5جولائی 1977ءپاکستان کی تاریخ کے چند سیاہ ترین دنوں میں سے ایک ہے۔ 1973ءکا دستور بنانے والی پیپلزپارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ کر آرمی چیف جنرل ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ 90دن میں انتخابات کروانے کا وعدہ کیا اور گیارہ برسوں سے 42دن اوپر اقتدار پر قابض رہے۔ مارشل لاءکے نفاذ سے قبل ملک میں 9سیاسی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک چلا رہا تھا۔ اس تحریک کے نتیجہ میں بھٹوصاحب اور پی این اے کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ مولانا کوثر نیازی‘ سردار قیوم اور پروفیسر غفوراحمد مرحوم سمیت متعدد شخصیات نے اپنی کتابوں میں لکھاکہ مذاکرات کامیاب رہے۔ پھر فوج آگئی۔ بھٹو صاحب کی مذاکراتی ٹیم کے سینئر رکن اور وزیرقانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے 1993ءمیں اس طالب علم کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا تھا ”ہمیں حیرانی تو تھی کیونکہ پی این اے کے بزرگ سیاستدان مذاکرات کی کامیابی پر بہت خوش تھے مگر تحریک استقلال کے سربراہ اصغرخان اور این ڈی پی کی محترمہ بیگم نسیم ولی خان کا طرزعمل جارحانہ تھا۔ اصغرخان مذاکرات کو ناکام بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ انہوں نے مسلح افواج کے سربراہوں کو خط بھی لکھاکہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ مذاکرات کی کامیابی کے بعد مارشل لاءکے نفاذ نے رفیع رضا کے اس خدشے کی تصدیق کردی کہ جون کے آخری ہفتے میں امریکی سفیر آرمی چیف سے متعدد ملاقاتیں کرچکے اور اس کے لئے انہوں نے وزارت خارجہ کو پیشگی اطلاع بھی نہیں دی“۔ قومی اتحاد نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور پھر احتجاجی تحریک کا ڈول ڈالا۔ لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکانے کے لئے اس تحریک کو تحریک نظام مصطفی کا نام دیا حالانکہ پی این اے نے احتجاجی تحریک کے دوران جن 32 مطالبات کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا ان میں نظام مصطفی کے نفاذ کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بچے کھچے پاکستان میں نوجوان فوجی افسروں کی بغاوت کے خدشے پر جنرل یحییٰ خان اور دوسرے جرنیل انتقال اقتدار پر آمادہ ہوئے۔ ملک مارشل لاءکے دیئے گئے لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے ذریعے چل رہا تھا۔ سو زیڈ اے بھٹو نے سویلین مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور صدر کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ 1973ءکا دستور بنا تو بھٹو صاحب صدر کا عہدہ چھوڑکر وزیراعظم بن گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دستور کے نفاذ کے کچھ دنوں بعد یہ ڈی ایف نامی اپوزیشن اتحاد نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی مگر اسی دوران سیلاب آگیا تحریک دھری کی دھری رہ گئی۔ 1974ءمیں راولپنڈی اسلام آباد میں جنرل ٹکاخان کی رنگین تصویروں والے اشتہار لگ گئے تھے۔ ”مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے“ والے ان اشتہارات کی اشاعت اور لگوانے کے پیچھے جماعت اسلامی کا کردار تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس وقت کے ایک حساس ادارے نے بھٹو صاحب کو رپورٹ دی کہ سول نافرمانی کی تحریک اور ٹکاخان والے پوسٹروں کے ڈانڈے امریکی سفارتخانے سے ملتے ہیں۔ بھارت کے راجستھان میں ایٹمی دھماکے کے جواب میں ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے اعلان اور بعض عملی اقدامات کے بعد امریکی بھٹو کے مخالف بن چکے تھے۔ تیسری دنیا کے تصور‘ مسلم ورلڈ بینک اور اس طرح کے دوسرے تصورات پر بھی امریکہ اور مغرب کو تشویش تھی۔ سوویت یونین کے تعاون سے سٹیل مل کے منصوبے کو امریکی کیمپ سے بغاوت سمجھا گیا۔ انہی برسوں میں بھٹو صاحب کے خلاف ایک ناکام فوجی بغاوت بھی ہوئی۔ باغیوں کے خلاف اٹک قلعہ میں بنی فوجی عدالت کے سربراہ جنرل ضیاءالحق تھے۔ کیا شاندار تقریر کی تھی انہوں نے دوران سماعت اور بھٹو کو اسلامی دنیا کا انقلابی لیڈر قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ اسلام کی نشاط ثانیہ اس مردِمجاہد کے ہاتھوں میں ہوگی۔ یوں اگر ہم دیکھیں تو ستمبر 1973ءمیں ہی بھٹو کے خلاف صف بندیاں شرو ہوگئی تھیں۔ اسلام پسندوں کے جرائد میں ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف وہ سب لکھا چھاپا جارہا تھا جو شرفِ انسانی اور سماجی روایات کے خلاف تھا۔ کراچی میں این ڈی پی کے ایک ترقی پسند رہنما نوازبٹ اپنی جماعت کے پی این اے کا حصہ ہونے کے باوجود کہا کرتے تھے ”ہماری قیادت کو امریکی سفیر کے فوج اور اصغرخان سے رابطوں پر نظر رکھنی چاہیے“۔
1977ءکے عام انتخابات سوفیصد منصفانہ بہرطور نہیں تھے۔ قومی اسمبلی کی 32نشستوں پر دھاندلی کا الزام لگانے والے پی ایف اے کے بعض الزامات درست بھی تھے۔ ان الزامات اور شواہد کی بناپر جمہوری طریقہ کار کے مطابق حکومت سے مذاکرات کا راستہ اپنایا جاسکتا تھا مگر اصغرخان پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ ”فیصلہ ہوچکا بھٹو نہیں رہے گا ہم حکومت بنائیں گے“۔ قومی اتحاد کی انتخابی مہم اور پھر احتجاجی تحریک کے دوران وہ ایک انتہاپسند اور بھٹو دشمن سیاستدان کے طور پر ابھرکر سامنے آئے۔ کہا جارہا تھاکہ انہیں امریکی سفیر کے ساتھ جنوبی ایشیاءمیں امریکی مفادات کے نگران شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی تائید بھی حاصل تھی۔ جولائی 1977ءمیں مارشل لاءکے نفاذ کے بعد اصغرخان دورہ ایران پر گئے اور واپسی پر وہ ہر ملنے والے کو یہ تاثر دے رہے تھے کہ ”شاہ ایران نے انہیں وزیراعظم پاکستان بنانے کی منظوری دے دی ہے“۔ ماشل لاءکے نفاذ کے بعد کی نشری تقریر میں جنرل ضیاءالحق نے قوم سے وعدہ کیاکہ 90دن میں عام انتخابات کروا دیئے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا ”فوج ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لئے آئی ہے۔ ہم صرف ریفری ہیں انتخابات کے بعد فوج بیرکوں میں واپس چلی جائے گی“۔ انہوں نے اکتوبر 1977ءمیں انتخابات کروانے کا اعلان بھی کیا پھر اپنے وعدے سے مُکر گئے۔ اسی دوران حیدرآباد سازش کیس ٹربیونل توڑ دیا گیا۔ (یہ ٹربیونل نیپ پر پابندی کے بعد اس جماعت کے رہنماﺅں کے خلاف حکومتی ریفرنس کی سماعت کررہا تھا) جناب عبدالولی خان رہا ہوئے اور انہوں نے پہلے احتساب پھر انتخابات کی صدا بلند کی۔ تیسرے مارشل لاءنے 73ءکے دستور کو نگل لیا۔ ان دنوں کچھ حلقوں کا خیال تھاکہ پاکستان میں مارشل لاءکا نفاذ دراصل جنوبی ایشیاءمیں طویل المدتی امریکی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمپئن امریکہ نے بھٹو حکومت کے خاتمے کا خیرمقدم کیا۔ اگلے دو برسوں میں خطے میں دو اہم واقعات ہوئے اوّلاً ایرانی انقلاب اور ثانیاً افغانستان کا انقلاب ثور (سرخ انقلاب)۔ ان انقلابات کے بعد پاکستان کی فوجی حکومت کی اہمیت امریکہ اور مغرب کی نگاہوں میں دوچند ہوگئی۔ ریفری وعدہ بھول گیا۔ فوج بیرکوں میں جانے کے بجائے ملک کا نظام چلانے لگی۔ ایک مخلوط کابینہ بنی قومی اتحاد کی جماعتیں نظام مصطفی کو بھول بھال کر بھاگ کر وفاقی کابینہ میں شامل ہوئیں۔ فوجی حکومت میں شمولیت کی پہل پیرپگاڑا کی مسلم لیگ نے کی اور پھر دوڑیں لگ گئیں۔ سب کو حصہ ملا یہاں تک کہ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی کو بھی دو وزارتیں مل گئیں۔
جولائی 1977ءمیں نافذ ہونے والے مارشل لاءکا دورانیہ 8سال کا ہے۔ 1985ءمیں غیرجماعتی انتخابات کے بعد وزیراعظم بننے والے محمدخان جونیجو کی تحریک پر مارشل لاءاٹھایا گیا مگر فوج کی بالادستی رہی۔ صدر کا منصب آرمی چیف جنرل ضیاءالحق کے پاس ہی تھا جو ایک جعلی ریفرنڈم کے ذریعے خود کو صدر منتخب کروا چکے تھے۔ اس مارشل لاءنے 2بلدیاتی اور ایک قومی انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پر کرائے۔ غیرجماعتی سیاست سے جنم لیتے مسائل بہت خوفناک ثابت ہوئے۔ فوجی حکومت نے پاکستان کو سوویت امریکہ جنگ کا امریکی بیس کیمپ بنادیا۔ مارشل لاءکے خلاف مزاحمت کرنے والے پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے شاندار قربانیاں دیں۔ اہل صحافت‘ ادیب‘ دانشور اور دیگر شعبوں کے نمایاں لوگوں نے عوام کے حق حکمرانی اور دستور کی بحالی کے لئے جدوجہد کی۔ اس سارے عرصہ میں اسلام پسند حلقے بالخصوص جماعت اسلامی جنرل ضیاءکی فوجی حکومت کے ساتھ کچھ اس طرح ڈٹ کر کھڑی ہوئی جیسے مارشل لاءایمان کا چھٹا رکن ہو۔ یہی مارشل لاءذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھانے کا ذریعہ بنا۔ پاکستان جولائی 1977ءسے قبل جس طرح کا لبرل پاکستان تھا اب اس کا خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ بجا ہے کہ لبرل پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے کچھ غلطیاں بھی سرزد ہوئیں مگر ان کی خوبیاں زیادہ تھیں اور پھانسی پر جھول کر انہوں نے عملی طور پر ثابت کردیا کہ رہنما ہوتو پہلے خود قربانی دیتا ہے۔
بشکریہ خبریں ملتان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn