Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سرائیکی سوال اور پیپلزپارٹی کے مجاہدین کا رویہ | حیدر جاوید سید

سرائیکی وسیب کے ایشو پر پچھلے مہینہ بھر سے پیپلزپارٹی اور سرائیکی قو م پرستوں کے درمیان جاری بحث میں دلیل بہت کم لوگوں کا ہتھیار ہے۔ جذبات کی دو دھاری تلوار سے مخالف رائے رکھنے والے کی گردن ہر کوئی مارنا چاہتا ہے۔ پیپلزپارٹی کو سیاسی قبلہ اور سرائیکی وسیب کا محسن قرار دیتے جیالے ”مجاہدین“ ایک طرح کی ہٹ دھرمی کو رزق بنائے ہوئے ہیں تو چند قوم پرست بھی تندوتیز انداز میں لاٹھیاں لہراتے میدان میں موجود ہیں۔ یہ بحث شروع تو سینٹ میں قومی زبانوں کی قرارداد کے بعد ہوئی۔ اس حوالے سے اپنی معروضات ان سطور میں عرض کرچکا۔ مکرر عرض کرنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اوّلاً یہ کہ بھٹو صاحب کی پیپلزپارٹی کی قیادت و ترجمانی اب جن کے ہاتھوں میں ہے وہ سوال کو اسی طرح کفر سمجھتے ہیں جیسے مذہبی جماعتیں۔ اطاعت امیر واجب ہے تو اعلان کیجئے ایک نئے عقیدے کا۔ سیاسی جماعت کوتو سوال بھی سننا ہوتے ہیں اور تنقید بھی برداشت کرنا پڑے گی۔ چند خامیوں کے باوجود پیپلزپارٹی اب بھی بہرطور سیاسی جماعت ہے البتہ یہ لیفٹ کی پارٹی نہیں سنٹرل لبرل جماعت ہے۔ ثانیاً یہ کہ آخر یہ کیوں تصور کرلیا گیاکہ سرائیکی وسیب کے رائے دہندگان پیپلزپارٹی کے باج گزار مزارع ہیں؟ اس پر ستم یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کے مجاہدین دوسروں کا تمسخر اڑاتے ہوئے تاریخ کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب اسمبلی نے پچھلے دور میں جب جنوبی پنجاب اور بہاول پور صوبے کے لئے دو صوبوں کی قرارداد منظور کی تو پیپلزپارٹی نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ مجھ سے طالب علموں نے اس وقت بھی سوال اٹھایا تھاکہ آخر ایسی کیا مجبوری تھی کہ سرائیکی صوبے کی بات کرتے کرتے اچانک دو صوبوں والی قرارداد کے حق میں ووٹ ڈال دیا گیا؟ پیپلزپارٹی کا جواب تھاکہ ”جو ایک صوبہ نہیں مان رہے تھے ان سے دو نئے صوبوں کی قرارداد منظور کروانا ہماری سیاسی فتح ہے“۔ اس وقت بھی عرض کیا تھا سرائیکی وسیب کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک کو اس دو صوبوں والی قرارداد کی وجہ سے بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ پنجاب اسمبلی میں دو صوبوں والی قرارداد پہلے منظور ہوئی اور سینٹ سے سرائیکی صوبے کے حق والی قرارداد بعد میں۔ یہاں یہ بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ سینٹ سے سرائیکی صوبے کے حق میں منظور کروائی گئی قرارداد کی آئینی حیثیت کوئی نہیں  کیونکہ تنہا سینیٹ قانون سازی کا اختیار ہی نہیں رکھتی یہ ایک سیاسی ہتھیار تھا اور طفل تسلی ورنہ جب پیپلزپارٹی اٹھارہویں ترمیم لارہی تھی تو جنرل ضیاءدور کی اس ترمیم کو ختم کیا جاسکتا تھاکہ جس صوبے میں نیا صوبہ بننا ہو اس کی اسمبلی دوتہائی اکثریت سے نئے صوبے کے حق میں منظوری دے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس ترمیم میں ارکان پارلیمان کو پارٹی مالکوں کا بندہ بے دام بنانے کی شق تو شامل کی گئی بہت سارے کالے قوانین بھی اس ترمیم کے ذریعے ختم ہوئے مگر صوبوں کی ازسرنو تشکیل اور نئے صوبوں کے قیام کا کُلی اختیار قومی اسمبلی اور سینٹ کو نہ دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے لئے سیاسی سودے بازی کی ضرورت کو نظرانداز کیوں کیا گیا؟ ایک سادہ جواب یہ ہے کہ اے این پی اور شیرپاؤ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے معاملے پر مقامی لوگوں کے جذبات کے برعکس پشتون ولی کی سیاست کررہے تھے آئینی ترامیم کے لئے عددی اکثریت سے محروم پی پی پی مجبور تھی۔ خدا کے بندو یہی ہم کہتے ہیں کہ عددی اکثریت کے بغیر لڑے گئے مقدمے سے سرائیکی عوام کو نقصان ہوا۔ ثانیاً یہ کہ 2013ءکے انتخابات کے لئے پی پی پی کے منشور میں 2008ءکی طرح سرائیکی صوبہ بنانے کا وعدہ نہیں تھا۔ پھر یہ انتخابات شفاف تھے ہی نہیں خود زرداری اسے آر اوز کا انتخابات کہتے آرہے ہیں۔ ان انتخابات کو جواز بناکر اٹھتے بیٹھتے یہ طعنہ دیناکہ سرائیکیوں نے کون سا پیپلزپارٹی کو ووٹ دیئے تھے۔ یہاں ساعت بھر کے لئے رُک کر حساب کرلیجئے کہ 2013ءکے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو سرائیکی وسیب سے کتنے ووٹ ملے اور باقی پنجاب سے کتنے۔ دھاندلی برانڈ انتخابات کے نتائج پر رودالوں کی طرح کوسنے اچھی بات نہیں۔ اٹھتے بیٹھتے طعنہ بازی اور تحقیر سے پیپلزپارٹی کی خدمت نہیں کررہے یہ دوست بلکہ سرائیکی وسیب میں اس کے لئے کانٹے بورہے ہیں۔ تاریخ و سیاست کے مجھ سے طالب علم کے لئے پیپلزپارٹی سیاسی جماعت ہے مذہبی عقیدہ ہرگز نہیں۔ سرائیکی قوم پر احسان جتانے والے پیپلزپارٹی کے اقتدار کے پانچ ادوار میں سرائیکی وسیب سے اسے ملے ووٹوں کو کیا کہیں گے۔ بجا ہے کہ بھٹو دور میں تعلیمی ادارے اور دیگر منصوبے منظور ہوئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں بھی اشک شوئی کا اہتمام ہوا۔ 2008ءسے 2013ءکے درمیانی پانچ سالہ وفاقی دور اس میں چار سال تک پیپلزپارٹی پنجاب حکومت کا بھی حصہ رہی۔ سرائیکی وسیب کو اجتماعی طور پر کیا ملا۔ کتنی بڑی صنعتیں‘ درسگاہیں اور دوسرے منصوبے؟ نشتر گھاٹ تک تو مکمل نہ کروا سکی پیپلزپارٹی۔ پیپلزپارٹی کے پانچوں وفاقی ادوار میں قومی اسمبلی میں سرائیکی وسیب سے کتنے ایم این اے تھے اور پنجاب سے کتنے۔ ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
مسئلہ یہ ہرگز نہیں جو ہمارے دوست بتاتے ہیں یا جواب میں یہ پوچھتے ہیں کہ نواز‘ سراج الحق‘ عمران نے کیا دیا سرائیکی وسیب کو۔ حضور انہوں نے سرائیکی وسیب کا کب نام لیا کب کوئی وعدہ کیا جو ان سے جواب طلب کریں ہم؟ المیہ یہ ہے کہ جس مسئلہ پر تحمل سے دلیل کے ساتھ بات ہونی چاہیے اس پر ٹھٹھہ اڑاتے اور توہین کرنے پر بضد ہیں جیالے۔ پنجاب اسمبلی میں دو صوبوں کی قرارداد تنہا مسلم لیگ (ن) نے پیش کی یا اسمبلی میں موجود جماعتوں نے مل کر؟ ریکارڈ دیکھ لیجئے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ چند دوست بضد ہیں کہ سرائیکی لوگ سر جھکائے ان کی باتوں پر ایمان لے آئیں۔ خدا کے بندو ابھی چند دن قبل پی پی پی پارلیمنٹیرین کے سربراہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بہاول پور کے ایک وفد سے ملاقات میں بہاول پور صوبے کی حمایت کی تجدید کی۔ اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی۔ ذاتی طور پر مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ سرائیکی کاز کو پیپلزپارٹی نے مین سٹریم میں لے جانے میں بنیادی کردار ادا کیا مگر اس کردار کی ایک حد بہرطور تھی اور ہے۔ مکرر عرض کردیتا ہوں کہ پیپلزپارٹی نے سرائیکی صوبے کے لئے جو پارلیمانی کمیشن بنایا تھا اس میں مولوی عبدالغفور حیدری کو شامل کرنا اتنا ہی غلط تھا جتنا فرحت اللہ بابر جیسے متعصب شخص کو اس کا سربراہ بنانا۔ سو آج کوسنے دینے‘ احسان جتانے اور تمسخر اڑانے کے بجائے ٹھنڈے دل سے صورتحال پر غور کرنا لازم ہے۔ سیاست میں سوالات اور مکالمے کا دروازہ بند ہوجائے تو پھر یہ جمہوری سیاست نہیں ملوکیت کی ایک قسم بن جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی زندہ حقیقت ہے تو سرائیکی ایشو بھی زندہ حقیقت ہے۔ حیرانی ہوتی ہے جب سب جانتے ہوئے بھی یہ بھاشن دیا جاتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ سرائیکی ایشو پر گئی۔ جناب گیلانی اس منصب سے غیرآئینی اور غیراعلانیہ جوڈیشل مارشل لاءکی وجہ سے محروم ہوئے مگر وجوہات اور تھیں۔
باردیگر عرض کروں گا کہ اگر پیپلزپارٹی کے دوستوں اور سوشل میڈیا مجاہدین نے تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے دوسری رائے کا اظہار کرنے والوں کے ساتھ مذہبی چمونوں سا سلوک جاری رکھا تو نقصان پیپلزپارٹی کا ہوگا۔ اچھا ایک سادہ سی بات تو بتا دیجئے پیپلزپارٹی کو سندھ کے دیہی علاقے سے 100فیصد سندھی ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ میرا جواب یہ ہے کہ سیاسی جماعت کے حامی بھی ہوتے ہیں اور مخالف بھی۔ سرائیکی مسئلہ پر پیپلزپارٹی کے ترجمان بنے مجاہدین کا رویہ سیاسی طور پر درست نہیں۔ لوگوں سے سوال کرنے کا حق نہ چھینئے۔ جمہوریت کے لئے پیپلزپارٹی کی قربانیاں سر آنکھوں پر مگر حضور قربانیاں دینے والے کارکن اسی سماج کا حصہ تھے آسمان سے نہیں اترے تھے۔ اس لئے تاریخ کو مسخ کرکے دوسری رائے رکھنے والوں کا تمسخر اڑانے کے بجائے اپنی قیادت سے دوعملی اپنانے کی وضاحت طلب کیجئے۔ مجھے یہی عرض کرنا تھا اگر ناگوار نہ گزرا ہوتو۔
بشکریہ روزنامہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس