Qalamkar Website Header Image

سفرِ انقلاب نہیں خودستائی ہوئی پڑاو در پڑاو | حیدر جاوید سید

کچھ اور لکھنے کا ارادہ تھا۔ 70برسوں کا حساب سارا‘ پر درمیان میں نئے انقلاب فروشوں کے میڈیا منیجروں نے آن لیا۔ بلندی یہ تھی کہ مختلف الخیال اور مختلف المذاہب طالب علم جناب خورشید ندیم کی تحریر کو دو وجوہات پر شوق سے پڑھتے تھے اوّلاً وہ اس فہم کی یادگاروں میں سے ایک ”تھے“ جس کی تفسیر جناب امین احسن اصلاحی نے کی۔ جاوید غامدی تو ان کے استادمکرم ہیں۔ پستی یہ ہے کہ ان سا صاحب علم لُٹیروں کے انقلابی بھجن کو عبادت کا درجہ دے رہا ہے۔ زوال کس قدر تیزی سے آدمیوں کا شکار کرتا ہے۔ جواں مرگ شاعر انجم لاشاری یاد آئے۔ کہتے تھے ”بھوک نگر کے سارے باسی‘ اپنا سب کچھ خود کھا جائیں‘ پھر بھی بھوکے ہی رہ جائیں“۔ گمان ٹوٹنے پر رنجیدہ خاطر ہوں۔ کعبہ میں بُت گاڑنے والوں کے لئے دعائیں اکارت ہوتی ہیں۔ بہت سارے معاملات پر تحفظات ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ جناب نوازشریف کو انقلابی رہنما سمجھ لیا جائے۔ جو شخص قومی اسمبلی کی ایک نشست غریب کارکن کو نہ دے سکے اس سے انقلابی جدوجہد کی توقع عبث ہے۔ تکرار کے ساتھ عرض کرتا آرہا ہوں کچھ دوست ناراض ہوتے ہیں پر سچ یہ ہے کہ عوامی جمہوریت کے سہانے دن 70برسوں میں اتر نہیں پائے۔ بھٹو صاحب کے اقتدار کے ماہ و سال نے ابتداءمیں عوامی جمہوریت کا سماں باندھا تھا پھر ان کی جماعت پر اشرافیہ کے وہ طبقات قابض ہوگئے جن کے خلاف پیپلزپارٹی بنی تھی۔ خود بھٹو صاحب نے دو قدم کی پسپائی اختیار کی۔ یہی پسپائی بدترین حالات کا موجب بنی وہ تو شکر ہے کہ جواں مردی سے پھانسی چڑھ کر کفارہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ یہ ثابت کرگئے کہ فہمیدہ شخص تھے اور انہیں احساس تھاکہ اپنی جماعت کے بنیادی منشور سے قدرے انحراف نے انہیں تنہا کردیا۔ اپنی فہمیدگی‘ دل نوازی‘ جرات اور سامراج دشمنی کی بناپر وہ اب بھی دلوں میں دھڑکتے ہیں۔ وہ دوست جو نوازشریف کو بھٹو ثانی کے طور پر پیش کرنے میں مصروف ہیں پتہ نہیں کیوں بھول جاتے ہیں کہ ناشتے میں جلے ہوئے توس ملنے اور مچھروں کے کاٹنے پر آنسو بہانے والا معافی نامے کے عوض جلاوطنی خرید کر نکل گیا تھا۔

انقلاب کیسے آئے گا؟ کیا نوازشریف واقعی ایک انقلابی رہنما ثابت ہوں گے؟ پہلا سوال یہ ہے کہ چارسال وزیراعظم رہے (اس بار) ان چار برسوں کے دوران پارلیمان کی ایک ایسی قانون سازی جس کا فائدہ سماج کے کچلے ہوئے طبقات کو پہنچا ہو؟ بجلی کے جن منصوبوں کا وہ کریڈٹ لے رہے ہیں بجا ہے مگر متروک ہوتے کوئلے سے بجلی بنانے کے پلانٹ لگانے کے پس پردہ کیاہے؟ چاربرسوں میں 25ارب ڈالر کے قریب قرضے لئے گئے ان میں سی پیک کے قرضے شامل نہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی معیشت والا ملک ہے۔ زرعی پالیسی بارے کس نے سوچنا تھا؟ سرمایہ دار اور وہ بھی صنعتکار زرعی پالیسی کو انقلابی خطوط پر استوار کرنے کی زحمت کیوں کرے گا؟ پھر ایک سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں آج تک جتنے انقلاب آئے ان میں سے کس انقلاب کی قیادت سرمایہ داروں اور تاجروں کے ہاتھ رہی؟ یہ دونوں طبقات تو ضدِانقلاب رہے اپنے قول و عمل سے۔ جن آئینی ترامیم کی وہ بات کررہے ہیں چار سال ان کے حوالے سے کیا کیا انہوں نے؟ الیکٹیبل اور برادری ازم کے بتوں کے ہمراہ وہ کیا تبدیلی لاسکتے ہیں۔ نودولتیہ مڈل کلاس کے پاﺅں تو ہمیشہ مفادات کے کیچڑ میں دھنسے ہوتے ہیں۔ پچھلے کالموں کا ایک سوال مکرر دہراتا ہوں وہ کہتے ہیں کہ تمام اداروں میں اندرونی احتساب کا نظام ہے۔ سیاستدانوں پر سب چڑھ دوڑتے ہیں۔ بالکل بجا ہے میرے حضور! لیکن اجتماعی احتساب کے ادارے کا قیام اور ضروری قانون سازی کس کا کام تھا۔ پارلیمان میں پچھلے چار برسوں کے دوران کتنی بار قدم رنجہ فرمایا آپ نے۔ بہت ساری ظاہری اور حقیقی خرابیوں کے باوجود آپ سے اچھی تو پیپلزپارٹی رہی جس نے اپنے دوراقتدار میں تاریخ ساز قانون سازی کی۔ پارلیمان کی بالادستی بحال کی۔ 58/2بی ختم کی۔ چارسال میں اجتماعی قانون سازی کے حوالے سے اس مقام سے کتنا آگے بڑھے جہاں پیپلزپارٹی چھوڑ کر گئی تھی؟ کرپشن کے متعدد کیسوں میں شریک ملزم قمرزمان چودھری کو نیب کا سربراہ بنانے کا مقصد کیا تھا؟

یہ بھی پڑھئے:  کیا واقعی پرائیویٹ ادارے بہترین تعلیم دے رہے ہیں؟ | بلال بھٹی

جناب خورشید ندیم اور دوسرے مہربانوں کو راولپنڈی سے لاہور تک کا سفر انقلاب کا سفر دِکھتا ہے لیکن عمران خان کہتے ہیں ”ہم نے لوگوں کو اتنا شعور تو دیاکہ وہ چور کو اس کے گھر تک پہنچاکر آئیں“۔ اس جملہ معترضہ کو رہنے دیجئے۔ ہم انقلاب پر بات کرتے ہیں۔ لائے گا کون انقلاب۔ وہ قیادت کرپشن و آمریت‘ تعصب‘ ذات و برادری سے جس کا خمیر گندھا ہے؟ میاں صاحب کی اولین ترجیح آج بھی ان کی کشمیری برادری ہے اور ثانیاً امرتسری مہاجر۔ اس سے آگے وہ دیکھتے ہیں نہ سوچتے ہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں وہ دھکے دھوڑے کھاکر سمجھدار ہوگئے اب تبدیلی چاہتے ہیں۔ ووٹ کا تقدس اور انصاف کی بالادستی۔ بسم اللہ کریں سرکاری طاقت کی آڑ میں ہتھیائی گئی جاتی امراء والی اراضی کے پرانے مالکان کو بلائیں مارکیٹ کے مطابق قیمت ان کے سامنے رکھیں اپنے عمل کی معافی طلب کریں۔ 2013ءکے انتخابات میں کیانی رجیم سے سمجھوتے اور لشکر جھنگوی و طالبان کے تعاون سے فیض یاب ہونے پر عوام سے معافی طلب کریں۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے مقتولین کو انصاف فراہم کرانے میں پہل کرتے ہوئے خود کو قانون کے سپرد کریں۔ پاکستان کو سعودی اتحاد میں دھکیلنے اور فتویٰ بازوں کی سرپرستی کیا اس پر وہ شرمندہ ہیں۔ انقلابی جدوجہد کے آغاز پر کیا وہ یہ اعلان کرسکتے ہیں کہ ان کی جدوجہد خاندانی اقتدار کے لئے نہیں خلقِ خدا کے راج کے لئے ہے اور وہ کسی سے کسی بھی قسم کی ڈیل کرکے سن 2000ءکی طرح ملک نہیں چھوڑ جائیں گے؟ مجھے معاف کیجئے گا میاں صاحب ان میں سے ایک کام بھی نہیں کریں گے کیونکہ دولت مندی کی جو داستان وہ سناتے ہیں وہ من گھڑت ہے۔ ان کے کردار و عمل کو دیکھ کر 1980ءکی دہائی میں قاسم جلالی کی ہدایات میں بننے والا ڈرامہ ”باادب باملاحظہ ہوشیار“ یاد آجاتا ہے۔ 2017ءکے وسط سے دو ماہ آگے کھڑے نوازشریف کس کو چونا لگانے کے چکر میں ہیں۔ اقتدار کی ہوس سے محفوظ شخص کے ہمہ قسم کے 40 کے قریب رشتہ دار ایوانِ اقتدار کی غلام گردشوں میں مزے لوٹ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اور تجارت | اکرم شیخ

انقلاب‘ کاشت نہیں ہوتا‘ راتوں رات برپا بھی نہیں۔ ایک لمبی اور پُرعزم جدوجہد سے انقلاب کی منزل پر پہنچا جاتا ہے۔ وہ تو شارٹ کٹ کے عادی ہیں۔ سازشوں‘ جوڑتوڑ اور خریدوفروخت سے عبارت ہے ان کی زندگی۔ ان کے انقلاب کا مقصد خاندان شریفیہ کو دوام اور اقتدار کا طوق لوگوں کے گلوں میں ڈالے رکھنا ہے۔ جنرل مشرف سے اپنی نفرت چھپاتے نہیں مگر اسی مشرف کے 100 سے زیادہ پیارے ان کے ہمسفر ہیں پستول بدل بھائی سے ماروی میمن اور طلال چودھری سے دانیال تک۔ لاریب ان کے پاس ووٹر ہیں۔ برادری ازم کے پجاریوں کے انبوہ بھی وہ تربیت یافتہ سیاسی کارکن کہاں ہیں جو سفر انقلاب کے بنیادی تقاضوں کو شعوری طور پر سمجھتے ہوں۔ چند درجن سابق سوشلسٹ اور حاضر سروس لبرل جو مشرف کے ساتھ روشن خیال کا چورن بیچ رہے تھے اب انہیں جمہوریت کا مہاتما بدھ بناکر پیش کررہے ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ مسائل کا سورج سوا نیزے پر اتر آیا ہے۔ 4سال میں ان کی حکومت نے غربت و بیروزگاری کے خاتمے اور سماجی مساوات کے لئے رتی برابر کوشش نہیں کی۔ ایوان وزیراعظم کی لگژری گاڑیوں اور پروٹوکول کے جھرمٹ میں انہوں نے سفرِ انقلاب طے کیا۔ انہیں تو عام مسافر بس میں یہ سفر طے کرکے ثابت کرنا چاہیے تھاکہ وہ سفر کی سختیاں دوسرے انسانوں کی طرح جھیل سکتے ہیں۔ خوش فہمی بھی ایک مرض ہے جو انہیں ہی نہیں ان کے نیازمندوں کو بھی لاحق ہے۔ پاکستان کے مستقبل کی ضمانت حقیقی عوامی جمہوریت ہے۔ عوام کا حقِ حکمرانی‘ میاں صاحب کی تربیت‘ اٹھان اور سیاست اس سے متصادم ہے۔ انقلاب راج محلوں کے دلارے نہیں تپتی زمین پر برہنہ پا چلتے زمین زادے لاتے ہیں۔ وہ پنجابی میں کہتے ہیں نا ”توں کی جانیں بھولئے مجھے انارکلی دیاں شاماں“۔ سمجھوتوں اور سازشوں سے تین بار اقتدار حاصل کرنے والے کو کیا معلوم انقلاب کی راہ کتنی کٹھن ہوتی ہے۔ چمڑی ادھڑتی ہے‘ دار پر جھولتے ہیں فرزانے‘ پھانسی گھاٹ پر بھی وہ نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں۔ راولپنڈی سے داتا دربار چوک لاہور تک ان کی تقاریر میں انقلابیت کہاں تھی۔ رونا دھونا‘ سوال اور قول و قرار۔ میرے حضور! انقلاب لانا ہے تو ہمت کیجئے پارٹی کو ایوان اقتدار سے باہر آنے کا کہیے اور پُرعزم جدوجہد کا عَلم بلند کیجئے۔ معاف کیجئے گا آپ یہ نہیں کرپائیں گے کیونکہ انقلاب کی الف کا سبق بھی نہیں پڑھ پائے آپ تو۔

حالیہ بلاگ پوسٹس