Qalamkar Website Header Image

تاریخ ساز ریلی اور غیرجانبداری | حیدر جاوید سید

جناب نوازشریف کی تاریخ ساز ریلی میں بدھ کی شام تک 800 یا اس سے کچھ اوپر گاڑیاں تھیں اور رعایت کے ساتھ دس ہزار بندے۔ (راولپنڈی پولیس کے ذرائع آٹھ سے نو ہزار کہہ رہے ہیں‘ سرکاری ٹی وی نے سہ پہر ساڑھے تین‘ پونے چار بجے اتنی ہی تعداد 9ہزار بتائی تھی سرکاری ذرائع سے)۔ میاںصاحب کو اپنے ہی کہے پر غور کرنا چاہیے ”یہ تو کوئی بات نہیں کہ کروڑوں لوگ ووٹ دیں اور پانچ بندے بیٹھ کر نااہل کردیں“۔ اب تو انہیں یہ احساس بھی ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا معاملہ نااہلی تک نہیں جانا چاہیے تھا۔ یہ بھی ارشاد ہوا 1971ءکے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو سنبھالا۔ ایک وزیراعظم کو اس ملک میں پھانسی چڑھایا گیا‘ ایک کو ملک بدر کیا گیا۔ جان کی امان ہوتو عرض کروں وہ ملک بدر نہیں کئے گئے بلکہ انہوں نے معافی نامے کے عوض دس سالہ جلاوطنی خریدی تھی۔ بھٹو صاحب کو ان کے سیاسی استاد‘ مربی و محسن جنرل ضیاءالحق نے پھانسی چڑھایا تھا۔ بندہ کو اتنا کھٹور بھی نہیں ہونا چاہیے۔ حیرانی مصدق ملک اور مریم اورنگزیب پر ہے دونوں صحافیوں سے اس بات پر لڑتے رہے کہ وہ ریلی کے شرکاءکی تعداد غلط بتارہے ہیں جبکہ ریلی میں 25سو سے زیادہ گاڑیاں اور 20ہزار افراد شامل ہیں۔ ملک جی اور مریم اورنگزیب بی بی سچے‘ سرکاری ذرائع اور صحافی ڈنڈی ماررہے ہیں۔ بذلہ سنج علی سجاد شاہ نے سوشل میڈیا پر دو تصویریں لگائیں ایک تصویر میں لاکھوں آدمی تھے اور ایک خالی سڑک کی‘ کیپشن دیا ”نوازشریف کے حامی چینل پر ریلی میں شریک دیوانوں کی تصویر‘ خالی سڑک بارے لکھا نوازشریف کے مخالف چینل کے مطابق ریلی ناکام“۔ میری دانست میں ہمیں ٹھنڈے دل سے دو باتیں سمجھنا ہوں گی اوّلاً یہ کہ گرمی اور جان لیوا حبس کے اس موسم میں ہلکان ہونے کے لئے فکری بنیاد کی ضرورت ہے۔ ثانیاً یہ کہ پیارے نونیوں کی مزاحمتی تربیت ہی نہیں۔ پھر بھی ریلی تاریخ بنارہی ہے اس قدر کامیاب ریلی ہے کہ جناب نوازشریف نے پہلی رات راولپنڈی میں ہی قیام کا فیصلہ کیا۔

مکرر عرض کروں یہ عاجز جناب نوازشریف کو مہابلی آف جمہوریت ہرگز نہیں سمجھتا۔ وہ کاروباری آدمی ہیں اور پچھلے چالیس سے تین برس کم برسوں سے کاروبار ہی کررہے ہیں۔ ان کے گزرے چار برسوں میں غربت کی شرح میں اضافے کے ساتھ بیروزگاری‘ لاقانونیت اور سٹریٹ کرائم کے اعدادوشمار نکال کر دیکھ لیجئے۔ اندھی شخصیت پرستی میں گردن تک دھنسے سماج میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ لوگوں کی آنکھوں میں اپنے اپنے بُت کے سوا کسی اور کے لئے چمک پیدا ہوگی تو خاطر جمع رکھے۔ یہاں اپنا اپنا لیڈر مامور من اللہ اور دوسرے کا لیڈر فرعون صفت ہوتا کہلاتا ہے۔ آپ نوازشریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے بیان سے لطف لیجئے فرماتے ہیں ”میں بھٹو کو شہید سمجھتا ہوں۔ قائداعظمؒ بھی 62‘ 63 پر پورا نہ اترتے“۔ اﷲ کی شان ہے کیسے کیسے لوگ قومی اسمبلی کے ایوان میں آگئے ہیں۔ پاکستانی سیاست کی پوری تاریخ اٹھاکر چھان لیجئے۔ اپوزیشن کے زمانے میں جو بولا لکھا جائے زمانہ اقتدار میں وہ سوچنا بھی حرام ہوتا ہے۔ میری محبوب جماعتوں میں سے ایک اے این پی کے ترقی پسند قوم پرست نوازشریف کی ”جمہوریت دوستی“ پر واری صدقے جارہے ہیں۔ باچاخان کے اصولوں کی بے توقیری اور مالکوں کے تراشے ہوئے بُت میں جمہوریت کی روح پھونکنے کا جذبہ قابل دید ہے۔ پرانے قصے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ 2008ءسے 2013ءکے درمیان 5برسوں میں مہابلی آف جمہوریت نے کیا کردار ادا کیا اس سے صرف نظر کیجئے۔ یہ عاجز تو نوازشریف کی خواہر نسبتی کے فرزند عابدشیرعلی کی طرف سے ان کو دیئے گئے ”تاریخی“ لقب کے مزے لے رہا ہے۔ لوگ بڑے ظالم ہیں۔ عابد شیرعلی نے تاریخ کے جس کردار سے پیارے پیارے (اپنے) خالوجان کو ملایا اس کردار کا شجرہ نکال کر لے آئے۔ چلیں ہمیں کیا یہ خالو بھانجے کا خاندانی معاملہ ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  سید الساجدین علیؑ بن حسینؑ امام زین العابدین علیہ السلام

اچھا یہ اسحاق ڈار نے وزیراعظم کو کہنی مارکر پیچھے کیوں ہٹایا؟ خدا لگتی کہیے۔ ایک نااہل شخص کے جلوس میں چند وفاقی وزراءکی ڈھول ڈھمکوں کے ساتھ شرکت کو کیا کہیں؟ میرے ایک دوست کہتے ہیں شاہ تیرے اندر سے پیپلزپارٹی نہیں نکلتی۔ عرض کیا پی پی پی نہ کہیں بھٹو صاحب ضرور دل میں بستے ہیں۔ کسی شخص سے محبت بری بلا ہرگز نہیں۔ اس دوست کا شکوہ ہے کہ نوازشریف کو حالات کے اس موڑ پر لانے میں عمران خان کا جو تاریخی کردار ہے اس پر کیوں نہیں لکھتے؟ طالب علم نے اس سے کبھی انکار نہیں کیا۔ بلاشبہ عمران خان کی تحریک اور جدوجہد نے نوازشریف کو ایوان اقتدار سے نکال کر سڑک پر لاکھڑا کیا ہے۔ جس کا جتنا کریڈٹ ہے اس سے انکار زیادتی ہے۔ دو باتوں سے انکار ممکن نہیں کہ عمران خان نے نوازشریف رجیم کو پچھلے چار برسوں سے پڑھنے ڈال رکھا ہے۔ ثانیاً یہ کہ اس کے خلاف مختلف اطراف سے ہونے والی چاندماری کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری البتہ عمران خان انسان بھی ہے اور مروجہ سیاسی عمل میں شریک سیاستدان بھی۔ ہم سبھی چونکہ اپنے اپنے لیڈر کو فرشتہ صفت سمجھتے ہیں اس لئے خاکیوں پر توجہ نہیں دیتے (اب یہاں خاکیوں کا مطلب فوج نہ لے لیجئے گا)۔ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگاکہ نوازشریف کی سیاست بندگلی میں داخل نہیں ہوئی۔ وہ لڑنے کے موڈ میں ہیں اور وہ فیصلہ کرچکے۔ ان کی طرف سے ”امان“ کے حصول کے لئے دوڑتے پیغام رسانوں کو ”کورا جواب ملا“۔ کچھ اخلاقی جرات ہوتو جناب نوازشریف اپنے کارکنوں کو ہی بتادیں کہ ان کے چھوٹے بھائی شہبازشریف سوموار کی شام عسکری قیادت کے پاس کیا پیغام لے کر گئے تھے؟ دستیاب معلومات پر یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ جس طرح کی بونگی سرتاج عزیز اور اسحاق ڈار کی جوڑی نے یا پھر نثار و شہباز کی جوڑی نے پچھلے دنوں ماری، بالکل ویسا ہی ”لطیفہ“ ہے جس سے شہبازشریف عسکری قیادت کی دلپشوری کرنا چاہتے تھے۔

یہ بھی پڑھئے:  احمقوں کی جنت - کرن ناز

اب ہاتھ ملتے رہیں اور ملال کرتے ایک ایسے ملک میں جہاں جمہوریت کے نام پر ڈھونگ رچایا جاتا ہو اور بالادست طبقات کے مفادات کا تحفظ اس ملک میں طلوع صبح جمہور کے لئے لمبی اور پُرعزم جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ مارشل لاءکے سائے میں گھر سے وزیر بن کر چلنے والوں کو ابھی اندازہ ہی نہیں کہ حقیقی جمہوری سیاست کے تقاضے کیا ہیں۔ یہاں حالت یہ ہے کہ نوازشریف نے ریلی نکالنی تھی وزارت خزانہ نے 10439 ریفنڈ کیسوں میں برآمد کنندگان کو 26ارب 43کروڑ روپے خودکار نظام کے تحت ریفنڈ کردیئے۔ یہ کام چند دن قبل کیوں نہ ہوا‘ چند دن بعد کیا غلط ہوتا اگر کیا جاتا۔ برادری پال پروگرام ہے یہ ٹیکس کلچر نے کتنا فروغ پایا۔ حکومت رواںسال اپریل تک 50ارب روپے پہلے ہی ریفنڈ کرچکی ہے۔ اچھا اور قانونی کام بھی اگر غلط وقت پر ہوتو سوال اٹھتے ہیں اب اگر لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ کاروباری برادری کو یہ تاثر دیا گیاکہ ”تمہارا کوئی نہیں ہمارے سوا“ تو یہ غلط ہرگز نہیں۔ اب آئیے ایک اور مسئلہ پر بات کرلیتے ہیں۔ جناب نوازشریف کی ”تاریخی“ ریلی میں ان کے متوالوں نے چند دوسرے صحافیوں کے ساتھ صفدر کلاسرا کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ صفدر پر ہونے والا تشدد اصل میں رﺅف کلاسرا کو پیغام ہے کچھ دیر قبل میرے ایک عزیز نے ڈیرہ اسماعیل خان سے فون پر کہاکہ صحافیوں کو غیرجانبدار ہونا چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ صفدر کلاسرا کو جانبداری کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ سرتسلیم خم کیا غیرجانبداری اس چیز کی متقاضی ہے کہ سیاستدانوں‘ جرنیلوں‘ بیوروکریٹس‘ ججز اور خود صحافیوں کی کرپشن اور دوسرے ناپسندیدہ معاملات پر خاموش رہا جائے کیونکہ اگر لکھا بولا جائے تو جانبداری کا الزام لگے گا؟ معاف کیجئے گا اگر عوام کے مجرموں کو بے نقاب کرنا (وہ کوئی بھی ہوں) جانبداری ہے تو اس پر عمل ہونا چاہیے۔ عوام، ملکی خزانہ اور ملک اہم ہے افراد یا جماعتیں اور ادارے ہرگز نہیں۔ پاکستان ہے تو سب ہیں۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ جس وقت آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تاریخی ریلی لاہور یا لاہور کے قریب کی سڑکوں پر ہوگی۔ اس ریلی سے نوازشریف کیا نکال پاتے ہیں پردہ اُٹھنے کی منتظر ہیں نگاہیں۔

بشکریہ: روزنامہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس