Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

پاک امریکہ تعلقات کا نیا موڑ | حیدر جاوید سید

نواز شریف کی نا اہلی کے پیچھے کوئی ”قوت” تھی۔ آصف علی زرداری کی کرپشن کے آخری مقدمہ میں بریت ”سودے بازی” کا نتیجہ ہے۔ ہمارے دوست عمران خان کو بھی زر داری کی بریت قبول نہیں کیوں؟ اس سوال کا جواب وہی دے سکتے ہیں کسی حال میں خوش نہ ہونے اور ہر حال میں سازشوں کا راگ الاپنے والوں کی بھی کیا زندگی ہے۔ ان سطور میں ہی ایک بار عرض کیا تھا کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے حامیوں میں سے ہر شخص کے نزدیک اس کا قائد اور امیر سچائی کا نشان ہے اور باقی قابل گردن زدنی ہیں ۔ چلیں اس بحث کو چھوڑ دیتے ہیں نیب والوں نے ابھی اپیل کرنی ہے۔ اپیل ہوگی اس کا فیصلہ آئے گا تو پھر دیکھیں گے۔ فی الوقت اصل موضوع پر بات سے قبل سی این این کو دئیے گئے عمران خان کے انٹرویو کی توصیف واجب ہے۔ بلا شبہ ایک اچھا دبنگ اور منہ توڑ انٹرویو تھا۔ ایک نہیں کئی دن تک سی این این کی ہیڈ لائن بنا رہا۔ اب یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ چونکہ سی این این کا پورا میڈیا گروپ امریکی صدر ٹرمپ کا مخالف ہے اس لئے انہوں نے عمران خان کو اہمیت دی۔ اچھا اگر ہے بھی تو کیا۔ صدر ٹرمپ کو پڑھنے تو ڈالا نا عمران نے یہ کہہ کر ” دنیا کی سپریم طاقت سارے وسائل جدید اسلحہ ڈیڑھ لاکھ کا اتحادی لشکر سات سو افراد پر مشتمل اگر حقانی نیٹ ورک کا مکو نہیں ٹھپ سکا تو رونے اور الزام تراشی کی بجائے اپنی پالیسیوں پر غور کرے” ایک پاکستانی کاجواب یہی ہونا چاہئے تھا۔

امریکیوں نے پیسے جنرل ضیاء الحق مرحوم کو دئیے یا زندہ جنرل پرویز مشرف کو’ ایک سے انہوں نے اپنے تین بندے قربان کرکے حساب چکتا کیا تھا’ ایک کو انہوں نے زرداری’ نواز شریف اور افتخار چودھری و اشفاق کیانی کے ساتھ مل کر ایوان صدر سے نکلوایا۔ ( یہ بحث نہیں اُس وقت کہ وہ ایوان صدر پہنچا کیسے اور پہنچانے میں امریکیوں کا رول کیا تھا) جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبدالرحمن کے خاندان موجود ہیں۔ ڈالروں سے کھیلتے ہیں’ مشرف دنیا بھر میں اڑتے پھر رہے ہیں وصولی کرنا چاہتے ہیں تو امریکہ بصد شوق کرے۔ ہاں ضمیر نام کی کوئی چیز اگر امریکیوں میں ہو تو کسی دن اہل پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر حساب کرلے۔18 ارب ڈالر حکمرانوں کو دئیے اور اس ملک کا اڑھائی سو ارب ڈالر کا مجموعی مالی نقصان ہوا۔ پچھلے 20 سالوں کے دوران جو انسان کھیت ہوئے وہ انمول تھے۔ 1960ء کی دہائی کے ترقی پسند غلط نہیں کہتے تھے ” امریکی دوستی بری اور دشمنی بھی۔ البتہ امریکہ دشمنوں سے زیادہ دوستوں کو نقصان پہنچاتا ہے”۔

یہ بھی پڑھئے:  رقہ سے سینکڑوں جنگجوؤں کا فرار: امریکہ،برطانیہ و کرد اتحادی افواج کا داعش سے خفیہ معاہدہ بے نقاب –بی بی سی

پچھلے پچاس سال کی عالمی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے ۔ امریکہ کے دشمن تو کسی نہ کسی طور زندہ رہے اس کے دوستوں کے ساتھ وہ ہوا جو کسی کے ساتھ نہیں ہوا۔ مطلب نکلتے ہی وہ دوستوں کے ساتھ کیاکرتے ہیں۔ تین آدمی (حکمران) ذہن میں لائیے ساری بات سمجھ میں آجائے گی۔ جنرل ضیاء الحق’ انوار السادات’ صدام حسین’ کالم کے دامن میں گنجائش کم ہوتی ہے پھر بھی عرض کروں جنرل ضیاء کو امریکیوں نے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے کے لئے اور پھر سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ میں استعمال کیا۔ مقصد پورا ہوا تو اپنے تین بندے قربان کرکے ضیاء سے جان چھڑالی۔ انوار السادات مصر کے صدر تھے۔ کیمپ ڈیوڈ کا بدنام زمانہ معاہدہ کرکے انہوں نے اپنے ملک کا قرضہ تو معاف کروایا مگر فلسطینیوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا۔ ان کی ضرورت اور افادیت ختم ہوئی تو ایک مصری سپاہی کے ہاتھوں مروا دیا۔ صدام حسین سے ایران پر حملہ کروایا۔ 9 سال کی ایران عراق جنگ دونوں ملکوں کو ساڑھے تین کھرب ڈالر میں پڑی۔ سات لاکھ افراد کھیت ہوئے۔ عراق ایران جنگ تمام ہوئی۔ صدام نے پرپرزے نکالے’ سی این این نے ہیرو بنا کر پیش کیا۔ ملک پر امریکی قابض ہوئے پھر ایک دن صدام غار سے برآمد ہوئے۔ مقدمہ چلا اور پھانسی چڑھا دئیے گئے۔ امریکہ پر صاد کرنے اور امریکی دوستی پر قومی غیرت قربان کرنے والوں کے لئے بیسویں صدی کے تین بڑے امریکہ د وست حکمرانوں کے انجام میں سبق ہے ۔ اگر پڑھنا سمجھنا چاہیں۔ طالب علم امریکہ سے تعلقات توڑنے کے بچگانہ مطالبے کو حرف غلط سمجھتا ہے۔ ہاں تعلقات اگر برابری پر استوار نہ ہوں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ امریکیوں کو اب پاکستان کی ضرورت نہیں رہی ڈیڑھ ارب کی آبادی والا بھارت اس کا نیا اتحادی ہے۔ 20ویں صدی کے ساتویں عشرے تک ایشیاء میں جو کردار ایران کے پاس تھا وہ مقام اور کردار اب بھارت کو عطاء ہوچکا۔ امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی 130 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھارت میں ہے۔ 2025ء تک یہ سرمایہ کاری 180 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ مالی مفادات ریڑھ کی ہڈی کادرجہ رکھتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنی کی جو پراڈکٹ بھارت میں ایک دن میں کروڑ سوا کروڑ فروخت ہوتی ہے پاکستان میں مشکل سے لاکھ دو لاکھ۔ پھر چین کی پھیلتی ہوئی معیشت ہے۔ امریکہ اور بھارت کیا چاہتے ہیں اس بات کو آسان زبان میں سمجھنے کے لئے بھارتی آرمی چیف کا حالیہ بیان ذہن میں لائیے۔ وہ کہتے ہیں سی پیک بھارت کے لئے تھریٹ ہے اس لئے امریکہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہاں یہ عرض کردوں کہ سی پیک کے حوالے سے طالب علم کے خیالات موسمی حب الوطنی کے مارے ہوئوں سے قدرے مختلف ہیں پھر بھی یہ ایک مسئلہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا جب تین پڑوسی ممالک سے بد اعتمادی کی لہریں سطح سمندر سے بلند ہوں تو پھڈہ مول لیا جاسکتا ہے؟ آسان جواب یہ ہے کہ سفارتکاری کا ہنر آزمائیے۔ امریکہ سے دبنگ انداز میں بات کیجئے اور پڑوسیوں سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی سعی بھی۔ پڑوسی کو دشمن بنا کر زندگی میں زہر گھولا جا سکتا ہے چین سے بسر نہیں کی جاسکتی’ ہمیں دنیا میں با وقار انداز میں سفر طے کرنا ہے تو دستور کی سر بلندی اور اداروں کا حدود میں رہنا لازم ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  طویل عرصے بعد آسٹریلوی سرزمین پر پاکستان کی فتح

بشکریہ: روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس