Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

جنابِ وزیراعظم ! تفتیش ایسے ہوتی ہے | حیدر جاوید سید

یہ 1982ء کے جاڑے (سردیوں) کے دن تھے لاہور کے شاہی قلعہ میں پہنچے سال بھر سے اوپر ہو چلا تھا۔ گزرے ایک سال کے دوران تفتیش کرنے والوں نے جو ستم ڈھائے ان کا تصور دہلا دینے کے لئے بہت تھا۔ زندگی گزر نہیں رہی تھی بلکہ گھسٹ رہی تھی۔ ایک سرد دوپہر میں پھر سے کوٹھڑی سے نکا ل کر تفتیش کاروں کے حضور ملزم پیش کیا گیا۔ تفتیشی ٹیم کے سربراہ نے ملزم کی شکل دیکھتے ہی غلاظت میں لتھڑی بدترین گالیوں سے سواگت کیا۔ گالیوں کا سلسلہ رکا تو رعونت بھرے لہجے میں بولا ’’میں حیران ہوں کہ تم جیسے غدار کو اب تک زندہ کیوں رکھا گیا ہے۔ مار کے گاڑھ دیتے۔ یہاں کتنے مر کھپ گئے‘‘۔ ایک لمبا بھاشن تھا اور تقریرِ حب الوطنی۔ کچھ دیر بعد گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے بولا ، ’’طبیعت صاف کراوئے اس حرام زادے دی‘‘۔ کوٹھڑیوں سے لانے والے اہلکار وحشیوں کی طرح ٹوٹ پڑے ۔ سواگت خوب ہوا۔ دلِ ناتواں نے جم کر سواگت کا لطف لیا۔ نقاہت ، سال بھر کی اسیری، اس دوران ہوا تشدد ان سب کی وجہ سے دلِ ناتواں، جسم کو کتنی دیر تک کھڑا رکھ پاتا؟ بالآخر دھم سے زمین پر چاروں شانے چت۔ اس دوران کانوں میں آواز پڑی ، ’’کھڑا کر اوئے اس۔۔۔۔ دے یار نوں۔ سالا ڈرامہ بہت کردا اے‘‘۔ زمین سے اٹھائے گئے وہ بھی ٹھوکروں سے۔ ملزم قدموں پر کھڑا ہوا تو سوال ہوا ،’’کیا کہتے ہو فوج کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے اور بغاوت کا ایجنڈا کس نے دیا تھا‘‘؟ ’’فوج کے خلاف نہیں منتخب حکومت اور وزیرِ اعظم کاتختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل ضیاء الحق کے خلاف لکھا بھی اور چند نشستوں میں باتیں بھی کیں۔ مگر یہ تو میں اپنے تحریری بیان میں لکھ چکا ہوں‘‘۔ ’’زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں کہ پہلے تم نے کیا لکھا اور کہا۔ اب جو پوچھا جارہا ہے اس کا جواب دو۔ تمہارے رسالے (ہفت روزہ جدوجہد کراچی) کو پیپلز پارٹی ہر مہینے کتنی امداد دیتی تھی؟ تمہیں تنخواہ نصرت بھٹو دیتی تھیں‘‘؟
’’جی نہیں۔ میرا پیپلز پارٹی سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ جب تعلق ہی نہیں تھا تو کیسی امداداور کیسی تنخواہ‘‘ میں نے جواب دیا۔’’بَن اوئے اس کنجر نوں تے لٹکا چھت نال (باندھو اس کنجر کو اور چھت کے ساتھ لٹکاؤ) حکم کی تعمیل ہوئی اور ملزم کو الٹا لٹکا دیا گیا۔ ایک بار پھر تشدد کا سلسلہ شروع ہوا۔ کمر اور کوہلے پر پڑنے والی بید کی ضربیں شدید تھیں۔ تکلیف اس سے شدید مگر داد فریاد کیسی ؟ کی بھی کیوں جاتی؟ انسانوں کی شکل میں موجود ان وردی پوش درندوں کو زعم تھا کہ وہ بڑے ماہر تفتیش کار ہیں اور پتھروں کو بھی بولنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میری بدقسمتی یہ تھی کہ مجھ سے جن معاملات کی تفتیش پچھلے سال بھر سے جاری تھی۔ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ فوجی حکومت کا مخالف ہونے سے مجھے رتی برابر بھی انکار تھا نہ شرمندگی مگر یہ ڈرامہ باز تفتیش کار کبھی مجھے بھارت پہنچا دیتے کبھی کہتے سوویت یونین کے کراچی قونصلیت سے رقم لے کر اس اسلامی انقلاب (ان کے بقول جنرل ضیاء کی آئین شکنی اسلامی انقلاب تھا) کے خلاف سرگرم عمل ہوں۔ اب یہ بات نکال لائے کہ جس ہفت روزہ (جدوجہد کراچی) میں میں کام کرتا تھا وہ پیپلز پارٹی کی امداد سے چلتا تھا اور مجھے تنخواہ محترمہ نصرت بھٹو ذاتی طور پر دیتی تھیں۔ اس تنخواہ کا حق ادا کرنے کے لئے میں اسلامی فوجی حکومت کی مخالفت کرتا تھا۔
کافی دیر تک الٹا لٹکنے اور تشدد سہنے کے بعد اس تفتیش کار کے کہنے پر مجھے چھت سے بندھے رسے سے اتارنے کا حکم دیا۔ سانس بحال ہوئے تو اس نے پوچھا ’’ہاں بھئی اتنی ڈوز کافی ہے سچ بولنے کے لئے یا مزید خوراک دوں‘‘؟ ’’آپ کے سوالات میری سمجھ سے باہر ہیں۔ جن باتوں سے میرا تعلق ہی نہیں ان کے حوالے سے کوئی بیان کیسے دے دوں‘‘؟ ’’تم بھونکتے بہت ہو حرامی۔ یہ شاہی قلعہ ہے تمہاری اماں کا گھر نہیں جو تمہاری بکواس سنتے رہیں گے۔ کھال ادھیڑ کر رکھ دوں گا تمہاری۔ کپڑے اتارو اس بہن ۔۔۔۔ کے‘‘ کچھ ہی دیر میں ٹھنڈے فرش پر ننگے پاؤں الف ننگا کھڑا تھا۔ ’’ہاں اب تم شروع ہو گے بولنا یا پھر مزید ڈوز دی جائے‘‘؟ ’’میں نے جو عرض کرنا تھا کر دیا‘‘۔’’ کتے کے بچے تمہاری ماں کا۔۔۔۔ جو سوال کیا ہے اسی کاجواب دو‘‘۔ میری خاموشی پر اس کا غصہ بے قابو ہو گیا اور وہ درندہ صفت اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اورکمرے میں موجود اہلکاروں کے ہاتھوں میں موجود دونوں بید (ڈنڈے) لے کر مجھ پر ٹوٹ پڑا۔ سر، پاؤں، بازو ہر جگہ ڈنڈے برس رہے تھے۔ شدید سردی میں ٹھنڈے فرش پرننگا کھڑا ملزم کتنی دیر تک تشدد سہتا رہا یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ ہوش اس طرح آیا کہ انہوں نے میرے جسم کے نازک حصوں میں مرچیں ڈال دی تھیں۔ ان مرچوں کی جلن میری چیخوں کو نہ روک سکی ، ساری ہمت ہوا ہو ئی اور میں چیخنے لگا۔’’ڈرامے نہ کرو غدار کتے کافر۔ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں سے مال لے کر پیٹ بھرنے والے اب بھونکتے ہو۔ مجھے اپنے سوالوں کے جواب چاہیے‘‘۔ ’’میرے پاس کسی سوال کا جواب نہیں۔ جتنا ظلم کر سکتے ہو کر لو‘‘۔ ’’بھین ۔۔۔ کے بچے ہم ظلم کر رہے ہیں تم پر؟ ۔ تم توغدار ہو۔ بھڑوے تم ہمیں اسلام کے محافظوں کو ظالم کہتے ہو؟ یہی تمہارے آقاؤں کے مال کا اثر ہے جو تم کھاتے رہے ہو۔ وہ ایرانی عورت (محترمہ نصرت بھٹو کا خاندان ایران سے متحدہ ہندوستان آیا تھا اور تقسیم کے وقت کراچی آکر آباد ہوا) تم جیسے نوجوانوں کو خرید کر اسلامی نظام کو ناکام بنانے کی سازش کر رہی ہے‘‘۔ درندہ ایک بارپھر مجھ پر ٹوٹ پڑا۔ بے رحمی اور غلاظت اس شخص پر ختم تھی۔ ’’اسے اس کی کوٹھڑی میں ڈال آؤ میں دیکھوں گا یہ ماں کا۔۔۔ کتنے دن نہیں بولتا‘‘۔ اپنے کپڑے اٹھائے بوجھل قدموں کے ساتھ اہلکاروں کے ساتھ چلتا ہوا کوٹھڑی تک گیا اور دروازہ کھول کر انہوں نے دھکا دیا میں اندر جا گرا۔
نوٹ:لاہور کے شاہی قلعہ میں ڈیڑھ سال جاری رہنے والی تفتیش کے ایک دن کی کہانی لکھنے کی وجہ پچھلے چند دنوں سے نون لیگیوں کا یہ راگ ہے کہ شریف خاندان اور خود نواز شریف نے پانامہ کیس کی جے آئی ٹی کے سامنے پیش اور شاملِ تفتیش ہو کر تاریخ رقم کی ہے۔ تفتیش کیسے ہوتی ہے شریفین کو کیا معلوم؟ کاش کبھی ان کا اصلی تفتیش سے پالا پڑ جائے اور پھر معلوم ہو کہ تاریخ کیسے رقم ہوتی ہے جناب وزیراعظم اور شریفین و حواریان کو۔

حالیہ بلاگ پوسٹس