماورا اقدام کے حامی نہیں مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا نون لیگ واقعتاً جمہوری نظام کے قیام میں سنجیدہ ہے؟ جہاں تک نوازشریف کی نون لیگ کو پاکستان بنانے والی مسلم لیگ کے وارث کے طور پر پیش کرنے کا تعلق ہے تو اس سفید جھوٹ پر رونے یا ہنسنے کی ضرورت نہیں۔ جنرل ضیاءالحق کے سیاہ دور کی غیرجماعتی اسمبلی میں جنم لینے والی مسلم لیگ دو حصوں میں منقسم ہے۔ (ق) لیگ اسی کے بطن سے نکلی۔ اس بحث کو بھی جانے دیجئے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا جمہوریت کے نام پر چند مخصوص خاندانوں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی ہے۔ 70سال سے اس ملک میں جو کچھ ہوا تیس سال سے تو شریف خاندان بھی اس کا حصہ دار ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ کراچی میں رینجرز کے اقدامات کا دفاع کرنے والے اسلام آباد کے واقعہ کو لے کر حقائق کو مسخ کر رہے ہیں۔ جناب نوازشریف اس بات سے کیسے انکار کر سکتے ہیں کہ انہوں نے مشرف سے دس سالہ معاہدہ جلاوطنی کے عوض بہت سارے مقدمات ختم کروائے۔ ملک واپس آئے تو افتخار چودھری نے انہیں جو ریلیف دیا اس ملک کا عام آدمی اس بارے کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ المیہ یہ ہے کہ قانون بھی چہرہ اور طبقہ دیکھتا ہے اور انصاف بھی۔ عام آدمی تین سے چار نسلوں تک ایک مقدمہ بھگتتا ہے اور خواص مہنگے وکیلوں کے ذریعے فوری انصاف پالیتے ہیں۔
انتخابی قانون اور پارٹی دستور میں ترامیم کے ذریعے اپنی جماعت کے بڑے دربار میں نوازشریف چار سال کے لئے پارٹی صدر منتخب ہوگئے۔ اس عمل پر حیرانی ہرگز نہیں۔ افسوس یہ ہے کہ نوازشریف اپنے ملازمین اور درباریوں کو بھی سچ نہیں بتاتے۔ انہیں بتانا چاہیے کہ وہ جھوٹ بولنے اور اپنے اثاثے چھپانے پر نااہل ہوئے۔ پاکستانی سماج کا المیہ یہ ہے کہ جولائی 1977ء میں سیاسی عمل پر لگی پابندیوں کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ غیرجماعتی نظام نے جن خودپسندوں کو رہنما بنایا ان میں وہ خود بھی شامل ہیں۔ عوام کے حق حکمرانی کی باتوں پر نعرے مارتے درباریوں میں سے کسی نے ان سے سوال نہیں کیاکہ 2013ء کے انتخابات میں انہوں نے کتنے عام کارکنوں کو پارٹی ٹکٹ دیا؟پچھلے سال منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پنجاب بھر میں ایک ٹاؤن کمیٹی، میونسپل کمیٹی اور کارپوریشن بتا دیجئے جس کی سربراہی کسی عام سیاسی کارکن کو دلائی گئی ہو۔ یہاں تک کہ خود نوازشریف نے اعلان کیاکہ بلدیاتی اداروں کے سربراہوں اور نائبین کے لئے ارکان اسمبلی کے بھائی، بھانجے، بھتیجے اہل نہیں ہوں گے مگر عملی طور پر ہوا کیا یہ سب کے سامنے ہے۔ ہائے ری قسمت جس ذوالفقار علی بھٹو کو نوازشریف پاکستان کا مجرم اور بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دیتے تھے اب ان دونوں شخصیات کا حوالہ ان لوگوں کے طور پر پیش کرتے ہیں جنہوں نے جمہوریت کے لئے قربانیاں دیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا نوازشریف میدان میں ڈٹیں گے یا پھر دسمبر 2000ء کی طرح کا کوئی فیصلہ؟
بشکریہ: روزنامہ خبریں ملتان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn