جس وقت یہ کالم لکھ رہا ہوں وزیراعظم میاں نوازشریف پانامہ سکینڈل کی تحقیقات کےلئے سپریم کورٹ کے حکم پر بنی جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہیں اور ان کے ساتھی تاریخ رقم کرنے کی گردان میں مصروف ہیں۔ اچھا کیا دنیا کے کس مہذب ملک کے وزیراعظم پر ایسے الزامات ہوتے تو وہ بطور وزیراعظم ملزموں کی طرح پیش ہوتا؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ وہ وزیراعظم کب کا منصب چھوڑکر گھر چلا گیا ہوتا۔ ہائے ری مسلم دنیا عزت سے تو نہ کوئی گیا نہ جانا چاہتا ہے۔ مجھے آپ کے لئے تاریخ کے اوراق نہیں الٹنے۔ بہت دور تک نہ جائیے فقط 70سال کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لیجئے جواب مل جائے گا۔ آگے بڑھنے سے قبل دو وفاقی وزراءکی بات ہوجائے۔ وزیردفاع اور پانی و بجلی خواجہ آصف کہتے ہیں پہلے بچوں پر پھر نوازشریف اور اب شہبازشریف کی جے آئی ٹی میں پیشی فقط ایک ہی خاندان نشانہ پر کیوں ہے؟ آسان جواب یہ ہے کہ وزیراعظم نے قوم سے نشری خطابات اور قومی اسمبلی میں سینہ ٹھوک کر اپنے خاندان کو احتساب کےلئے پیش کیا تھا۔ اب احتساب کا عمل تفتیش کے بغیر تو پورا نہیں ہوتا۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار فرماتے ہیں کہ جے آئی ٹی کو ٹرک پر بھر کر ریکارڈ دیا جارہا ہے۔ حلفاً کہتا ہوں کہ کسی ادارے کو روکا نہ روکوں گا۔ منی لانڈرنگ میں 164 کا عدالتی بیان دینے والے اسحاق ڈار کی بات پر اعتبار کیسے کرلیا جائے وہ خود اس کیس کے ایک حصے کا نہیں بلکہ پورے کیس کا مرکزی کردار ہیں۔ ہم آگے بڑھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے کچھ سیانے پچھلے چند دنوں کے دوران یہ فرماتے ہوئے پائے گئے کہ ججوں اور جرنیلوں کا احتساب نہیں ہوتا تو سیاستدانوں کا کیوں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ منطق پیش کرنے والوں میں سے کچھ تو قبلہ کمانڈو صدر پرویزمشرف کی نرسری کی پیدوار ہیں اور جس طرح اس مقام تک پہنچے وہ لائق تحسین ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ سیدی یوسف رضا گیلانی کی حکومت کے خلاف بعض لوگوں کے تعاون سے پھڈے ڈالنے والے آج روتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ جے آئی ٹی کنٹینر پر کھڑی ہے۔ دھمال چودھری کے خیال میں جے آئی ٹی رورہی ہے۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ شریف خاندان کا احتساب جمہوریت پر حملہ ہے نہ یہ جمہوریت کے خلاف کوئی سازش۔ جو بوتے رہے وہ کاٹنا پڑرہا ہے۔ یہاں کس کو یاد ہے کہ کبھی شہبازشریف احتساب عدالت کے ججوں کو فون کیا کرتے تھے ”بینظیر بھٹو کو فکس کردو“۔ ہر وہ کام جو شریفوں نے بینظیر بھٹو کے ساتھ کیا ان کے آگے آرہا ہے۔ ثانیاً یہ کہ پچھلے چار برسوں کے دوران جمہوریت تھی کہاں؟ یہ تو طبقاتی نظام حکومت ہے۔ ایم پی اے ایم این اے بننے کےلئے کروڑوں روپے کی ضرورت پڑتی ہے۔ کاروبار ہے سیاست اب زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دھن میں جو ہوا اور ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کچھ سینئر صحافیوں کا (ان میں سے بعض وہ ہیں جو جنرل ضیاءاور ان کے سیاسی وارثوں کے دور میں ککھ پتی سے ارب پتی ہوگئے) خیال ہے کہ ملک کے منتخب وزیراعظم کو اس طرح رسوا نہیں کرنا چاہیے۔جب منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی جارہی تھی تو یہی صحافی فرماتے تھے انصاف کا بول بالا ہوا بلکہ ان میں سے ایک نے تو جنرل ضیاءکی مجلس شوریٰ میں مہمانوں کی گیلری سے فوجی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے طویل قصیدہ بھی پڑھا تھا۔ کیا محمدخان جونیجو منتخب وزیراعظم نہیں تھے؟ ان کی برطرفی اور اسمبلیوں کی رخصتی کے ضیائی فیصلے کو آسمانی پیغام کے طور پر پیش کرنے والوں کو اب وزیراعظم کے منصب کی عزت چین نہیں لےنے دے رہی؟ تاریخ اپنا راستہ خود بناتی ہے بتا دیجئے۔ شریفین اتنے معصوم و پاکباز ہرگز نہیں۔ اپنے مخالفین کے ساتھ وہ کیا کرتے ہیں اور بکنے والوں کی مرادیں کیسے پوری کرتے ہیں یہ ڈھکی چھپی کہانیاں نہیں۔ ان ساری باتوں کو جانے دیجئے ہم فقط اس بات پر غور کرلیتے ہیں کہ کیا یہ ملک نان سٹیٹ ایکٹروں کی غنڈہ گردی اور بالادست طبقات بالخصوص حکمرانوں کی لوٹ مار کے لئے معرض وجود میں آیا ہے؟ بٹوارے کے وقت کھیت ہوئے لاکھوں مرد و زن کیا اس لئے قربان ہوئے تھے کہ ایک ایسا ملک بن جائے جہاں چوری اور چوربازاری پر کوئی پوچھنے والا نہ ہو؟ یہ بائیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔ غیرمساویانہ پالیسیوں‘ استحصالی نظام‘ حکمرانوں اور بالادست طبقات کی لوٹ مار اور مُلّاگردی نے اسے جس مقام پر لاکھڑا کیاہے یہ کوئی قابل ذکر مقام نہیں۔ رونا آتا ہے ان طبقات کے کرتوت دیکھ کر جنہیں حکومت کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے ملک اور عوام کی خدمت کے بجائے اپنی آئندہ نسلوں کے لئے دولت کے ڈھیر بنالئے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ جناب نوازشریف کہتے ہیں ہم ہمیشہ احتساب سے سرخرو ہوکر نکلے۔ حضور! احتساب ہوا کب؟ اگر فقط مشرف دور کی بات ہی کرلیں تو اس دور میں آپ دس سالہ معاہدہ جلاوطنی ایک معافی نامے کے عوض کرکے ملک چھوڑ گئے تھے۔ آج بھی آپ کی کوشش یہی ہے کہ احتساب آپ کی مرضی سے ہو۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اقتدار احتساب سے ماورا بنادیتا ہے۔ جی نہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ان لیگیوں کی عقل پر ماتم کرنے کی دعوت دیتا ہے جو فرماتے پھررہے ہیں اسلامی تاریخ میں حضرت عمرفاروقؓ کے بعد نوازشریف دوسرے حکمران ہیں جو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہورہے ہیں۔ معاف کیجئے گا خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ نماز جمعہ کا خطبہ دینے کےلئے کھڑے ہوئے تو ایک عام شخص نے کہا آپ اس وقت تک خطبہ نہیں دے سکتے جب تک میرے اس سوال کا جواب نہ دیں کہ مال غنیمت سے سب کو ایک ایک چادر ملی پھر آپ نے کیسے دو چادروں سے کُرتا بنوا لیا؟ حضرت عمرفاروقؓ نے قومی اسمبلی سے خطاب کیا نہ ریڈیو‘ ٹی وی پر کوئی داستانِ الم بیان کی۔ اسی وقت اپنے صاحبزادے عبداللہ بن عمرؓ کو جواب دینے کے لئے کہا۔ فرزند کھڑا ہوا اور بولا میں نے اپنے حصے کی چادر اپنے والد کو تحفہ میں دی تاکہ کُرتا سلوا سکیں۔ سوال کرنے والے نے خلیفہ وقت کے فرزند کے بیان پر اعتبار کیا اور دعویٰ واپس لے لیا۔ شریفین! کچھ سمجھ میں آیا وہ معاملہ کیا تھا اور آپ کا معاملہ کیاہے۔ آپ کے معاملے میں ڈھیروں تفصیلات ان سطور میں عرض کرچکا۔ فی الوقت قندمکرر کے طور پر ایک بات عرض کئے دیتا ہوں۔ قوم کو یہ بتا دیجئے کہ لندن کے جو فلیٹ حدیبیہ پیپرمل اور برطانوی بینک کے درمیان مالیاتی تنازع پر آپ کے خاندان نے بینک کے حوالے کئے تھے وہ واپس آپ کے خاندان کو کیسے مل گئے؟ قرضے کی ادائیگی کیسے ہوئی۔ رقم پاکستان سے کون لے گیا۔ بینک سے مذاکرات کس نے کئے؟ اس ایک سوال کے جواب میں پانامہ کیس کی پوری کہانی چھپی ہوئی ہے۔ یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ وزیراعظم کی قومی اسمبلی اور نشری تقریروں میں تضادات ہیں۔ ان کے بچے کچھ کہتے ہیں اور وہ کچھ فرماتے ہیں۔
مکرر عرض کرتا ہوں اس ملک کی بدنصیبی ہے کہ شفاف احتساب کا نظام بن پایا نہ کسی دور میں کسی کا ہوا۔ احتساب کے نظام کو سیاسی مخالفوں کے خلاف دو دھاری تلوار کے طور پر استعمال کیا گیا ہمیشہ۔ اب تو حکومت بھی نون لیگ کی ہے۔ معاف کیجئے گا کوئی کردارکشی نہیں ہورہی بلکہ جو زبان وزیراعظم کے ساتھی‘ درباری اور متوالے استعمال کررہے ہیں وہ نشاندہی کرتی ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں پوری دال کالی ہے اسی لئے تو غلاموں کا ہجوم زبانوں سے خنجروں کا کام لے رہا ہے۔ وزیراعظم کو یاد تو ہوگا جب وہ ایک من گھڑت قصے کو لے کر کالاکوٹ پہنے سپریم کورٹ گئے تھے۔ گیلانی سے استعفیٰ مانگنے والے نوازشریف خود سے استعفیٰ مانگنے والوں کو ترقی کا دشمن کہہ رہے ہیں۔ حضور! کہاں ہے وہ ترقی جو آپ کے دور میں ہوئی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ تو اب بھی 8 سے 10گھنٹے کی ہے۔ جدید تحقیق اور تعلیم کا ایک ادارہ چار سال میں بنایا ہوتو بتائیے۔ کوئی ایسا ترقیاتی منصوبہ بتا دیجئے جس میں اتفاق کا لوہا اور میاں منشا کا سیمنٹ فروخت نہ ہوا ہو۔ بہرطور یہ اصل موضوع نہیں ہے۔ اصل موضوع یہ ہے کہ تاریخ رقم نہیں ہوئی بلکہ بائیس کروڑ شہری تاریخ کے سامنے شرمندہ ہوئے کہ وہ ایک ایسا وزیراعظم رکھتے ہیں جو صادق و امین نہیں تھا۔ کیا یہ بائیس کروڑ لوگ اس شرمندگی کا کفارہ ادا کرسکیں گے؟ اس سوال کا جواب تو آئندہ انتخابات میں ملے گا فی الوقت فقط یہ کہ جناب وزیراعظم! جس ملک نے آپ کو زمین سے اٹھاکر آسمان تک پہنچایا آپ نے اسے کیا دیا ماسوائے کرپشن کی رام لیلاؤں کے؟
بشکریہ خبریں ملتان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn