تبسم نواز وڑائچ پیشے کے اعتبار سے بینکر ہیں۔ لگ بھگ تیس برس ہولئے بینکوں کے بہی کھاتوں کے اعداد سیدھے کرتے۔ حصول رزق کے اس ذریعے کو مگر انہوں نے اپنے مطالعے‘ تحقیق اور تحریر و تقریر کے آڑے کبھی نہیں آنے دیا۔ شاعر ہیں‘ مترجم‘ محقق اور نثرنگار ہیں ‘ تقابل ادیان پر مطالعہ بہت وسیع ہے اسی لئے انسان دوستی اور علم کو اہمیت دیتے ہیں۔ تعصب و تنگ نظری کے کوچوں کے مکین انہیں بھی نہیں بھاتے۔ کبھی غزل وجد میں کہتے تھے۔ غزل کو کفر اب بھی نہیں سمجھتے مگر پچھلے چند برسوں سے حمدونعت‘ سلام و منقبت کے میدانوں میں ہیں۔ عصری سیاست اور اس سے بندھے موضوعات پر لکھتے ہوئے کبھی کبھی جی چاہتاہے کہ قارئین کے مطالعے کے ذوق کی تسکین کے لئے بھی کتابوں کے اوراق الٹے جائیں پر اس بار ایک لمبی مسافت طے کرکے شاہینوں کے شہر سرگودھا میں تبسم نواز وڑائچ جیسی صاحب علم شخصیت کے حضور حاضری دی۔ لگ بھر آٹھ گھنٹوں پر پھیلی اس حاضری میں طالب علم نے ان سے اردو ادب‘ اردو زبان‘ شاعری اور تاریخ سمیت چند دیگر موضوعات پر سوالات کئے۔ رسان اور دھیان کے ساتھ انہوں نے ہر سوال کا جواب دیا۔ ان کے جوابات نے اوراق الٹنا شروع کردیئے۔ بہت دنوں بعد ایک سچے علم دوست اور انسانی اقدار پر یقین رکھنے والے صاحب طرز ادیب و شاعر سے ملاقات جس میں طالب علم کو سیکھنے کا موقع ملا۔ ان سے ہوئی طویل نشست کے دوران معروف شاعر سید عمران نقوی‘ جناب وڑائچ کے صاحبزادے پروفیسر عبداللہ تبسم اور طالب علم کے ہمراہی بلال حسن بھٹی بھی موجود تھے۔ صاحب علم نے عرض کیا ”ولی دکنی سے اب تک کی اردو شاعری کے سفر میں شاعری تو ہے مگر اردو نہیں؟“ ان کا کہنا تھا ”زبانوں کو ارتقاءکا حق ہے تو اردو کو کیوں نہیں۔ کوئی زبان ارتقائی عمل سے بچ کر ایک ہی سمت پر قائم نہیں رہتی۔ ولی دکنی کے عہد کی اردو اور آج کی اردو کے درمیان صدیوں کے سفر میں الفاظ کی نئی بُنت نے اردو کے حسن کو نکھارا‘ بنیادی بات یہ ہے کہ کیا زبان جذبات و احساسات کو وہ الفاظ دے پاتی ہے جو اظہار کی قدرت کا حق ادا کریں اور کہنے (شاعر) لکھنے (ادیب) والے کے مفہوم کو پڑھنے سننے والوں تک منتقل کرے۔ بلاشبہ اردو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اپنے ارتقائی سفر کے دوران کسی بھی مرحلے پر خود کو خواص تک محدود نہیں کیا یہی اس کے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کی وجہ ہے“۔ عرض کیا ”شاعری جذبوں کی مزاحمت کی ترجمانی کا حق ادا کرپاتی ہے؟“ جواب ملا ”جذبے نہ ہوں تو الفاظ کی بُنت ممکن ہی نہیں۔ زبان سے اظہار ہی نہیں بلکہ اگر انسان میں سے بھی جذبے نکال دیں تو خالی روح دار جسم رہ جاتا ہے۔ لطیف جذبوں اور احساس کی دولت سے مالامال انسان پھر تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا“۔ طالب علم نے سوال کیا‘ شعر اور شاعر کی زندگی کتنی ہے؟ کہنے لگے شاعری کی زندگی شعر سے مشروط ہے جتنی عمر شعر کی ہوگی اتنی ہی شاعر کی۔ ضروری نہیں کہ شاعر کی کتابوں کی تعداد اسے زندگی بخشے۔ کبھی کبھی تو ایک شعر عشروں بلکہ صدیوں تک زبان زد عام رہتا اور شاعر کو زندہ رکھتا ہے۔ ان سے دریافت کیا کہ ”ایک رائے یہ ہے کہ آزاد نظم میں جذبوں کے اس طور اظہار کی قدرت نہیں جس طرح غزل اور نظم میں بھرپور بات؟“ ان کا کہنا تھا شاعری 19ویں یا 20ویں صدی کی دریافت نہیں۔ عربی‘ ہندی‘ فارسی اور دیگر قدیم زبانوں میں موجود شاعری بھی پابند شاعری ہے۔ آزاد نظم 20ویں صدی کی دریافت ہے۔ کم از کم میں اسے شاعری کی صنف نہیں سمجھتا بلکہ میری دانست میں پابندیوں سے گھبرانے والوں نے آزاد نظم کو اظہار کا ذریعہ بنانے کی کوشش مگر غزل اور نظم جیسی لطافت اور شہرت آزاد نظم کو نہیں مل پائی یہی وجہ ہے کہ ولی دکنی تو آج بھی اردو شاعری کا تذکرہ ہوتے ہی یاد آجاتے ہیں مگر آزاد نظم کے خالقین اور اس فیشن کو بڑھاوا دینے والے کتنے لوگوں کے نام اردو ادب کے طالب علموں کو یاد ہیں“۔ عرض کیا کیا آزاد نظم لکھنے کا رجحان رکھنے والے خلیل جبران سے متاثر تو نہیں تھےِ؟ کہنے لگے مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ ن م راشد کا اپنا انداز ہے خالص ان کا اپنا۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ غزل و نظم کی معروف صنفوں میں موجود پابندیوں سے گھبرائے لوگوں نے آسان راستہ چنا اپنی بات کہنے کا“۔
دریافت کیا یہ جو چند لوگ ہر دوچار برس کے بعد شگوفے چھوڑنے لگتے ہیں کہ اقبال (علامہ اقبال) کی شاعری میں اپنا خالص کچھ نہیں بلکہ وہ سعدی و رومی سے گوئیٹے‘ شیلے اور جس سے بھی متاثر ہوئے اس کی فہم کو اردو کے قالب میں ڈھال دیا؟“ مسکراتے ہوئے بولے‘ اس رائے کے حاملین کا مطالعہ بھی ذوق اور ظرف کی طرح ناقص ہے۔ میروغالب کے بعد کسی غیرفطری شاعر اور ترجمہ گو کے بس کی بات نہیں رہی تھی شاعری۔ لازم تھا کہ اب جو بھی اس میدان میں ا ترے نئے موضوعات اور حسن کلام دونوں پر دسترس ہو۔ اقبالؒ خالصتاً حقیقی شاعر تھے اپنے عہد اور لوگوں کے نبض شناس۔ ان کا وسیع مطالعہ اظہار میں معاون بنا لیکن یہ معاونت ایسی ہرگز نہیں کہ اسے فہم کے ترجمے کا نام دے کر اقبال کے فہم و شعور کو نظرانداز کردیا جائے۔ وہ اوریجنل شاعرتھے۔ تاریخ‘ تصوف‘ سیاسیات‘ فلسفہ اور دیگر موضوعات پر ان کی گہری نظر تھی اور وہ اس امر سے بھی کاملاً آگاہ تھے کہ میروغالب کے بعد شاعری کے میدان میں حیات ابدی کے تقاضے کیا ہیں۔ ویسے بھی ارتقاءکا سفر جاری و ساری رہتا ہے۔ جو سوچے گا وہ بولے گا صرف پتھر اور جانور تبدیل نہیں ہوتے“۔ سوال کیا‘ اردو شاعری زلف یارِ طرح دار شکوﺅں اور خواہش حصول سے ہی بندھی کیوں ہے؟ تبسم نواز وڑائچ گویا ہوئے عربی اور فارسی شاعری کے اثرات بھی ایک وجہ ہیں لیکن اردو شاعری کے موضوعات فقط یہی تو کبھی نہیں رہے دیگر موضوعات بھی شعراءکے پیش نظر ہوئے اور ان پر بھی اظہار خیال ہوا۔ زلف یار سے بندھی یا محبوب کے ہونٹوں کے تبسم کا ذکر لئے شاعری کے ساتھ عشق حقیقی کی باتیں بھی ہوئیں۔کچلے ہوئے طبقات کا درد بھی ہے اقوام کے عروج و زوال کا تذکرہ بھی۔ غمِ جاناں سے بہت زیادہ غمِ دوراں کے قصے ہوئے۔ ہاں پرانے زخم کبھی کبھی تازہ ہوتے ہیں تو ان زخموں کا ذکر بھی ہوگا“۔ میں نے عرض کیا اسلام کی پہلی دعوت حصول علم کی ہے مگر مسلمان علم دشمنی پر تلے ہوئے دکھائی دیئے اور دیتے ہیں؟ ان کاکہنا تھا کہ تعصبات اور ملوکیت علم کے دشمن ہیں ان دونوں کے حدی خواں علم کا راستہ اس لئے روکتے ہیں کہ شعور کی دولت سے مالامال سماج اطاعت کا طوق اتار پھینکتا ہے۔ ملوکیت کو صرف قصیدہ خواں پسند ہوتے ہیں جو سب اچھا کا راگ الاپتے رہیں۔ غلاموں کی نسلیں جہالت کاشت کرسکتی ہیں بالادست طبقات جہالت کی کاشت سے خوش ہوتے ہیں۔ اسلام دعوت علم و عمل ہے۔ مسلم تاریخ میں دعوت علم و عمل کا زمانہ کتنا ہے اور اطاعت طلبی کا زمانہ کتنا۔ ہمیں کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا کہ مہم جو مسلم حکمرانوں نے دعوت علم و عمل کو پس پشت ڈالے رکھا المیہ یہ ہے کہ صاحبان منبر حکمرانوں کے کاسہ لیس بنے رہے اور آج بھی صورتحال تبدیل نہیں ہوئی۔ ملا بھی ایک قسم کی سامراجی مخلوق ہے یہ مخلوق بھی لوگوں میں ذہنی غلامی کی آبیاری کرتی رہتی ہے۔ پھر ہم میں سے کتنے ہیں جو تعلیم اور علم کے فرق کو سمجھتے ہیں۔ جس دن مسلمانوں نے تعصبات کو ارتقاءکا قاتل سمجھ لیا وہ تعلیم اور علم کا فرق بھی جان لیں گے۔ وہ دن ایک نئے سفر کی بنیاد رکھے گا“۔ عرض کیا‘ پچھلی نسل کی دانش کی مجاوری لازم ہے کیا؟ جی بالکل نہیں البتہ ان کی دانش‘ تجربوں اور مشاہدات سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے ہر نئی نسل کو. ماضی سے کٹ کر نہیں جیا جاسکتا ہاں ماضی میں ہی زندہ رہنے پر مصر لوگ اصل میں عصری تقاضوں کو شعوری طورپر سمجھنے سے محروم ہوتے ہیں۔ ان سے دریافت کیا‘ ترجموں پر اتراتے لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ادب اور شعور کے بڑھاوے میں انہوں نے حصہ ڈال لیا؟ جواب ملا تخلیق کا متبادل کچھ بھی نہیں۔ تخلیق ہی عصری شعور کی روح کو سمجھنے کی دعوت ہے۔ ترجمہ تن آسانی نہیں ہے ایک اچھا مترجم وہی ہے جو دونوں زبانوں کی نزاکتوں کو سمجھتا ہو صرف یہی نہیں بلکہ وہ جس کی تخلیق کا ترجمہ کررہا ہے اس تخلیق کے خالق کی فکر سے بھی کاملاً آگاہ ہو۔“ تبسم نواز وڑائچ تقریباً درجن بھر کتابوں کے مصنف ہیں۔ اردو کے قادرالکلام شاعر کے طور پر علمی و ادبی حلقوں میں ان کا بہت احترام ہے۔ ان سے طویل نشست کا مختصر احوال ہے یہ کالم
بجھے چراغ پہ جو حلف جانثاری دے
کہیں رہوں پر میں شامل اسی سپاہ میں ہوں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn