61 ہجری کے المناک ترین سانحہ کربلا کا ذکر 1368 سال بعد بھی کیجئیے تو بہت سارے خواتین و حضرات اپنی مسلمانی سنبھالے آن موجود ہوتے ہیں۔ اولاً تو یہ فرماتے ہیں تاریخ پر کیسے اعتبار کر لیا جائے ۔ ممکن ہے ایسا ہوا ہی نہ ہو ۔ اچھا اگر ہوا تھا تو اس وقت کے مسلمان کیوں خاموش رہے؟ ایک رائے وہی لگی بندھی ہے یزید خلیفۃ المسلمین تھا خروج کی ضرورت کیا تھی. حکومت کے خلاف بغاوت ہو تو حکومت قانون نافذ کرتی ہے ۔ ایک گروہ یہ منطق لے کر کودتا ہے کہ سخی و کریم گھرانہ ہے آلِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ۔ وہ عفو و درگزر ہر حال میں مقدم سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے معاف کر دیا یزید کو تو آپ کیا کریں گے؟ شہزادوں کے اقتدار کی کشمکش نے کربلا برپا کروائی۔ کچھ لوگ عین ایامِ محرم میں ان خواتین و حضرات کے "ذکر شریف” کو بھی عبادت کے طور پر پیش کرنے آجاتے ہیں جن کے رویوں، طرزِ حکمرانی اور اقربا پروری نے کربلا کا راستہ ہموار کیا۔ یہ سارے مختلف الخیال لوگ بنیادی طور پر ریگزارِ کربلا میں شاہِ شہیداں اور ان کے احباب و انصار کے لہو سے لکھے گئے درسِ حریت سے خوفزدہ ہیں۔ کامل شعور کے ساتھ یہ رولے باز اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ استحصالی نظام کے دوام اور خطائے اجتہادی کے کاروبار ہر دو کی زندگی اسی میں ہے فکر عاشور کی روشنی پھیلنے نا پائے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ کو یہ تو یاد آجاتا ہے کہ یزید کسی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا رسولؐ کے برادرِ نسبتی کا بیٹا تھا مگر یہ نہیں یاد رہتا کہ حسین علیہ السلام دخترِ رسولؐ کا لختِ جگر ہے ۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے خطائے اجتہادی اور تقدس مآب شخصیات کی عقیدت کو خوانچوں میں سجائے لوگ آپ کو ہر دور میں ملیں گے. یزیدی حکومت کے برحق ہونے اور حکومت الہیہ کے طور پر پیش کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ اس بدترین ناصبیت کے پجاری بھی موجود ہیں کہ دوسرے بہت سے صحابہ اور صاحبزادگان صحابہ نے بھی یزید کی بیعت کر لی تھی ۔ کیا وہ عقل و شعور سے عاری تھے؟ ان ساری باتوں اور منطقوں کا مطلب اور مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ کربلا انسانیت کی جس سمت رہنمائی کر رہی ہے عالم انسانیت اس سمت بڑھنے نہ پائے۔
عزیز اللہ بوہویو جیسے ذہنی مریض بھی ہر دور میں ملیں گے جو کہتے لکھتے پھرتے ہیں کہ اپنے خانوادے کے افراد کے بارے میں رسولؐ نے جو توصیفی کلمات کہے وہ بطور رسولؐ نہیں بلکہ باپ، چچا زاد اور نانا کے طور پر کہے ہیں ۔ یہاں سبحان اللہ کہہ کر آگے بڑھنے کی بجائے اگر کبھی پلٹ کر یہ پوچھ لیا جائے کہ پھر آپ کیوں چند من گھڑت احادیث پر سر دھنتے ہوئے مقام صحابہؓ تسلیم کروانے پر بضد ہیں؟ تو جواب ملتا ہے آپ رافضی ہیں۔ یعنی سوال گندم جواب چنا۔ سبحان اللہ اب بنتا ہے۔ کبھی کبھی یہ سوال بھی اگر پوچھ لیا جائے کہ جس مقام صحابہؓ کو لے کر آپ انقلابِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اصل تعلیمات کو مسخ کرنے پر آپ صدیوں سے عمل پیرا ہیں اس مقام و مرتبے کے حقدار سلمان و بوذر، مقداد و دیگر صاحبان کیوں نہیں ۔ جواب ملے گا یہ مقام و مرتبہ اللہ کے رسولؐ نے طے کیا. مگر اللہ کے رسولؐ نے تو یہ بھی کہا تھا "ابوذر! آسمان نے اپنے نیچے زمین پر تم سے زیادہ سچا انسان چلتے ہوئے نہیں دیکھا”۔ بدقسمتی سے شرف صحابہ کی آڑ میں ناصبیت کا پرچار ہو رہا ہے. پچھلے کچھ عرصہ سے ایک نیا ٹولہ منہ اٹھائے ایام محرم میں آن وارد ہوتا ہے. اس کا کہنا ہے کہ سانحہ کربلا اصل میں ابن سبا کی سازش تھی. واہ کیا بات ہے ایک اکیلا ابن سبا مسلمانوں کی اڑھائی خلافتیں نگل گیا اور اس سازش سے سانحہ کربلا بھی برپا ہو گیا۔ مسلمان تو صبح بیدار ہوئے تو قتلِ حضرت عمر رضى الله عنه سے سانحہ کربلا تک کے واقعات ہو چکے تھے ۔ ایک فرضی کردار جس کا خالق خود دوسری صدی ہجری کے اوائل میں پیدا ہوا اس کی باتیں اور افسانے تو نصف ایمان کا درجہ رکھتے ہیں مگر خود عالی مقام رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فرمایا وہ نسبتی اور قرابت داری کی محبتوں سے بھرا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ پاک بتول سلام اللہ علیہا سے حسنین کریمین علیہم السلام اور امام علی علیہ السلام سے سلمان و بوذر تک جس کی بھی فضیلت رسولؐ نے بیان کی جواباً ایک فرمان رسولؐ تیار ہے کسی بھی دوسرے شخص اور خانوادے کے لیے. یہ وہ نکات، سوالات، زورِ بیان و تحریر ہے جو ہمیشہ اس امر کی دعوت دیتا ہے اس طالب علم کو کہ آخر مسلم امہ کے اندر سمائے مسلمانوں کا ایک طبقہ خانوادۀ رسولؐ کو رعایت کا مستحق کیوں نہیں سمجھتا؟
صاف سیدھی بات ہے کہ بہت سارے لوگ اپنے بزرگوں کا کفر چھپانے کے لیے رسولؐ کے خاندان میں کفر تلاش کرتے ہیں۔ اپنے بڑوں کی بغاوتوں، انحراف اور دیگر معاملات کی پردہ پوشی کے لیے من گھڑت افسانوں اور تراشی ہوئی شخصیات کی آڑ لیتے ہیں ۔کوشش ان سب کی یہی ہےکہ انسانیت درسِ کربلا کے اسباق پڑھنے نہ پائے۔ مسلمان عصری شعور کے ساتھ کربلا سے بلند ہوتی دعوتِ حق پر لبیک نہ کہہ دیں ۔ کربلا کی دعوت کیا ہے؟ فقط یہی کہ ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا خدا سے بغاوت ہے۔ مظلوموں کی ہمنوائی نہ کرنا انکارِ انقلابِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ مساوات سے انحراف کرنے والے حکمرانوں کو آئینہ دکھانا بغاوت کیوں ہوا؟ امام علی علیہ السلام سے جنگ جب وہ خلیفہ تھے اجتہادی خطا ہے مگر خلافت الہیہ کے روشن اصولوں کو پسِ پشت ڈال کر خاندانی امارت کا قیام عین اسلام۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ ہمیں ناصبیت کے پردوں میں چھپے دس بیس عشروں کے مسلمانوں کی سازش کو سمجھنا ہو گا۔ سازش یہی ہے کہ آج بلکہ کسی دور کا مسلمان بھی اس فرسودہ بات پر سوال نہ اٹھائے کہ سب اللہ کی مرضی سے ہوتا ملتا ہے یزید کی حکومت ہو یا شہادت حسین علیہ السلام کی۔ بہت احترام کے ساتھ عرض کروں کہ قبضہ گیری اور حقوق العباد کے لیے قیام میں بہت فرق ہے۔ یزید کی امارت انحرافِ انقلابِ محمدؐ اور امام حسین علیہ السلام کا قیام کربلا اعلائے کلمتہ الحق کا وہ فرض ہے جو حسین علیہ السلام کو ہی نبھانا تھا اور انہوں نے اس شان سے نبھایا کہ 1368 سال گزر جانے کے باوجود حسین علیہ السلام اور کربلا آج بھی محکوموں، مظلوموں اور زیر دستوں کو ولولہ تازہ عطا کیے ہوئے ہے۔ مگر یزیدیت چند تھڑدلوں کے سوا کسی کے لیے تقدس مآب نہیں ۔ کربلا کو دو شہزادوں کی جنگ کہنے والے کبھی یہ تو بتائیں کہ اگر جنگ لڑنا ہی مقصد حسین علیہ السلام تھا تو 61 ہجری کے بلاد عرب کے دو عظیم شہسواروں محمد ابن حنفیہ اور عبداللہ جعفر(حنفیہ بھائی ہیں اور عبداللہ چچا زاد بھائی اور بہنوئی) کو ساتھ لے کر کیوں نہ چلے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر جنگ لڑنا مقصد حسین علیہ السلام ہوتا تو یہ دو شجاع حسینی فوج میں شامل ہوتے۔ اس صورت میں میدان کربلا میں برپا معرکے کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ امام عالی مقام علیہ السلام نے تو مدینہ سے مکہ اور مکہ سے ریگزار کربلا میں اترنے تک کے سارے سفر میں قدم قدم میں دو ٹوک انداز میں کہا "حکومت کبھی میرے پیشِ نظر تھی نہ ہے۔ مجھ حسین سے تو یہ دیکھا نہیں جا رہا کہ یزیدی ٹولہ مسلمانوں کو انقلاب اسلام کے ثمرات سے محروم کر رہا ہے”۔ حسین علیہ السلام فرماتے ہیں اقتدار میرے پاؤں میں پہنی جوتی کے تلوے سے لگی مٹی سے بھی حقیر تر چیز ہے۔ حسین علیہ السلام کے پیش نظر رضائے خدا ہے حصولِ دنیا ہرگز نہیں ۔ کربلا میں اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں "لوگو! گواہ رہنا میں نے حجت تمام کی، دعوت حق کو کھول کر بیان کیا، یزید کی حکومت کے انحراف کو سب پر عیاں کیا مگر دنیا کی محبت میں گردنوں تک دھنسے جہل کے اسیروں کی حالت اندھوں، بہروں اور گونگوں جیسی ہے۔” کربلا کا درس یہی ہے کہ ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی ہمنوائی انقلاب محمدؐ کی تعلیمات پر صدق دل سے عمل ہے۔ کربلا انقلاب محمدؐ کی نشاطِ ثانیہ ہے اسی لیے ہم کہتے ہیں "اسلام زندہ ہو گیا کربلا کے بعد” آج اپنے عہد کی کربلا میں فکری استقامت کے ساتھ اترنے سے منہ موڑنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کربلا میں اترنے کی سعادت ہی محبوبانِ خدا میں شامل کرواتی ہے ورنہ مسلمان تو تب بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ کربلا تو مصطفوئیوں کو بلاتی ہے ہر دور میں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn