دلچسپ صورتحال ہے۔ جناب جاوید ہاشمی پھر بولے اور عمران خان پر برسے۔ ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیاکہ ”عمران خان نے ان سے کہا تھاکہ سید تصدق جیلانی کے بعد ہمارا چیف جسٹس آئے گا اور نوازشریف نااہل ہوجائیں گے۔ عمران خان نے سیاسی مستقبل تباہ کرلیا ہے“۔ ادھر عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہاکہ 2013ءکے انتخابات کےلئے پارٹی ٹکٹیں بیچنے والے کے جھوٹ پر مجھے افسوس ہوا۔ میں نے اور میری جماعت نے ہاشمی کو بہت عزت دی تھی۔ آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ جن دنوں ہاشمی ”دردِجمہوریت“ میں تحریک انصاف سے الگ ہوئے تھے (یہ 2014ءکے دھرنے کے دنوں کی بات ہے) اس عاجز نے ان کالموں میں تفصیل کے ساتھ جناب ہاشمی کی پی ٹی آئی سے علیحدگی اور بنیادی اختلافات پر تفصیل کے ساتھ متعدد کالموں میں بات کی تھی۔ بعدازاں ان کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران لکھے گئے کالموں میں بھی تفصیل کے ساتھ بہت سارے معاملات پر معروضات پیش کیں۔ انہی دنوں میرے لائق احترام اور صاحبِ علم دوست شاکر حسین شاکر نے ایک دن کہا ”شاہ جی اس کی جان چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ بس کرو کوئی ذاتی دشمنی تو نہیں ہے“؟ لاریب میری ان سے کوئی ذاتی دشمنی تھی نہ ہے۔ وہ سیاست کے میدان میں عشروں سے سرگرم عمل ہیں۔ نظریات اور وفاداریوں میں تبدیلی انہیں مرغوب رہی۔ 1970ءکی دہائی میں اسلام پسند (ان دنوں بھٹو صاحب کے حامی سرخے اور مخالف اسلام پسند ہی کہلاتے تھے) صحافیوں نے ان کی شخصیت سازی کے لئے پروپیگنڈے کا طوفان برپا کردیا۔ اس پروپیگنڈے کو دیکھ پڑھ کر ان دنوں ہم کہا کرتے تھے نسیم حجازی کے ناولوں کا نیا کردار تراشا جارہا ہے۔ ان پر تنقید جب بھی کی ان کے سیاسی طرزعمل‘ کہہ مکرنیوں اور کج ادائیوں کی وجہ سے کی۔ ان کے ایک ساتھی نے دو دن قبل دھمکی دیتے ہوئے جو زبان استعمال کی کاش جواب اسی زبان میں دے سکتا۔ دو وجوہات ہیں اوّلاً یہ کہ سیاسی و نظریاتی اختلافات پر سماجی روابط اور وسیبی تعلقات و رشتے قربان نہیں کئے جاسکتے‘ ثانیاً یہ کہ بھیا ابو کی طرح انتہائی قابل احترام پروفیسر منیر ابن رزمی کو وہ (ہاشمی) محبوب رہتے ہیں۔ سو ان کی خدمت میں فقط اتنا ہی کہ ”دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ“۔
جناب ہاشمی صدمے کی حالت میں ہیں۔ اس کا آغاز مشرف دور میں ہوا۔ وہ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں پس کر رہ گئے ورنہ ہم ایسے طالب علموں نے اس وقت بھی عرض کیا تھاکہ وہ طاقت و اختیارات کی اس لڑائی میں استعمال نہ ہوں۔ کسی بھی خیرخواہ کی بات پر توجہ دینے کے بجائے انہوں نے ایک ادارے کا سودا بیچنے میں دلچسپی لی۔ فرشتوں نے انہیں بتایاکہ محترمہ بینظیر بھٹو اور نوازشریف جلاوطن ہیں اس وقت ملک میں ان کے مقابلے کا قدآور لیڈر دستیاب نہیں وہ متبادل قیادت کا خلا پورا کریں۔ جناب ہاشمی قیادت کا خلا پورا کرنے کا جو خواب آنکھوں میں بسائے اور سینے سے لگائے میدان میں اترے مگر چند قدموں پر ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیااور جناب ہاشمی جیل پہنچ گئے۔ انتخابات 2008ءکے بعد ان کے نوازشریف سے اختلافات اس وقت پیدا ہوئے جب انہوں نے نون لیگ کے پارٹی فیصلے کے برعکس امریکی سفیر کے ایماءپر جاوید ہاشمی کی جگہ چودھری نثارعلی خان کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کردیا (اس واردات کی تفصیل ان کالموں میں قبل ازیں عرض کرچکا) پھر دوریاں بڑھنے لگیں۔ شریف فیملی کے بقول دوریاں حد سے زیادہ فرمائشوں اور خبطِ عظمت سے بڑھیں۔ جناب ہاشمی خود کو نون لیگ کے لئے ناگزیر سمجھ بیٹھے تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی تربیت‘ تحریک استقلال کی منہ زوری‘ جنرل ضیاءالحق کی میسنی فہم سے روشنی پانے والے جہاندیدہ شخص کو یہی سمجھ میں نہ آیاکہ پاکستانی سیاست میں جس شخصیت پرستی کا رجحان سر چڑھ کر بولتا ہے اس کے لئے ایک ذاتی پارٹی کا مالک ہونے کے ساتھ اصل مالکان سے نیازمندانہ تعلقات بہت ضروری ہیں۔ اوائل سیاست میں وہ جس کیمپ سے تعلق رکھتے تھے (سابق گورنر غلام مصطفی کھر اس تعلق کو مخبری کی ملازمت قرار دیتے ہیں) مشرف دور میں وہ فرشتوں کے دوسرے دھڑے کے ہاتھوں استعمال ہوکر پرانے تعلق گنوا بیٹھے۔
تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو ان کا استقبال بڑا دلنشیں تھا۔ عمران اور تحریک انصاف نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ پارٹی کا صدر بنایا۔ کراچی کے جس جلسہ میں انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اس میں اپنے استقبال کو دیکھتے ہوئے خبطِ عظمت کا ”سواد“ گہرا ہوگیا۔ ان کی فرمائش پر عمران خان نے عثمان ڈار کو حکم دیا۔ عثمان ڈار کے ڈرائیور نے بلیک رنگ کی لینڈکروزر سیالکوٹ سے ملتان پہنچا دی۔ ساتھ ہی لاہور کی ڈیفنس سوسائٹی میں قیام کے لئے انہیں عثمان ڈار نے اپنا ملکیتی گھر بھی پیش کردیا۔ ہاشمی تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو تحریک میں پہلے سے موجود انجمن سابقین جماعت اسلامی سمجھے جانے والے تین کے ٹولے (عارف علوی‘ محمودالرشید اور اعجاز چودھری) نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ 2013ءکے انتخابات کے لئے ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر لاہور ڈویژن‘ فیصل آباد ڈویژن اور ملتان ڈویژن سے یہ شکایات سامنے آئیں کہ جناب ہاشمی نے پارٹی ٹکٹ دلوانے اور کسی کا پارٹی ٹکٹ منسوخ کروانے کا باقاعدہ حق خدمت وصول کیا۔ اس طالب علم کو بہت ساری متاثرہ اور کامیاب اسامیوں کے اسمائے گرامی معلوم ہیں مگر فی الوقت دو باتیں عرض کئے دیتا ہوں اوّلاً یہ کہ پارٹی اجلاس میں انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت ان کی پہلی تلخی مخدوم شاہ محمود قریشی سے ہوئی۔ جناب ہاشمی بضد تھے کہ فیصل آباد میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے امیدواروں کی نامزدگی کا اختیار سابق سنیٹر طارق چودھری کو دے دیا جائے۔ (طارق چودھری‘ ہاشمی کی شخصیت کا بُت تراشنے والے خلیفہ ہارون الرشید کے خالہ زاد بھائی ہیں) شاہ محمود قریشی نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ انہوں نے شیخوپورہ سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ سعید ورک کے بجائے کرنل (ر) شاہ نواز چیمہ کے داماد ابوبکر ورک کو دینے کی حمایت کی۔ بظاہر یہ حمایت نوجوان کارکن کی حوصلہ افزائی تھی مگر اصل قصہ یہ تھاکہ نون لیگ کے شیخوپورہ سے ایم این اے کے امیدوار (یہ اب ایم این ہیں) جاوید لطیف کے چھوٹے بھائی منور لطیف نے مبلغ 50لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ملتان ”پہنچ“ دیا تھا مقصد یہ تھاکہ ٹکٹ سعید ورک کو نہ دیا جائے کیونکہ سعید ورک کو ٹکٹ ملتا تو جاوید لطیف ”پڑھنے پڑھ جاتے“۔ ملتان میں جس شخصیت نے 50لاکھ روپے منور لطیف سے وصول کئے اس کا اسم گرامی جناب ہاشمی جاننا چاہیں تو عرض کرسکتا ہوں کالم میں اس لئے نہیں لکھ رہاکہ بیٹی کا باپ ہونے کی وجہ سے دل نہیں مانتا۔ یہاں بریگیڈئیر راحت امان بھٹی کا تنازع بھی مالی لین دین پر تھا۔ اعجاز چودھری اور محمودالرشید کے خلاف تو باقاعدہ عمران خان کو درخواستیں دی گئیں۔ ہاشمی 2014ءکے دھرنے کے دوران جمہوریت بچاؤ پروگرام کے تحت تحریک انصاف سے الگ ہوئے۔ اس علیحدگی سے قبل خواجہ ناظم الدین سے اسلام آباد کے گھر پر ان کی خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف سے ملاقات ہوئی تھی۔ تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد سے اب تک وہ ہرچند دن بعد رٹے رٹائے الزامات کی چاندماری کرتے رہتے ہیں۔ اگلے روز بھی انہوں نے چاندماری کی اس کا تذکرہ ابتدائی سطور میں کرچکا۔ جناب ہاشمی سے جمہوریت بچانے کے جہاد کے لئے خواجگان کی جوڑی نے جو وعدے کئے تھے ان میں سے ایک وعدہ پنجاب کی گورنری بھی تھا۔ خواجگان کے اس وعدے کو میاں نوازشریف نے پذیرائی نہ بخشی اور مہر رفیق احمد رجوانہ کو گورنر بنادیا گیا۔ چودھری سرور گورنر کے عہدے سے مستعفی ہوئے تو ہاشمی نے خواجگان کو وعدہ یاد دلایا تھا۔ ستم یہ ہواکہ جب یہ تجویز شریف برادران کے سامنے رکھی گئی تو میاں شہبازشریف نے کہا ”جاوید ہاشمی کو وزیراعظم پاکستان نہ بنوادیں“۔ ہاشمی عمر کے جس موڑ پر ہیں اس موڑ پر لوگ توبہ استغفار کو معمول بنائے رکھتے ہیں۔ خبطِ عظمت انہیں چین نہیں لینے دیتی۔ محرومیوں نے انہیں نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ کاش وہ کبھی ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کرپائیں کہ دلنشیں بلندی سے گہری کھائی میں کیوں گرے؟ مکرر عرض کرتا ہوں ان سے کوئی ذاتی عداوت نہیں وہ میرے بڑے بھائیوں کے دوست ہیں۔ بہت احترام کے ساتھ بھی میں یہ سمجھ پایا ہوں کہ وہ اپنی ذات کے اسیر ہیں۔ طمع کے گھاٹ پر اتر کر سب گنوا چکے مگر سمجھتے نہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn