Qalamkar Website Header Image

حاجی ثناءاللہ کے مزاج درہم برہم کیوں ہوئے؟ | حیدر جاوید سید

لاہور ہائیکورٹ کے جج جناب مظاہر علی نقوی نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن (جون 2014ءمیں ہونے والے اس سانحہ میں دو خواتین سمیت 14افراد شہید ہوئے تھے۔ پنجاب پولیس کے شیر جوانوں نے دو عفت مآب خواتین کو سر اور منہ میں براہ راست گولیاں مارکر ڈھیر کیا تھا) کی انکوائری رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا تو قوم پرستی اور لبرل ازم کے کمرشل مرچنٹوں نے دہائی دی صرف سانحہ ماڈل ٹاﺅن کیوں لیاقت علی خان سے آج تک کی تمام تحقیقاتی رپورٹیں شائع کی جائیں۔ پنجاب کے وزیرقانون حاجی رانا ثناءاللہ بولے اس رپورٹ کی اشاعت سے فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلے گی۔ عالی جناب وزیرقانون نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی عدالتی تحقیقات کرنے والے معزز جج جسٹس باقر نجفی اور رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دینے والے جسٹس مظاہرعلی نقوی کے بارے جو ”پھلجھڑیاں“ چھوڑیں انہیں یہاں دہرانا غیرضروری ہے۔ حاجی ثناءاللہ جیسے ”اعلیٰ تربیت یافتہ“ لوگوں کے حسن کلام سے جب بھی استفادہ کرنے کا موقع ملتا ہے بے اختیار سیدی ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم یاد آجاتے ہیں۔ ارشاد فرمایا ”کلام کرو تاکہ پہچانے جاﺅ انسان اپنی زبان کے پیچھے پوشیدہ ہے“۔ یہ حاجی جی وہی ذات شریف ہیں جب پیپلزپارٹی کے ایم پی اے تھے تو شورکوٹ ضلع جھنگ میں ان کے خلاف ایک ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ ایف آئی آر کے متن میں پوری تقریر شامل ہے۔ خوب لتے لئے اس تقریر میں شریف خاندان کے مرد و زن کے۔ آج کل حاجی صاحب نون لیگ میں ہیں اور اس کے مخالفین کے لئے وہی زبان استعمال کرتے ہیں جس سے ان کا خمیر گُندھا ہوا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا ذکر آتے ہی حاجی جی بھڑک اٹھتے ہیں۔ دہن سے آگ نکلتی ہے اور سوقیانہ الفاظ۔ وجہ یہی ہے کہ وہ سانحہ کے دو مرکزی کرداروں میں سے ایک ہیں۔ ان کی صدارت میں ہی لاہور کے جناح ہال میں وہ اجلاس ہوا تھا جس میں منہاج القرآن والوں کو سبق پڑھانے کی حکمت عملی وضع ہوئی۔ اس اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب کے اس وقت کے سیکرٹری سید توقیر شاہ، لاہور کے ڈپٹی کمشنر اور چند دیگر افسران بھی موجود تھے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس میں شریک پولیس والوں کے ساتھ پولیس اہلکاروں کے بھیس میں ایک کالعدم تنظیم کے عسکریت پسند بھی موجود تھے اور فرنٹ لائن انہوں نے ہی سنبھالی ہوئی تھی۔ کالعدم تنظیم کے عسکریت پسندوں کی ماڈل ٹاﺅن میں پولیس کے ہمراہ موجودگی دو وجوہات کی بناپر تھی اوّلاً حاجی ثناءاللہ اس تنظیم کے سرپرست ہیں اور متعدد مواقع پر اس قوت کو اپنی طاقت کے مظاہرے کے لئے استعمال کرچکے۔ سال بھر قبل جب ان کے بھتیجے اور فیصل آباد پریس کلب کے بعض ارکان کے درمیان تنازع ہوا تھا تو بھتیجا بھی عسکری شیروں کے ہمراہ پریس کلب پر چڑھ دوڑا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس کالعدم تنظیم اور منہاج القرآن کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کے درمیان 2002ء کے عام انتخابات کے موقع پر پیدا ہونے والا تنازع تھا۔ ان انتخابات میں مخدوم فیصل صالح حیات کالعدم تنظیم کی مدد کو یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے کہ ”ہُن درکھاناں دا پُتر اسمبلی دا ممبر بنسی؟“ انتخابی عمل میں فیصل صالح کے بھائی اسد نے 24 ہزار ووٹ لئے ڈاکٹرصاحب کالعدم تنظیم کے رہنما سے 22 ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔ خیر یہ الگ کہانی ہے مگر مختصر حوالہ یوں دیاکہ اس الیکشن نے منہاج القرآن اور کالعدم تنظیم کے درمیان دشمنی کی بنیاد رکھ دی۔ منہاجئیے چونکہ عسکریت پسندی پر یقین نہیں رکھتے اس لئے وہ جھنگ میں اس طرح منظم نہ ہوسکے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے موقع پر اس کالعدم تنظیم کے عسکریت پسند اپنے ایک مربی و سرپرست رانا ثناءاللہ کی مدد کو آئے لیکن حقیقت میں وہ جھنگ کا بدلہ چکانے آئے تھے۔

یہ بھی پڑھئے:  ہے کوئی جو میری مدد کرے؟

پنجاب کے وزیرقانون یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی عدالتی تحقیقاتی رپورٹ پبلک ہوتی ہے تو ان کے بلکہ پنجاب حکومت کے ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم سے تعلقات کا پول کھل جائے گا اور عوام یہ جان لیں گے کہ کیسے شرافت کی سیاست کے میڈ اِن پاکستان علمبرداروں نے ایک کالعدم تنظیم کے دہشت گردوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ بنیادی طور پر یہ وہ وجہ ہے جس نے حاجی جی کو سیخ پا کیا اور وہ عدالت کے دو جج صاحبان کے فہمی تعلق کو گھٹیا انداز میں پیش کرنے پر تُل گئے۔ عجیب بات ہے کہ پنجاب حکومت آپریشن ضربِ عضب کی حمایت کرنے والی عوامی تحریک کے مرکزی دفتر پر پولیس اہلکاروں اور نجی ملیشیا کے ذریعے حملہ کرے اور 14 مرد و زن مار گرائے تو سماجی امن قائم رہتا ہے لیکن اگر قاتلوں، منصوبے اور کرداروں کے چہرے پر پڑا نقاب اترے تو فرقہ وارانہ کشیدگی کا خطرہ؟ پنجاب کے وزیرقانون کی بصیرت کو سوادو توپوں کی سلامی پیش کی جانی چاہیے۔ کیا کبھی کسی نے غور کیاکہ اس سانحہ کے ہرکردار کو پنجاب حکومت نے جی بھر کے نوازا۔ توقیرشاہ کو تو تین سال کے لئے ڈبلیو ٹی او میں پاکستان کا نمائندہ بناکر بھیج دیا گیا تاکہ حفاظت سے رہے۔ رانا کو مختصر عرصہ کے لئے وزارت سے الگ کیا گیا۔ بظاہر یہ وزارت ایک دوسرے رانا مشہود کے پاس رہی مگر دفتری عملہ فائلیں رانا ثناءاللہ کے گھر ہی لے جاتا رہا اس وقت تک جب حاجی ثناءاللہ دوبارہ وزیرقانون نہیں بن گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت کے چند ”وچولے“ پچھلے تین برسوں کے دوران سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں پیش ہونے والے مرد و زن کے ورثاء سے مذاکرات کے ذریعے بھاﺅ تاﺅ کرتے رہے۔ صلح کی قیمت ڈیڑھ کروڑ سے شروع ہوئی اور چارکروڑ تک پہنچی لیکن ہر مقتول کے ورثاءنے کورا جواب دیا۔ ایک مقتولہ خاتون کی معصوم صاحبزادی نے تو یہ بھی پیشکش کردی کہ پولیس ان کے حکم پر شریف خاندان سے ویسا سلوک کرے جو میری والدہ کے ساتھ ہوا تھا۔ میں صلح کے لئے 6کروڑ کی پیشگی آفر کرتی ہوں۔ شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے ایک مقتول کے بیٹے سے مذاکرات کے لئے جانے والی ٹیم تو اس نوجوان کا موبائل فون بھی چھین کر بھاگ نکلی تھی کیونکہ اس نے مذاکراتی عمل میں ہوئی گفتگو ریکارڈ کرلی تھی۔ گزرے تین برسوں کے دوران صلح کے لئے ہر ہتھکنڈہ آزمایا گیا۔ منہاج القرآن اور عوامی تحریک اپنے شہداءکے ورثاءکے پیچھے ڈٹ کر کھڑے رہے۔

یہ بھی پڑھئے:  ایک اور نجی چینل بند ہوا

اب انکوائری رپورٹ کی اشاعت کے حکم (یہ فیصلہ سنگل بنچ کا ہے حکومت کی ایک اپیل ایک دوسرے ڈبل بنچ میں بھی زیرسماعت ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک اس ڈبل بنچ کی رائے بھی سامنے آجائے گی) سے پنجاب حکومت کی ہاہُو اور رانا ثناءاللہ کا ادھم غیرفطری ہرگز نہیں۔ دونوں جانتے ہیں کہ رپورٹ کی اشاعت ان کے لئے کون سے دروازے کھولے گی۔ رہی حاجی کی یہ منطق کہ رپورٹ کی اشاعت سے فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلے گی تو پوچھا جاسکتا ہے کہ ایک کالعدم تنظیم کے عسکریت پسندوں سے نجی ملیشیا کا کام لیتے وقت یہ کیوں نہ سوچا گیا کہ یہ دو مکاتب فکر کے درمیان مستقل نفرت بونے کا نتیجہ بن سکتا ہے؟ جہاں تک ہمارے پیارے قوم پرستوں اور دکاندار لبرلز کا تعلق ہے تو ان میں سے ایک فریق کلیجے میں ٹھنڈ ڈالنے کے لئے نوازشریف کی حمایت کررہا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ نوازشریف کی حمایت سے اسٹیبلشمنٹ کمزور ہوگی۔ دوسرا فریق حقِ نمک ادا کررہا ہے۔ ان لبرل دکانداروں نے پچھلے چار سال کے دوران حکومت سے خوب اعزازات وصول کئے یہاں تک کہ وزیرآبادی استرے پر ایمان لانے والے بھی ملکی اعزازات سے نوازے گئے۔ دھن، اعزازات اور دوسری مراعات کے ساتھ بعض لبرل تو سرکاری اداروں میں معاہدوں پر ملازمتیں بھی فرماتے رہے۔ چند تو اب بھی لاکھوں کی تنخواہ والے سرکاری ملازم ہیں اور ایک خاص میڈیا گروپ کے ”سینئر“ تجزیہ کار ہیں۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ حاجی رانا ثناءاللہ اور ان کے ساتھیوں کے قدموں کے نیچے سے زمین کھسک رہی ہے۔ حقیقت سے آگاہی نے ہی مزاج درہم برہم کررکھے ہیں۔

بشکریہ: روزنامہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس