Qalamkar Website Header Image

جناب نوازشریف اور ان کے وزیرداخلہ | حیدر جاوید سید

جناب نوازشریف کے ”فیض و کرم“ ککھ پتی سے لکھ پتی ہوئے دوستوں کی پریشانی ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ ابھی تک پوچھ رہے ہیں سالارِفکر ضیاءالحق اورقائدِجمہوریت کو اقتدار سے کیوں نکالا گیا؟ چکری والے چودھری بھی اتوار کی سہ پہر گھنٹہ بھر تک اپنی ”خدمات“ بتاتے رہے۔ کاش انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ رپورٹ کو پڑھا ہوتا۔ سانحہ سول ہسپتال کوئٹہ کی اس جوڈیشل انکوائری میں ان کی وزارت کی مجرمانہ غفلت کو بے نقاب کیا گیا۔ آدمی جھوٹ مارنے یا جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسنے پر تل جائے تو کیا کیا جاسکتا ہے۔ وہ دن کوئی کیسے بھولے گا جب انہوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں گلوگیر انداز میں طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر سیاپا کیا تھا۔ اتوار کے دن وہ کہہ رہے تھے میں تو نہیں رویا۔ سرکار رونا کسے کہتے ہیں۔ ایک بار اپنی ہی تقریر کی ویڈیو پی ٹی وی سے لیجئے اور شانت ہوکر سن لیجئے۔ ہم آگے بڑھتے ہیں مگر ساعت بھر کے لئے رُکئے۔ سابق وزیرداخلہ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں کسی دہشت گرد تنظیم کا کوئی نیٹ ورک نہیں۔ حضور یہ جو آئے دن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں کالعدم تنظیموں کے عسکریت پسند ہلاک ہوتے ہیں یہ پھر کیا ہے؟ سابق وزیرداخلہ کی پریس کانفرنس سے صرف 3 دن قبل داعش‘ القاعدہ اور لشکر جھنگوی العالمی کے عسکریت پسندوں میں اتفاق رائے ہوا کہ مستقبل میں پاکستان، افغانستان اور ایران میں مشترکہ طور پر کارروائیاں کریں گے۔ افغان حکام ایسے اجلاس کی تصدیق کررہے ہیں۔۔ ذرائع کہتے ہیں کہ خطے میں دہشت گردی کی سرخیل تینوں عسکریت پسند تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ نجیب اللہ انصاری بھارتی شہری ہے (ناگپور بھارت) اس نے القاعدہ کی نمائندگی‘ انصاری قبل ازیں اسلامک سٹوڈنٹس موومنٹ کا حصہ رہا۔ 2011ء میں اس نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کی۔ پھر عراق اور شام میں سرگرم رہا اب پچھلے چندماہ سے افغانستان میں ہے۔ حامد خان ثانی داعش کا نمائندہ تھا۔ یہ طالبان اور داعش کے ایک سابق کمانڈر سعید اورکزئی (سعید کچھ عرصہ قبل افغانستان میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوچکا) کا چچازاد بھائی ہے۔ حامد نے ہی دو ہفتے قبل افغانستان میں سرکاری ملازمین کو لے جانے والی ایک بس پر حملہ کرانے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس بس پر حملے میں جاں بحق ہونے والے 57 افراد میں سے 31 افراد کا تعلق ہزارہ قبیلے سے تھا۔ لشکر جھنگوی العالمی کا نمائندہ مطیع الرحمن تھا۔ مطیع پہلے لشکر جھنگوی کا کمانڈر رہا اس کا اصل نام اکمل پنوار ہے۔ پھر وہ جنداللہ بلوچستان کا آپریشنل کمانڈر بنا۔ مطیع الرحمن نے چند کمانڈروں کے ساتھ طالبان کے فضل اللہ گروپ کے امیر کی بیعت کی۔ اس کی تنظیم لشکر جھنگوی العالمی کالعدم ٹی ٹی پی کی اتحادی کے طور پر سرگرم عمل ہے۔ اب القاعدہ اور داعش کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے منصوبوں میں شرکت کا فیصلہ آنے والے دنوں کے ان مسائل کی نشاندہی کرتا ہے جو مشکلات پیدا کریں گے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ وزارت داخلہ نے ہی پچھلے ہفتے کے دوران چاروں صوبائی حکومتوںکو متنبہ کیا ہے کہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ نے اپنا دہشت گرد سکواڈ پاکستان بھیج دیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  سچ سے بھاگنے کی ضرورت نہیں

جناب نوازشریف نے جی ٹی روڈ مارچ کے دوران متعدد مواقع پر کہاکہ ان کی حکومت نے دہشت گردوں کو کچل کر ملک میں امن قائم کیا۔ ان کے سابق وزیرداخلہ بھی دعوے فرما رہے ہیں مگر زمینی حقائق اور موصولہ اطلاعات ہر دو حضرات کے دعوﺅں کے برعکس ہیں۔ ستم یہ ہے کہ پچھلے سال محرم الحرام میں عاشور کے روز راولپنڈی کے راجہ بازار میں ہونے والے المناک سانحہ پر جو مقدمات درج ہوئے وہ حقائق و شواہد کے برعکس تھے۔ پرسوں سوموار کے روز آئی ایس پی آر کے سربراہ نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران اس حوالے سے میڈیا کے ذریعے عوام کو کچھ حقائق سے آگاہ کیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آڈیو ویڈیو بیانات اور دیگر تفصیلات سے عسکری حکام سول حکومت کو رواںسال اپریل اور پھر جون میں مفصل معلومات دے چکے تھے۔ سو اب اگر سابق وزیراعظم اور سابق وفاقی وزیرداخلہ سے یہ دریافت کیا جائے کہ حضور آپ نے حقائق جانتے ہوئے مناسب قانونی کارروائی کے لئے احکامات کیوں نہ جاری کئے تو یہ نامناسب ہرگز نہیں ہوگا۔ پچھلے چار برسوں سے 82 ارکانِ قومی اسمبلی کا گروپ جیب میں رکھنے کے دعویدار سابق وزیرداخلہ چودھری نثار اپنی ہی حکومت اور قیادت کو بلیک میل کرتے رہے۔ دوسری طرف ان کی جیب کے سوراخ سے ایک ایک کرکے ارکان پھسلتے گئے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں اس میں سارا کمال جناب نوازشریف کی دختر نیک اختر مریم نواز کا ہے اور یہ نیک کام انہوں نے اس وقت شروع کردیا تھا جب ڈان لیکس والے معاملے میں چودھری نثار کی وہ گفتگو وزیراعظم (اب سابق) تک پہنچی تھی جس میں عالی جناب کہہ رہے تھے ”معاملات کو بہتر کرنے اور ماحول کو سازگار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ نوازشریف کی جگہ پارٹی کے اندر سے نیاوزیراعظم لایا جائے“۔ بہرطور اب صورت یہ ہے کہ فی الوقت گاڑی بھی خالی ہے اور جناب چودھری بھی تنہا ہیں۔ جمعہ کے روز انہوں نے اپنے گروپ کے چند سرکردہ ارکان کو گھر پر بلایا تھا پھر انتظار ہی کرتے رہے۔ انتظار کے روگ کو انہوں نے خودستائی پر مبنی پریس کانفرنس سے کم کرنے کی کوشش کی۔ کامیابی بہرطور نہیں ملی بلکہ مزید مسائل پیدا ہوگئے۔

جناب نوازشریف کی نااہلی سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی سیٹ پر اب ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز امیدوار ہیں۔ انقلاب غالباً اسی کو کہتے ہیں گھر کی سیٹ گھر میں رہے۔ پی ٹی آئی نے 2013ءمیں اس نشست پر نوازشریف کا مقابلہ کرنے والی ڈاکٹر یاسمین راشد کو امیدوار بنایا ہے۔ پیپلزپارٹی ایک معروف اینکر کے بھائی کو امیدوار کے طور پر لائی ہے۔ پی پی پی قیادت کے اس فیصلے سے حلقہ میں پی پی پی کے دیرینہ کارکن شدید ناراض ہیں۔ قیادت نے اس ناراضگی کو کم کرانے کی کوشش نہ کی تو پیپلزپارٹی کو اس حلقے میں سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ناہیدخان کی پی پی پی (ورکرز) نے جنرل ضیاءالحق کے دور میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی کارکن ساجدہ میر کو میدان میں اتارا ہے۔ ساجدہ چند درجن سے زیادہ ووٹ شاید ہی لے پائیں مگر ان کا پی پی پی کے امیدوار کے مقابلہ میں موجود ہونا بلاول ہاﺅس کے نامزد امیدوار کے لئے مسائل بہرطور پیدا کرے گا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد پچھلے انتخابات کی طرح اس بار بھی بہت پُرجوش انداز میں انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ وہ بیگم کلثوم نواز کو ٹف ٹائم تو دے سکتی ہیں شکست دینا مشکل ہوگا۔ ایک تو وہی غلامانہ ذہنیت ہے۔ ”نوازشریف نوں کڈیا کیوں“ کا سوال بھی ہے۔ برادری ازم کا جادو بھی چلے گا پھر وفاق اور پنجاب میں حکومت (ن)لیگ کی ہی ہے۔ اس کے باوجود نون لیگ ایاز صادق والے ضمنی انتخابات کے آزمودہ نسخے بھی آزما رہی ہے۔ سینکڑوں شہریوں نے شکایت کی ہے کہ ان کے ووٹ فہرستوں سے نکال دیئے گئے ہیں حالانکہ انہوں نے پچھلے سال کے بلدیاتی انتخابات میں بھی یہیں سے ووٹ کاسٹ کئے تھے۔ اب پتہ چلا ہے کہ ان کے ووٹ کھاڑک نالہ کے قریبی علاقوں‘ رائے ونڈ روڈ کی آبادیوں اور مغل پورہ وغیرہ کی فہرستوں میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ نوازلیگ اس گھریلو سیٹ پر بالادستی قائم رکھنے کے لئے ہر ہتھکنڈہ آزمائے گی۔ ہتھکنڈوں کی شروعات پیپلزپارٹی کے ایک انتخابی دفتر پر پولیس او رلیگی کارکنوں کے مشترکہ حملے سے ہوئیں۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ ”سب اچھا“ نہیں ہے اندرون خانہ پیغام رساں دوڑ رہے ہیں۔ درخواستیں‘ منتیں اور دھمکیاں ساتھ ساتھ سفر کررہی ہیں۔ جناب نوازشریف کے گھر سے فیض پانے والے بہت سارے دوست کالموں کے دفتر لکھ کر ایک ہی سوال کررہے ہیں جمہوریت کی علامت اور محافظِ پاکستان نوازشریف کو کیوں نکالا گیا؟ ویسے ہے تو ظلم کہ بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے والے شفیق باپ سے عہدہ چھین لیا جائے‘ ہیں جی!

یہ بھی پڑھئے:  انقلاب کا آغاز | اکرم شیخ

بشکریہ: روزنامہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس