وزیراعظم نواز شریف پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی میں پیش ہوگئے ۔ ان کے ممدوح چینل کا نیوز کاسٹر ماتمی انداز میں کہہ رہا تھا ”تاریخ رقم ہوگئی وزیراعظم ایک عام آدمی کی طرح چلتے ہوئے جے آئی ٹی میں پیش ہوئے ”۔ اقتدار ہو تو درباری بہت ۔ سرائیکی زبان کی ایک ضرب المثل کچھ یوں ہے ” جن کا گھر اناج سے بھرا ہو اُن کے دیوانے بھی عاقل کہلاتے ہیں ”۔کیا کیجئے اس ملک میں یہ دن بھی آنے تھے ۔ لیکن معاف کیجئے گا وزیر اعظم کا تعلق 63فیصد آبادی والے صوبے سے ہے ۔ اس سے زیادہ کچھ عرض کرنے کا یارا ہر گز نہیں ۔ ستر برس ہوتے ہیں اس ملک کو معرض وجود میں آئے خدا لگتی کہیے کتنے حکمران ایسے ہو گزرے جن کی دیانت مسلمہ ہو ؟ ۔ معروف معنوں میں کل چار افراد بنتے ہیں ۔ محمد علی جناح ، حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو ۔ پانچواں ایماندار ، حکمران تلاش کرنے کیلئے نکلیے تو سہی دانتوں پسینہ آجائے گا ۔ جو نیجو وزیر اعظم تھے پہلا مہینہ مکمل ہوا ایوان وزیر اعظم کے اخراجات کی فائل ان کی میز پر تھی ۔ انہوں نے فائل دیکھی سب سے زیادہ اخراجات کھانے کی مد میں تھے ۔ سیکر ٹری کو طلب کیا ۔ سوال کیا کھانے پر اتنے اخراجات ؟مودب انداز میں بتایا گیا جناب وزیر اعظم ، وزیراعظم ہاؤس کا عملہ کھانا یہی کھاتا ہے ۔” کیوں کیا ان کا گھر نہیں اسلام آباد میں” ۔ وزیر اعظم کی حیرانی بجا تھی ۔ ایک دن میں 40کلو مٹن اور 30کلو مرغی کا گوشت ، ٹھہریئے یہ تو دوپہر کے کھانے کا قصہ تھا شام کے کھانے کا قصہ الگ ہے ۔ محمد خان جونیجو نے کہا کل سے سب ناشتہ اپنے اپنے گھروں سے کر کے آئیں ۔ وزیراعظم ہاؤس میں انہیں فقط دو ،تین بار چائے یا کافی ملے گی ۔ کھانا گھر جا کر کھائیں وزیر اعظم ہاؤس کے باورچی خانے کا انچارج طلب ہوا ۔ کہا کل جوپکنا ہے آج شام ان سے دریافت کر لیا جائے ۔ بابوؤں کے کھانے بند ہوگئے ہیں ۔ دال سبزی اور چاول شوق سے کھانے والے جونیجو نے ہفتہ میں ایک دن مٹن ، ایک دن بیف ، ایک دن مرغ اور باقی دنوں میں دال سبزی پکانے کا چارٹ بنا کر باورچی خانے کے انچارج کوتھمادیا ۔ باادب سیکرٹری نے دریافت کیا وزیراعظم جن مہمانوں کوکھانے پر بلائیں گے انہیں کیا پیش کیا جائے ؟ ۔ جونیجو مسکراتے ہوئے بولے اچھا مہمان وہی کھاتا ہے جس سے میزبان تواضع کرے ۔ آپ اگر محسوس کرتے ہیں تو مہمان بلائیں ہی ان دنوں میں جب گوشت پکے ۔جنرل ضیاء نے 5جولائی 1977ء کو اقتدار پر قبضہ کرکے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹا ۔ آئی ایس آئی کے بلند پایہ افسرجیلانی خان کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنائی اس ٹیم کے ذمے ذوالفقار علی بھٹو کی کرپشن کا پردہ چاک کرنا تھا ۔ پہلے مرحلہ پر معلوم ہوا ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم ہاؤس کے کچن کا نصف خرچہ اپنی جیب سے ادا کرتے ہر مہینے اور اس کا باقاعدہ ریکارڈ موجود تھا ۔تحقیقاتی ٹیم کو بھٹو کے شام کے لوازمات سے گہری دلچسپی تھی ۔ پتہ چلا بھٹو ان لوازمات کی اسلام آبادکے ایک فائیو سٹار ہوٹل کو خود ادائیگی کرتے تھے ۔ زمین کی سات پر تیں کھنگال ڈالی گئیں پھر ایک دن بھٹو کی کرپشن کا بھاری بھر کم ثبوت مل گیا۔ مبارک وسلامت کا شور مچا تحقیقاتی ٹیم اپنے باس کے سامنے سرخرو ہوئی ۔ پورے 40ہزار کی کرپشن تھی ۔ 70کلفٹن میں کچھ تعمیرومرمت ہوئی تھی اس پر سرکاری خزانے سے 40ہزار روپے اٹھے ۔ پانی پت کے میدان کی جنگ جیتنے کا نشہ ایک رات سلامت رہا۔ اگلی صبح متعلقہ وزارت کے ایک افسر فائل بغل میں دبائے چیف مارشل لاء ایڈ منسٹر یٹر جنرل ضیاء الحق کے دربار میں پیش ہوئے ۔ عرض کیا ، 70کلفٹن پر ہوئی تعمیرات میں تقریباً 38ہزار پانچ سو روپے خرچ ہوئے تھے ، ادائیگی ہو چکی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے طلب کیا اخراجات پوچھے اور 45ہزار پانچ سو روپے کا چیک کاٹ کر دے دیا ۔ حکم ہوا ، 38ہزار 500 روپے قومی خزانے میں جمع کروا کے باقی کے ساڑھے 6ہزار روپے اس لیبر میں فرداً فرداً مساوی طور پر تقسیم کر دیئے جائیں جس نے 70کلفٹن میں تعمیر و مرمت کا کام کیا تھا ۔ افسر نے فائل بادشاہ وقت کے سامنے رکھتے ہوئے کہا قومی خزانے میں 38ہزار پانچ سو روپے جمع کروانے اور 70کلفٹن پر کام کرنے والی لیبر میں بقایا رقم مساوی طور پر تقسیم کرنے کی رسید ات اس فائل میں لگی ہوئی ہیں ۔بھٹو کے خون کے پیاسوں کی امیدوں پر اوس پڑگئی ۔پھر اس افسر کے ساتھ کیا ہوا یہ الگ داستان ہے عجب ظلم کی غضب داستان۔ حسین شہید سہرورد ی خود ساختہ ” فیلڈ مارشل ایوب خان کے ایبڈو قانون کی زد میں آئے انہوں نے بہت سارے دوسرے ایبڈوزدگان کی طرح گھرجانے کی بجائے مقدمے کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ، کرپشن کے الزامات کی ز د میں آئے ۔ حسین شہیدسہروردی کو ڈھاکہ سے لاہور کا کرایہ ایک دوست نے دیا تھا ۔ لاہور میں قیام کا بندوبست بھی ذاتی دوستوں نے کیا ، جناح صاحب نے تو ایک سرکاری میٹنگ کے دوران میز سے چائے اٹھوادی کہ شرکا چائے گھر سے پی کر آئیں گے ۔ آج کیا ہوتا ہے وزیر اعظم ہاؤس اور وزرائے اعلیٰ ہاؤسز ملک وقوم کو کتنے میں پڑتے ہیں آئندہ مالی سال کے وفاقی اور صوبائی بجٹس اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا پانچواں ایماندار شخص حکمرانی کے لئے دستیاب نہ ہو تو یہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے ۔ مثلاًاگر کرپشن کے مقدمے میں احتساب ہو تو کہا جاتا ہے ملک کی سلامتی خطرے میں پڑجائے گی ۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے آسمان سر پر اٹھائے پھر تے ہیں دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے لئے پاکستان اہم ہے ۔ سادہ سوال یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کو دیا کیا ؟ ۔ جوا ب میں رام کہانیاں تو بہت ہیں مگر فہمیدہ جواب ۔ تلاش کیجئے نجانے کس گلی میں رہ گیا ۔ تاریخ و سیاست کے اس طالب علم کی رائے فقط یہی ہے کہ پانامہ سکینڈل کے انکشاف کے فوراًبعد وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے حکومت میں موجود افراد کو اپنے عہدے چھوڑ دینے چاہیئے تھے ۔ مگر تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھ لیجئے ۔ اقتدار کون چھوڑتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn