تیسرے فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق کی سیاسی وراثت مسلم لیگ (ن) بٹوارے کی طرف رواںدواں ہے۔ گو اعجازالحق اپنی ذاتی جماعت کے پہلے سے مالک ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ جنرل ضیاءکی سیاسی گدی میاں نوازشریف کو ہی ملی تھی۔ نئی تقسیم خالصتاً ذاتی مفادات اور مقاصد پر ہوئی۔ باوجود اس کے کہ میاں نوازشریف ان کی صاحبزادی اور 9 انمول رتن یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویوں کو پذیرائی ملی ہے اور دوسری طرف چودھری نثارعلی خان یہ تاثر دے رہے کہ وہ پارٹی کے مستقبل کو سیاسی نابالغوں کے ہاتھ چڑھنے سے بچانے کےلئے میدان میں اترنے والے ہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ مریم نواز اور حمزہ شہبازشریف کے درمیان اٹھی نفرت کی دیوار ختم نہیں ہوپائی۔ بڑے اور چھوٹے میاں صاحبان نے اپنے تئیں کوششیں کرکے دیکھ لیں۔ حمزہ شہباز کہتے ہیں جب ددھیال کی جائیداد اصولوں اور حصہ داری کے حق کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہوسکتی بلکہ جس پر جس کا قبضہ وہ مالک قرار پایا تو پھر سیاست میں کیسی حصہ داری اور اطاعت۔ تایا ابوجی (میاںنوازشریف) کا احترام اپنی جگہ وہ بڑے ہیں۔ مریم نواز کے سیاسی فیصلے ہم کیوں تسلیم کریں۔ مریم اور حمزہ کے اختلافات بہت پرانے ہیں۔ پچھلے سال جب مریم نواز کی صاحبزادی کی شادی تھی تو اس موقع پر دونوں کی دادی اماں نے ان کی صلح کرادی تھی۔ اقتدار طلبی اور پورے اختیارات پر دسترس کی خواہش رشتے نہیں دیکھتی۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے ٹوپیاں سینے والے پارساﺅں کا بھرم کھل جائے گا۔ اس وقت سب سے مشکل صورتحال سے میاں شہبازشریف دوچار ہیں۔ ایک طرف وزیراعظم بننے کی برسوں سے مچلتی خواہش اولاد اور ہم نوالہ چودھری نثارعلی خان ہیں دوسری طرف بڑے بھائی میاں نوازشریف جن کا وہ ہمیشہ محبت اور احترام کے ساتھ ذکر ہی نہیں کرتے بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے رہتے ہیں مہینہ بھر سے اوپر چند دن قبل شہبازشریف نے کہا تھا قرآن پر حلف دینے کو تیار ہوں کہ نوازشریف کرپٹ نہیں ہے۔ جہاں تک میاں محمدشریف کی وفات کے بعد مشترکہ خاندانی جائیدادوں میں سے کچھ کے بارے نوازشریف اور ان کے بچوں کے اس مو¿قف کا تعلق ہے کہ جدہ والی مل فروخت کرکے حاصل ہونے والی رقم اور لندن کے فلیٹس کے ساتھ لندن میں پراپرٹی کے بزنس ان تینوں کا مشترکہ جائیداد سے کوئی تعلق نہیں تو ان پر ڈھکے چھپے نہیں صاف الفاظ میں شہبازشریف کے بچے یہ کہہ چکے کہ ہرچیز مشترکہ اثاثوں میں شامل تھی اور تقسیم بنیادی اصول کی روشنی میں ہونی چاہیے۔
شہبازشریف کے سامنے جو سوال سر اٹھائے کھڑا ہے (بلکہ یہ سوال سنگین مسئلہ بن کر ان کے گلے پڑنے کو ہے) وہ یہ ہے کہ اگر لندن کی پراپرٹی مشترکہ اثاثوں کا حصہ نہیں تھی تو حدیبیہ پیپرمل اور التوفیق بینک والے معاملے میں بینک کے ساتھ عدالت سے باہر معاملات طے کرنے کے لئے خاندان نے انہیں کیوں مقرر کیا۔ حدیبیہ پیپرمل کا قصہ ہی اصل میں ساری کہانی کا ابتدائی حصہ ہے وہ جسے نیب والے عدالتی فیصلے کے بعد اپیل نہ کرکے داخل دفتر کرچکے تھے یہ کیس اب سپریم کورٹ کے حکم سے دوبارہ کھلا ہے۔ حکومت میں اب بھی نوازشریف کے وفادار سمجھے جانے والے وزراءہوں لیگی رہنما یا خود نوازشریف کی صاحبزادی مریم سارے اس کیس کے کھلنے پر اتاولوں کی طرح بیانات دے رہے ہیں۔ اور تو اور پنجاب کے وزیرقانون فرما رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مان رہے ہیں مگر اسے آسمانی صحیفہ سمجھ کر ایمان نہیں لاسکتے کوئی ہمیں اس کے لئے مجبور بھی نہ کرے۔ چڑچڑے پن کی اصل وجہ یہ ہے کہ حدیبیہ پیپرمل کا کیس شفاف انداز میں چلتا ہے تو منی لانڈرنگ ثابت ہوجائے گی۔ منی لانڈرنگ ثابت ہوئی تو شہبازشریف مساوی جرم کے مرتکب ٹھہریں گے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو شہبازشریف کو ایک قدم نثار کی طرف بڑھاتا ہے پھر وہ ایک قدم بھائی کی طرف اٹھاتے ہیں۔ فی الوقت وہ درمیان میں کھڑے نفع و نقصان پر غور کررہے ہیں۔ اس غور میں کچھ اور باتیں اور مسائل بھی ہیں۔ ایک مسئلہ لاہور میں صفائی کے امور سنبھالے ادارے کی روزانہ کی بنیاد پر کرپشن کا ہے۔ دو تین ماہ قبل ان کالموں میں عرض کیا تھاکہ روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے کی کرپشن ہورہی ہے۔ واقفانِ حال کا دعویٰ ہے کہ یہ حمزہ شہباز کی سرپرستی میں ہورہا ہے۔ سینہ بہ سینہ سفر کرتی کرپشن کہانیوں کے ساتھ کچھ کاغذوں پر لکھے اعدادوشمار بھی معاملات کو گمبھیر کررہے ہیں۔ کسی کے پاس وقت ہوتو آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ پڑھ لے کہ پنجاب حکومت نے کسی معاہدے کے بغیر 3کمپنیوں کو 27ارب روپے کے قرضے جاری کئے۔ ان کمپنیوں سے نہ تو سود لیا گیا نہ اصل رقم واپس لینے کے لئے کوئی اقدام ہوا۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو 17ارب روپے پنجاب انڈسٹریل سٹیٹ کمپنی کو 6.8ارب روپے اور راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو 1.6ارب روپے کا قرضہ دیا۔ ان تینوں کمپنیوں میں حمزہ شہباز کا طوطی بولتا ہے۔ سارے فیصلے ان کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ ایک تاثر یہ ہے کہ اگر شہبازشریف چودھری نثار کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو حمزہ شہباز سے جُڑے امور پر توجہ نہیں دی جائے گی۔ یہ تاثر درست ہے تو اس سے عدم اعتماد کی خلیج ہی نہیں بڑھے گی بلکہ اس شک کو بھی تقویت پہنچے گی کہ اندر کھاتے معاملات کچھ اور تھے۔ بتلائے دکھائے کچھ اور۔
اپنے اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔ مسلم لیگ کے اندر چودھری نثارعلی خان کے مو¿قف حکومتی امور اور سیاسی حوالوں ہر دو سے اتفاق کرنے والوں میں راجہ ظفرالحق سید ظفرعلی شاہ شہبازشریف کا نام لیا جارہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر چودھری نثار بغاوت کا جھنڈا بلند کرتے ہیں تو کیا راجہ جی اور شہبازشریف ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں اس سے کچھ دیر قبل نون لیگ کی ایک خاتون رکن قومی اسمبلی (یہ خاتون براہ راست منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچی ہیں) نے ایک محفل میں کہا ہم بہت سنجیدہ ہیں کہ پارٹی کو مریم نواز کی حکمت عملی پر قربان نہ کیا جائے۔ تصادم کے بجائے درمیانی راستہ نکالا جائے جو ہمیں آئندہ انتخابات تک پہنچا دے۔ لیکن دوسری طرف نون لیگ کی وفاقی حکومت میں اکثریت مریم نواز کی سیاسی وفاداری پر یقین رکھتی ہے۔ خواجہ آصف خواجہ سعد رفیق خرم دستگیر خان احسن اقبال حامد نواز دانیال عزیز چودھری چودھری طلال اور اطلاعات کی وفاقی وزیر مریم اورنگزیب کے ساتھ مشاہداللہ خان یہ وہ لوگ ہیں جو مریم نواز کے 9رتن سمجھے کہے جارہے ہیں۔ ان وزراءکی شہرت یہ ہے کہ وہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پر ناخوش ہیں۔ انہیں شکوہ ہے کہ وزیراعظم نے ان کی دونوں باتیں نہیں مانیں اوّلاً نوازشریف کی نااہلی کو ختم کرنے کے لئے آئینی ترمیم اور ثانیاً یہ کہ کابینہ۔ نوازشریف کی ڈے ٹو ڈے ہدایات پر عمل کرے۔ کچھ شکایات اور بھی ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نون لیگ کے اندر اختلافات دن بدن گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ نثار و شہباز کے پاس کم سے کم وقت رہ گیا ہے کہ وہ اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں اور عمل پیرا ہوں۔ خود وزیراعظم عباسی کو بھی حالات کا ادراک ہے اسی لئے انہوں نے بعض معاملات پر چودھری نثار کا مشورہ ماننے کے بجائے نوازشریف کے حکم پر عمل کر ترجیح دی۔ اقتدار اور اختیارات پر کُلی دسترس کے شوق میں اگر جنرل ضیاءالحق کے سیاسی ورثے مسلم لیگ (ن) کا بٹوارہ ہوجاتا ہے تو ضیاءرجیم سمجھے جانے والے لیگی رہنما اور پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت مسلم لیگ کے خمیر کا حق ادا کرتے ہوئے طاقت والے پلڑے میں وزن ڈالے گی۔ ساتھیوں کے مختصر لشکر کی قیادت صاحبزادی کو سونپ کر نوازشریف اپنے مقاصد کس حد تک حاصل کرپائیں گے؟ یہ اصل سوال ہے۔ پچھلے دو دن سے دستیاب لیگی رہنماﺅں میں سے جس کسی سے بھی پوچھا گیا کرپٹ ارکان پارلیمان کی 120 نفری فہرست کی موجودگی میں ٹکراﺅ کی سیاست کا میلہ سج سکے گا؟ اس کا جواب تھا مار کھانے والے مار کھائیں ہمیں کیا ضرورت ہے کہ خوار ہوں۔ سو پیارے قارئین چند دن یا دو ہفتے صبر کیجئے پردے اٹھنے والے ہیں اور پردے کے پیچھے جو ہے وہ آپ دیکھ لیں گے۔
بشکریہ خبریں ملتان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn