Qalamkar Website Header Image

جنابِ نوازشریف کا ”انقلابی مشن“ | حیدر جاوید سید

جناب نوازشریف بہت خوش قسمت ہیں کہ سابق سوشلسٹوں اور حاضر سروس لبرلز کی بڑی تعداد انہیں جمہوریت کی علامت کے طور پر پیش کررہی ہے۔ طبل جنگ انہوں نے بجا دیا ہے۔ فقیر راحموں کہتے ہیں ”فی الوقت طبلا بجا ہے میدان جنگ دور ہے۔ میاں صاحب بھاﺅتاﺅ کے ماہر ہیں جنگ کا میدان سجائیں گے اور خود پتلی گلی سے نکل لیں گے“۔ ضروری نہیں کہ فقیرراحموں سے اتفاق کیا جائے۔ بندہ سدھرتے دیر نہیں لگتی۔ نیکی کا کام کسی عمر میں بھی ممکن ہے۔ انقلاب لاہور کے درودیوار پر دستک دے رہا ہے پہلے انقلابی مورچے (داتا دربار چوک کے جلسہ میں) پر لاہوری کتنے تھے۔ شیخوپورہ‘ گوجرانوالہ‘ قصور‘ فیصل آباد اور ننکانہ کے اضلاع سے آئے ہوئے مہمان انقلابی کتنے؟ اس حساب کتاب کی ضرورت نہیں۔ انقلاب کی شروعات میاں صاحب نے اپنے گھر سے کردی ہے۔ این اے 120 لاہور کی جو نشست ان کی نااہلی سے خالی ہوئی اس پر ان کی اہلیہ محترمہ بیگم کلثوم نوازشریف مسلم لیگ (ن) کی امیدوار ہوں گی۔ اول خویش بعد درویش غالباً اسی کو کہتے ہیں۔ میاں صاحب کا قافلہ پروگرام کے مطابق ایک رات گوجرخان میں قیام کیوں نہ کرسکا۔ اس کے پیچھے کی کہانی کو اب رہنے دیجئے۔ یہ کہنا کہ کسی ادارے نے دہشت گردوں کے دو گروپوں کی ٹیلیفونک بات چیت پکڑ لی تھی۔ دہشت گرد ریلی کے مقام بارے گفتگو کررہے تھے۔ غیرتصدیق شدہ ہے البتہ یہ ضرور ہواکہ کچہری چوک سے مندرہ کراس کرنے کے لئے 15منٹ کا وقت دیا گیا۔ سارا پروگرام اسی سے تلپٹ ہوا۔ جس جنگ اور انقلاب کی بات انہوں نے لاہور پہنچ کر کی یہ راولپنڈی کے کچہری چوک میں بھی ہوسکتی تھی۔ گھر میں تو سب شیر ہوتے ہیں۔ انقلاب غالباً میاں کی نشست پر بیگم کے امیدوار ہونے کو کہتے ہیں۔ شروعات ہوچکیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ لہوری انقلاب کس بھاﺅ فروخت ہوگا؟

لاریب ایک جمہوری نظام اور اسی نظام کی اقدار سے روشن سماج ہمارے آج اور بچوں کے کل کی ضرورت ہے۔ ستر برس ہوتے ہیں اس ملک کو قائم ہوئے اور 70برسوں میں عوام کا حق حکمرانی حقیقی طور پر بحال نہیں ہوپایا۔ برصغیر کی مٹی انقلاب کی کاشت کے لئے زرخیز نہیں ہے۔ یہ حملہ آور لشکروں کے لئے پُرکشش رہی اور ہے۔ لشکریوں کی محبت آج بھی کچھ لوگوں کے دلوں میں بستی ہے۔ بٹوارے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلمان اقلیت کے سیاسی و سماجی اور معاشی حقوق کا تحفظ متحدہ ہندوستان میں ممکن نہیں تھا۔ اس پر دو بلکہ کئی آراءہیں ابھی ان آراءپر بحث مقصود نہیں۔ عرض یہ کرنا ہے کہ بٹوارے کے وقت کاشت ہوئے خوابوں کی تعبیر نہیں مل سکی۔ سازشیں محمدعلی جناحؒ صاحب کی زندگی میں ہی شروع ہوگئی تھیں۔ اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علم اصغر سودائی کی نظم کے ایک مصرعہ ”پاکستان کا مطلب کیا“ کو جدوجہد کا نعرہ بنانے والوں کے پیش نظر کیا تھا؟ لمبی رام کہانی ہے۔ 70برسوں کے حالات اور تجربوں کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ خیر چھوڑئیے ہم نئے قائدانقلاب و جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں۔ داتا دربار کے قریب ان کے جلسہ میں رونق تھی۔ خطاب میں ولولہ بھی تھا۔ کاش کوئی انہیں بتلائے کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا مصنوعی پن عیاں ہوچکا۔ غربت 2013ءکے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ امن قائم کرنے کا دعویٰ غلط ہوا۔ جس وقت وہ خطاب فرما رہے تھے کوئٹہ میں دہشت گردی کی واردات ہوگئی۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ لاہور میں بھنگڑا ڈال رہے تھے۔ میاں صاحب نے لاہوریوں کو اپنی خدمات یاد دلائیں۔ بلاشبہ انہوں نے لاہور کے لئے بہت کچھ کیا مگر کیا میٹروبس‘ اورنج ٹرین منصوبہ یا فیڈربس سروس سے بھوکے بچوں کو کھانا فراہم کیا جاسکتا ہے۔ بجا ہے کہ انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے کیا میاں صاحب نے کچھ سیکھا؟ سادہ جواب یہ ہے کہ نہیں۔ ان کے چاہنے والے جو بھی دعویٰ کریں تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ آج بھی 1980ءکی دہائی والے نوازشریف ہیں جسے دوطبقہ بہت عزیز ہیں اوّلاً کشمیری برادری ثانیاً امرتسری مہاجرین۔ ان دونوں کی بہاریں ان کے اردگرد دیکھی جاسکتی ہیں۔ اب بھی جب وہ ایک انقلابی مشن کی نوید دے رہے ہیں کیا انقلاب کی ضروریات سے کاملاً آگاہ ہیں؟

یہ بھی پڑھئے:  نوجوان محققین کے مسائل اور ان کا حل

وہ کس سے لڑنا چاہتے ہیں۔ جو بات کہنے سے وہ ڈرتے ہیں طالب علم عرض کئے دیتا ہے۔ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیچھے فوج کے کردار بارے اشاروں کنائیوں میں بات کرتے ہیں۔ للکار کس کو رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں نام مگر میاں صاحب بھی نہیں لیتے۔ نون لیگ کے میڈیاسیل میں کام کرنے والے احتشام دانش کا دعویٰ ہے کہ یہ طالب علم جرنیل شاہی کا ٹوڈی بن چکا۔ ان کا خیال ہے کہ اس وقت نوازشریف واحد شخصیت ہیں جو اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کارکنوں کے جذبات کا احترام لازم ہے۔ عقیدتوں کے طوق گلے میں ڈالے خاندانوں کی غلامی میں جُتے لوگوں کو کیا معلوم جمہوریت کسے کہتے ہیں۔ وضاحت دینے کی ضرورت نہیں نیتوں کا حال اﷲ جانتا ہے البتہ اگر نوازشریف واقعتاً انقلاب برپا کرنے کے آرزومند ہیں تو بھائی سمیت خاندان اور سمدھیانوں (ان میں بھائیوں کے سمدھیانے اور سسرال بھی شامل ہیں) کے 37افراد کو حکومتی منصب چھوڑنے کے لئے کہیں ان کی جگہ کارکنوں کو لائیں۔ این اے 120 پر کسی عام کارکن کو میدان میں اتاریں۔ عجیب بات ہے مرکز سمیت دو صوبوں گلگت و بلتستان اور آزاد کشمیر میں ان کی جماعت اقتدار میں ہے اور وہ انقلاب بیچنے چلے ہیں۔ عوام کے حق حاکمیت سے محبت کا عملی مظاہرہ کئے بغیر کیسے ان کی بات پر اعتبار کرلیا جائے۔ مان لیا ان کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ لیکن کیا ان کے خاندانی اثاثے اکتوبر 1979ءمیں مارشل لاءکے ایک حکم کے تحت ظاہر کئے گئے اثاثوں سے اس طور مطابقت رکھتے ہیں کہ شفاف کاروباری عمل میں اس قدر اضافہ ہوا ہو؟ عالی جناب پر سارے الزامات دشمنی میں لگائے گئے۔ وہ ”تلسی داس“ کی طرح پوتر ہیں۔ فقط اتنا بتادیں کہ جاتی امراءوالی اراضی مارکیٹ ریٹ پر لی تھی؟ معاف کیجئے گا جو شخص بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے اسامہ بن لادن سے ایک ارب روپیہ لے سکتا ہے اس کے معاملات اور دعوﺅں کو پرکھنا لازم ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  کرونا۔۔۔ اور قلم کا رونا!!

یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں 22 کروڑ عوام اس کے حقیقی مالک ہیں۔ ان حقیقی مالکوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے 9برسوں میں پنجاب اور 4برسوں میں وفاق کی حکومت نے کیا کیا؟ بہت ادب کے ساتھ عرض کروں یہ لڑائی جسے وہ انقلاب کی جدوجہد کا آغاز قرار دے رہے ہیں نظام پر خاندانوں کی اجارہ داری کی خواہش سے عبارت ہے۔ ان کے قافلے کی ایک گاڑی نے معصوم بچے کو کچل کر زندگی کی قید سے آزاد کردیا۔ پورا ہسپتال قافلے کے ساتھ چل رہا تھا ایک ایمبولینس رُک کر معصوم بچے کی جان بچا سکتی تھی۔ بات تلخ ہے مگر سچ یہ ہے کہ ہمارے بچوں کی ان لوگوں کے نزدیک کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں۔ بچے تو ان کے ہیں کیا شاندار ذہین اور کاروباری سوجھ بوجھ والے بچے ہیں اوائل عمری میں ہی ”محنت“ سے ارب پتی ہوگئے۔ مکرر عرض کروں میاں صاحب کے خاندانی برتری کو دوام دینے والے انقلاب اور ان کے طرزسیاست و حکومت کی مخالفت کو اسٹیبلشمنٹ کی تائید ہرگز نہیں۔ اچھا اگر یہی اصول ہے تو پہل کیجئے۔ معافی مانگئے ان ارشادات پر جو جولائی 1977ءسے اپریل 1979ءکے درمیان سماعتوں پر نازل ہوئے۔ سیاست میں حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ دوست دشمن بدلتے رہتے ہیں۔ نصف صدی سے اوپر کے مطالعے اور مشاہدے کے بعد طالب علم یہی سمجھ پایا ہے کہ طبقاتی نظام کے ٹھیکیداروں اور مالکوں کی لڑائی میں جمہور کو ایندھن بننے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے لوگوں کے مسائل اور محرومیاں چہرے بدلنے سے نہیں لُٹیروں کو تحفظ دیتے نظام کو بدلنے سے دور ہوں گی۔ ایک حقیقی عوامی جمہوریت جس میں بلاامتیاز انصاف‘ وسائل اور روزگار میسر ہو ہمارے آج اور بچوں کے کل کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ احتساب سب کا ہونا چاہیے مگر اس کے لئے قانون سازی نہ کرسکنے والوں کو اب رونا نہیں چاہیے۔ پاکستان کے لوگوں کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ جب تک اکثریتی طبقات کے اندر سے اہل قیادت سامنے نہیں آتی بالادست طبقات اسی طرح ہمارا استحصال کرتے رہیں گے۔ لوٹ مار کے نظام کے محافظوں کا فریب زیادہ دیر چلنے والا نہیں۔ میاں صاحب کے انقلابی مشن کی ریوڑیاں کس بھاﺅ فروخت ہوں گی کچھ دن انتظار کیجئے سب معلوم ہوجائے گا۔

بشکریہ: روزنامہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس