Qalamkar Website Header Image

دُکھ اور طرح کے ہیں اور دوا اور طرح کی | حیدر جاوید سید

غریب کو باوقار زندگی اور انصاف دینے کی ضرورت پر جب کوئی (اس کوئی میں سارے شامل ہیں) بات کرتا ہے تو جی کرتا ہے بھرے چوک میں دھمال ڈالی جائے۔ جس ملک میں ایک عام آدمی کو اگلی تاریخ پیشی لینے کے لئے ریڈر کی ”خدمت“ کرنا پڑے، دادا کا دائر کیس پوتے لڑتے پھریں اور پھانسی کی سزا پانے والوں کی اپیل کی سماعت 20، 20 سال تک نہ ہو وہاں سستا انصاف‘ فوری انصاف دونوں زبان و بیان کے چسکے ہی ہیں۔ اہلیہ نے سٹیٹ بینک سے گولڈن شیک ہینڈ لے کر مکانات تعمیر کرنے کا کاروبار کیا پھر اگلے مرحلہ میں پراپرٹی کا۔ اس کاروبار میں کریسنٹ پراپرٹی راولپنڈی کے مالک رانا عظیم ایک کروڑ پندرہ لاکھ روپے کا فراڈ کرکے غائب ہوگئے۔ کئی برسوں بعد گرفتار ہوئے ان کے دیئے ہوئے چیکوں پر درج ہونے والے مقدمات کی سماعت کے دوران قانون کی تشریح کرنے والے ملزم کے وکیل نے وہ چمتکاریں دکھائیں کہ مدعی منہ دیکھتے رہے اور ملزم ضمانت کروا کے نودو گیارہ۔ سال 2011ء میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو مع چند ثبوت ایک درخواست دی کہ ان کی ماتحت عدالت کے جج صاحب نے کیسا عظیم الشان انصاف فرمایامگر آج تک شنوائی نہیں ہوئی۔ پنجاب بار کونسل کو ملزم کے وکیل بارے عرض گزاری کہ انہوں نے قانون اور انصاف سے کھلواڑ کیا کیا مجال کہ 6 سال گزرنے کے باوجود کبھی کوئی کارروائی کی ہو۔ یہ ذاتی اور تلخ تجربہ ہے عدالت سے انصاف لینے کا۔ تین سال کی مقدمہ بازی اور دھکوں میں جو ہمارے خاندان پر بیتی وہ الگ داستان ہے۔ اب جب کوئی یہ کہتا ہے کہ انصاف ہوا یا انصاف ہوگا تو ہنسی آتی ہے۔ میرے بدقسمت خاندان نے جماعت اسلامی لاہور کے رہنما ظہوراحمد وٹو کی ہاﺅسنگ سکیم ”فارمناٹائس“ میں 2 دس مرلے اور ایک 5مرلہ کا پلاٹ خریدا۔ دین دار وٹو صاحب نے ایک ایک پلاٹ پانچ سے سات بار فروخت کیا۔ یہاں تک فراڈ ہواکہ ڈی38 پلاٹ کی حوالگی لیٹر ہمارے نام تھا پھر بھی آگے فروخت کردیا۔ سید منور حسن امیر جماعت اسلامی تھے ان کی خدمت میں عرض کیا اس حوالے سے مدد کیجئے۔ صالحین کی جماعت کے امیر نے پلہ نہ پکڑایا۔ وٹو کو نیب نے دوسال قبل اربوں روپے کا فراڈ (ہاﺅسنگ سوسائٹی کے نام پر) کرنے پر گرفتار کیا۔ متاثرین دھکے کھاتے پھرتے۔ وہ لوگ جن کی کہیں شنوائی تھی بااثر محکمے میں اعلیٰ افسر رشتہ دار تھا دادرسی کے قابل سمجھے گئے۔

دونوں واقعات کا متاثر میرا خاندان ہے سنی سنائی ہرگز نہیں۔ ان کی موجودگی میں کیسے یقین کرلیا جائے کہ اس ملک میں کسی عام آدمی کو انصاف مل سکتا ہے یا اس کا حق۔ نظام حکومت ہو یا نظام انصاف ہرجگہ طبقاتی بالادستی کا جبر صاف دکھائی دیتا ہے۔ نظام انصاف کے کج کس پر عیاں نہیں۔ خود انصاف دلوانے والے وکیل صاحبان کا ایک بڑا طبقہ کیا کرتا ہے کس طرح وہ اپنے موکلوں کے مفادات کے برعکس وہ کام کرتا ہے جس سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو۔ ایک دو نہیں سینکڑوں قصے آپ کو عدالتوں کے احاطے میں سننے کو ملیں گے۔ انہیں سننے اور آگے بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں آپ کے پاس ایک ایسے لاءآفس کی خدمات حاصل کرنے کی توفیق ہے جو عدالتوں کے احاطوں میں بادشاہ گر کہلاتے ہیں تو پھر کچھ امید رکھیں ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ اپنا حق لینے عدالت جائیں اور مخالف پارٹی کا وکیل آپ کو چوری‘ ڈکیتی اور ایسے دیگر سنگین مقدمات میں ملوث کروانے کے لئے اپنے موکل کو مشورہ دے دے۔ ہمارے اردگرد یہی ہورہا ہے۔ شفافیت نام کی کوئی چیز نہیں۔ قانون موم کی ناک ہے اور انصاف اس کا جس کے پاس وسائل ہیں بے وسائل آدمی تو عبادت گاہوں میں بھی اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ جب میرے کچھ دوست ان سارے معاملات سے آگاہی پر حیرانی سے کہتے ہیں کہ شاہ جی صحافی ہوکر بھی انصاف بذریعہ عدالت لینے چل پڑے تھے تو مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوتی۔ لاہور اور راولپنڈی میں متوازی عدالتی نظام چلانے والے تنازع کی مالیت (کل رقم میں) اپنا حصہ مقرر کرکے فوری انصاف فراہم کرتے ہیں۔ اب اس میں بھی دونمبر لوگ آگئے ہیں وہ فریاد لے کر جانے والوں کو مستقل اسامی بنانے کے لئے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور اس نیٹ ورک میں کیسے کیسے ”صاف و پاکیزہ“ لوگ شامل ہیں دیکھ سن اور بھگت کر حیرانی ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  عمران خان۔۔۔ دی گریٹ

آپ بھی سوچ رہے ہوں کہ کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اس ملک میں غریب اور سفیدپوش شخص زندہ ہی رہ لے تو بڑی بات ہے۔ مظفرگڑھ کے ایک علاقے میں لڑکی کے رشتے کے تنازع پر شروع ہونے والی دشمنی یہ رنگ لائی ہے کہ لڑکی والے اپنے اثرورسوخ کی بناپر لڑکے کے چھوٹے بھائی کو جو دسویں جماعت کا طالب علم ہے‘ اب تک قتل کے ایک مقدمے سمیت پچاس مقدمات میں ملزم نامزد کرواچکے ہیں۔ انتظامیہ پولیس‘ شہری حلقے‘ نام نہاد عزت دار سبھی جانتے ہیں کہ دسویں جماعت کا طالب علم ہرمقدمہ میں گیارہویں کھلاڑی کے طور پر بھرتی ہوتا ہے مگر چونکہ لڑکے والے بااثر اور دولت مند ہیں اس لئے سب کی زبانوں کو تالے لگے ہوئے ہیں۔ جبروبالادستی کے اس نظام کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ محلہ و گاﺅں کی سطح سے ملک کی سطح تک داروفریاد کی کوئی جگہ نہیں۔ ہم اور آپ جو خود کو عوام سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں مٹی برابر اہمیت نہیں رکھتے۔ طاقت‘ پیسہ‘ اختیار ان تینوں چیزوں کی اہمیت ہے۔ باقی سب باتیں ہیں۔ غریب آدمی سے کسی کو ہمدردی نہیں۔ دکھاوا ہے ہرطرف۔ نظام عدل کی توہین ہوتی ہے ورنہ ایسے قصے آپ کو سناﺅں کہ وہ زبان زدعام بات حرف بہ حرف کھل کر سمجھ آئے کہ ”فلاں خاندان دو وکیل کرنے کے بجائے ایک جج کرلیتا ہے“۔ جبرواستحصال ہے‘ لاقانونیت‘ کھلواڑ ہی کھلواڑ ہے۔ دو‘ تین ماہ قبل لاہور‘ شیخوپورہ روڈ کی ایک آبادی میں ایک نوجوان قتل ہوگیا۔ پولیس کے تشریف لانے اور پوسٹ مارٹم و ایف آئی آر کے اندراج تک کے مراحل طے ہونے کے درمیان مقتول نوجوان کے گھر والوں کے مبلغ 80 ہزار روپے خرچ ہوئے جبکہ پولیس پارٹی کے لئے اچھے کھانے کا انتظام تو تین چار دن تک کرنا پڑتا رہا۔ کس کس ناانصافی کو روئیں ہم۔ تین چار ماہ قبل پیش آنے والے ایک واقعہ کی وجہ سے تھانہ شاہدرہ کی زیارت کرنا پڑی۔ پندرہ بیس منٹ تک تو تھانیدار قبلہ نے بیٹھنے تک کو نہ کہا۔ پھر سارا قصہ سن کر بولے ”یہاں تو ایک معمولی نمائندہ سنبھالانہیں جاتا آپ کہتے ہیں کالم نگار ہوں اور منہ اٹھاکر تھانے چلے آئے ہیں“۔ بتائیے عزت نفس رکھنے والے شہری کو اگر اپنی فریاد کے جواب میں تھانے میں بھاشن سننا پڑیں تو وہ کیا کرے۔ جماعت اسلامی کے ظہور وٹو کی ہاﺅسنگ سکیم کے اربوں کے فراڈ کی داستان بالائی سطور میں عرض کرچکا۔ اس ہاﺅسنگ سوسائٹی میں میرے نام کے تینوں پلاٹ درحقیقت میری خواہرنسبتی کے ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں۔ فراڈ ہاﺅسنگ سوسائٹی والوں نے کیا اور فریاد کوئی سنتا نہیں۔ خاندان کے اندر کیا مسائل ہیں اس بارے کیا عرض کروں۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ ایک بڑے عالم دین کے صاحبزادے نے اپنے طبقے کے لوگوں کے لئے ایک ہاﺅسنگ کالونی بنانے کا منصوبہ کچھ ملکی و غیرملکی مخیر حضرات کو پیش کیا۔ کچلے ہوئے طبقات کے لئے نرم دل رکھنے والوں نے ابتدائی طور پر زمین کی خریداری کے لئے 36کروڑ روپے فراہم کئے (یہ سال 2010ءکی بات ہے) نہ وہ زمین خریدی گئی نہ ہاﺅسنگ کالونی بنی‘ نہ کسی کو چھت میسر آئی۔ صاحبزادے بیوی بچوں سمیت آسٹریلیا جابسے۔ ہرقدم پر ایک کہانی ہے۔ ظلم کی داستان‘ ناانصافی کا قصہ‘ سینہ زوری کے واقعات۔ یہ سب اس لئے ہے کہ 90فیصد آبادی کے عام طبقات میں اپنے حقوق کے حصول کے لئے شعور نہیں۔ خاندانوں کی غلامی میں نسل در نسل خوش ہیں۔ سو جوتے اور سو پیاز کھاکر بھی راضی ہیں۔ وقت آگے بڑھ رہا ہے۔ ہماری نسل کے لوگ جیسے تیسے زندگی بسر کرلئے کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ہماری آئندہ نسلوں کی قسمت میں بھی یہی حالات جبر اور ناانصافی لکھے ہیں۔ آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں۔ کاش کہ اس ملک کے کچلے ہوئے طبقات اپنے حال اور اگلی نسل کے مستقبل کو بدلنے کے لئے غلامی کی زنجیریں توڑنے کا حوصلہ کرپائیں۔

یہ بھی پڑھئے:  سوشل میڈیا پہ موجود فکری جدال سماجی تقسیم کا عکس ہے

بشکریہ: روزنامہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس