عزت مآب وزیرآبادی استرے سے لے کر میرے ”سوشلسٹ“ مرشد تک سبھی فرما رہے ہیں کہ ”مدعی لاکھ برا چاہے کیا ہوتا ہے“۔ پیٹ بھروں کی مستیاں ہیں‘ غربت کے دن ماہ و سال تاریخ کا رزق ہوئے۔ ایک عام پیش نماز کے کروڑپتی بیٹے کو جگتیں بہت سوجھتی ہیں۔ جگتوں کی کمائی اور ترقی‘ فقیرراحموں کہتے ہیں نصاب تعلیم ہی ان سے بنوانا چاہیے تاکہ نچلے طبقوں کے بچے پڑھیں اور برسرروزگار رہیں۔ ان باتوں کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ نون لیگیوں نے پچھلے دوروز سے عمران خان کے خلاف اَت اٹھا رکھی ہے۔ اپنے دوست سید ثقلین امام کی بات کچھ ترمیم کے ساتھ عرض کئے دیتا ہوں ”عمران خان مجرم ہے تو بے شک سزا دیجئے مگر اسے سزا اس بات کی نہیں ملنا چاہیے کہ اس نے ایک شریف ٹبر کی ریکارڈساز چوریوں کا بھانڈا پھوڑا اور اب بھی جان نہیں چھوڑ رہا“۔ کچھ دیر قبل میرے دفتر میں ایک صاحب دفتر کے ساتھی کو بھاشن جمہوریت دے رہے تھے۔ فرمایا فوج جمہوریت کو چلنے نہیں دیتی۔ جمہوریت چلتی رہے تو بہتری آئے گی۔ عرض کیا 9سال سے تو چل رہی ہے۔ بولے نہ جی نوازشریف کو چار سال سے کام ہی نہیں کرنے دیا گیا۔ میرے ”سوشلسٹ“ مرشد فرماتے ہیں طبقاتی جمہوریت سے ہی جمہوریت کا راستہ ہموار ہوگا۔ مرشد کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے وہ بھی جانتے ہیں کہ وہ سارک ممالک کے صحافیوں کی این جی او ٹائپ تنظیم کے ویسے ہی مالک ہیں جیسے ہمارے محبوب وزیراعظم نون لیگ کے۔ چونکہ چلتی کا نام گاڑی ہے اس لئے چلتا رہنے دیجئے۔ صبح دفتر جانے کے لئے بس میں سوار ہوا تو ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر نوازشریف کے مستقبل پر تبصرہ فرمارہے تھے۔ ایک صاحب بولے ”لوگ نجانے کیوں اس کی دولت سے جلتے ہیں اﷲ جسے چاہے اسے نوازتا ہے۔ مشرف کے چنگل سے بھی اﷲ ہی کی ذات اسے بچاکر اس سرزمین پر لے گئی تھی جہاں جانے کےلئے مسلمان ترستے ہیں“۔ راستہ بھر سوچتا رہا اس مخلوق کے ساتھ ٹھیک ہی ہورہا ہے کبھی بندوق والے اور کبھی سفیدپوش جو بھی کرتے ہیں سب درست ہے۔ کیا ہوسکتا ہے اس مخلوق کا جو ایک شخص یا خاندان کی کرپشن کو بھی انعامِ الٰہی قرار دیتی پھرے۔ کاش ہمارے دینداروں نے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے بجائے صاف سیدھے لفظوں میں لوگوں کو بتایا ہوتا قرآن عظیم الشان نے 14صدیاں قبل اعلان کردیا تھا ”دو ہی جماعتیں ہیں حزب اللہ اور حزب شیطان۔ انسان کاملاً آزاد ہے حزب اللہ میں شامل ہو یا حزب شیطان میں“۔ لوگوں کا پیغام قرآن حرف بہ حرف پہنچا ہوتا تو کبھی اس طرح نہ سوچتے۔ تعلیم کی کمی ہے۔ تعلیم ہی علم سے روشناس کراتی ہے اور علم شعور سے ملاقات کا دروازہ کھولتا ہے۔ یہاں اب بھی سینکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ نورانی قاعدے کو علم دین اور سکول کو بے راہ روی کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ظاہر ان حالات میں نوازشریف خاندان یا دوسرے استحصالیوں کی لوٹ مار اﷲ کی نوازشیں ہی کہلائیں گی۔
تقسیم برصغیر کی بنیاد جو مسائل تھے وہ ستر برس بعد بھی جوں کے توں ہیں۔ پرسوں سے اگلے روز ایک دوست نے کہا کتنا ظلم ہے کہ ہم جانتے بوجھتے ہوئے زہر پھانک رہے ہیں۔ بہت ادب سے عرض کیا زہر سے محفوظ کون سی چیز رہی اب۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگے ”سمجھ گیا واں ہن توں نوازشریف حکومت دے لتے لئیں گا“۔ ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہے جناب نوازشریف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ان سے میرے رقبے کی سرحد نہیں ملتی (ویسے اپنا رقبہ ہے بھی نہیں) ۔ لمبی مسافت اور کچھ مطالعہ کے بعد جمہوریت اور شخصی آمریت کی مختلف اقسام کا فرق سمجھ میں آگیا ہے۔ دوست بولے مگر تم تو اب بھی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہو۔ لاریب مجھے کوئی انکار ہے نہ ملال۔ مگر کیا کبھی یہ کہا لکھاکہ دونوں درجہ ولایت پر فائز تھے۔ جی نہیں خوبیاں گنوائیں تو خامیوں کی نشاندہی بھی کی۔ وہ یہ کہہ کر رخصت ہوئے کہ نوازشریف کا اقتدار ختم ہوا تو پھر سب روتے پھریں گے۔ عرض کیا سب کو فائدہ کیا ہوا۔ (سب سے مراد عوام ہے) ملکی وسائل چند صد خاندانوں کی میراث ٹھہرے۔ ہم تو عطار کے لونڈے سے دوا لینے والی مخلوق ہیں۔ پچھلے 70برسوں کا حساب کرلیجئے۔ محکوم طبقات کا معیار زندگی کتنا بہتر ہوا؟ کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ جب 80روپے تنخواہ ملا کرتی تھی وہ دن قدرے زیادہ بہتر تھے۔ پچھلے ماہ منظور ہوئے وفاقی و صوبائی بجٹوں میں عام محنت کش کی جو ماہوار تنخواہ مقرر کی گئی اسے اکرام قرار دینے والے اس تنخواہ میں فقط ایک ہفتہ بسر کرکے دکھا دیں۔
یہاں حالت یہ ہے کہ اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں شاہی مہمان ظفر حجازی سے وی وی آئی پی برتاؤ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں پر حجازی کے کارندے ٹوٹ پڑے۔ خاتون صحافی کا دوپٹہ نوچا گیا۔ یہ سیدزادی کسی ماں کی نیک پروین نہیں کیا؟ مکرر عرض کرتا ہوں طبقاتی نظام جبر کے مسلط رہنے کے کچھ کچھ مجرم ہم (رائے دہندگان) بھی ہیں۔ انتہاؤں میں بٹے معاشرے میں ہر شخص پسند وناپسند کا شکار ہے۔ مثال کے طور پر جب خواجہ محمد آصف عمران خان کو چور کہتے ہیں تو ہنستی آتی ہے۔ ان حضرت نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی معاونت میں موجودہ دور کے آغاز پر ہی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو 500ارب روپے کی جو ادائیگیاں کروائیں اس ہوئے آڈٹ اعتراض کے بعد اس آڈیٹر جنرل کے ساتھ کیا ہوا؟ وہی جو نادرا کے سربراہ طارق ملک کے ساتھ ہوا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک شخص کو بچانے کے لئے اس نظام کو برباد کرنے کی تیاریاں ہیں جسے یہ خود جمہوری نظام کہتے ہیں۔ ہفتہ دس دن قبل بھی ان کالموں میں عرض کیا تھاکہ اگر سیاست کاروں کو احتساب کے نظام سے نفرت ہے تو کرپشن کے حق میں قانون سازی کریں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ سیاست کار احتساب نہیں چاہتے۔ فقط سیاست کار ہی کیوں کوئی بھی احتساب نہیں چاہتا۔ کل سہ پہر مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم این اے فرما رہے تھے کہ اگر جنرل مشرف کا احتساب ہونے سے فوج کا مورال ڈاؤن ہوتا ہے تو نوازشریف کے احتساب کی باتیں ان کو ووٹ دینے والوں کی توہین کے مترادف ہے۔ کوئی دریافت کرے کہ اپریل 2013ءمیں نوازشریف نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو یقین دہانی کیوں کروائی تھی کہ ”مشرف کے احتساب کی باتیں ہوائی فائرنگ سے زیادہ کچھ نہیں ہمیں اپنے ووٹروں کو بھی مطمئن رکھنا ہے“۔ چلیں ایک درون سینہ اطلاع سے آگاہی حاصل کرلیجئے۔ جمعۃ المبارک 21جولائی کی شام نون لیگ کے دو بڑوں نے ملک کے ایک بڑے سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات تین دن پر پھیلے ترلوں کے بعد ہوئی تھی۔ دو نونیوں نے پوری رام کہانی چرب زبانی سے پیش کرنے کے بعد کہاکہ ”اگر آپ چاہیں تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں وزیراعظم ہرممکن تعاون کے لئے تیار ہیں“۔ جواب ملا مقدمات کا فیصلہ جی ایچ کیو میں نہیں عدالتوں میں ہوتا ہے۔ وزیراعظم مجھ سے تعاون کرنے کے بجائے قانون اور عدالت سے تعاون کریں۔ میں ہرگز فریق نہیں۔ عدالت کا فیصلہ سب کو قبول کرنا ہوگا۔ ان دو بڑوں کو اپنی چرب زبانی پر بہت ناز ہے لیکن جمعہ کی سہ پہر جو ان کے ساتھ ہوا وہ یادگار عصر ہے۔ نونیوں کا اصل المیہ یہی ہے کہ وہ ہر شخص کو برائے فروخت اور ضرورت مند سمجھتے ہیں۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ وزیراعظم کے پاس ابھی بھی وقت ہے قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں اور بحران کا حل تلاش کریں۔ بحران ہے اور دن بدن شدید ہوتا جارہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سڑکوں پر کسی کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اقتدار مست ٹولہ پتھر لاٹھی کھانے کا عادی نہیں ہوتا۔ جدوجہد سیاسی کارکنوں کا کام ہے اور سیاسی کارکن نون لیگ کے پاس نہیں ہیں۔
بشکریہ خبریں ملتان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn