پچھلے چند دنوں کے اخبارات پڑھئے اور نون لیگ کے متوالوں کے بیانات۔ ایسا لگتا ہے غلاموں کی دوڑ بھاگ کا موسم شروع ہوگیا ہے۔ سادہ سا سوال ہے جناب نوازشریف اور ان کے خاندان کے ہاتھ اور دامن صاف ہیں تو سات پیاروں کے دہنوں سے آگ کیوں نکل رہی ہے؟ کہنے والے کہتے ہیں شہبازشریف، رانا ثناءاللہ، مریم اورنگزیب سمیت چند دوسرے بھی اس مشاورتی اجلاس میں موجود تھے جس میں فیصلہ کیا گیاکہ پانامہ کیس کی سماعت کرنے والے ججز اور اب تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے ارکان بارے تُند رویہ اپنایا جائے۔ کیا فقط تُند رویہ؟ لگتا یہ ہے کہ بات اگلے مرحلے تک جائے گی۔ عمران خان اور خورشید شاہ کے خدشات بلاوجہ نہیں۔ لاہور میں ایک ذریعے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فاتح ماڈل ٹاؤن رانا ثناءاللہ نے فیصل آباد اور جھنگ سے ”سکہ بند“ کارکنوں کو معرکے کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ میدان کہاں لگنا ہے۔ سپریم کورٹ کے باہر یا جوڈیشل اکیڈمی کی عمارت کے باہر جہاں جے آئی ٹی کے ارکان بیٹھتے ہیں؟ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ جناب سعدرفیق نے لاہور کے ہتھ چھُٹ قسم کے کارکنوں میں ”عیدی“ تقسیم کی۔ ساتویں اور نویں روزے کو تقسیم کی گئی اس عیدی کے مقاصد ”عید“ ہی ہیں؟ لیکن اس سے پہلے نہال ہاشمی کا تذکرہ کرلیا جائے وہ اپنے استعفیٰ سے پیچھے ہٹ گئے۔ کہتے ہیں عمران خان نے مجھ سے زیادتی کی۔ اس سارے ہاؤہو کے درمیان جناب شہبازشریف لنگرلنگوٹ کس کر میدان میں اترے اور بولے ایک خاندان پر بندوق تان لی گئی ہے۔ کیا سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان بندوق بردار ہیں یا پھر یہ اطلاع درست ہے کہ پچھلے ہفتے کے دوران انہوں نے آرمی چیف سے جو ملاقات کی تھی وہ بے ثمر رہی؟ فاتح ماڈل ٹاؤن رانا ثناءاللہ نے ارشاد فرمایا ”جے آئی ٹی کو حملہ کرانے کا شوق ہے“۔ کس کو کیا شوق اور شونق ہیں کالم میں کب ساری باتیں عرض کی جاسکتی ہیں البتہ دستیاب اطلاعات سے جو بات سمجھ میں آئی ہے وہ یہ کہ خاندان شریف نے مارو اور مرجاؤ کی پالیسی اپنانے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے اسی لئے سات پیاروں کے دہنوں سے آگ کے شعلے بلند ہورہے ہیں۔
مارو کا مطلب ہنگامے اٹھاؤ اور مرجاؤ کا سیاسی شہادت کے ساتھ محفوظ راستہ حاصل کرنا ہے۔ آپ شہبازشریف کی بندوق تان لینے والی بات پر حیران نہ ہوں۔ پانامہ کیس نے ایک بار پھر حدیبیہ پیپروں کے معاملے میں رنگ بھرا ہے۔ حدیبیہ پیپر مل اور برطانوی بینک کو مالی معاملے میں سرنڈر کئے گئے فلیٹس کے معاملے میں شہبازشریف اہم ترین کردار ہیں ان کا تند لہجہ اصل میں ان کی اپنی عدم قبولیت کا غصہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر بات آگے چلی تو جے آئی ٹی میں انہیں پیش ہوکر یہ بتانا پڑے گا کہ وہ کون سے فلیٹس تھے جن کی واپسی کے لئے انہوں نے برطانوی بینک اور حدیبیہ پیپر کے درمیان عدالت سے باہر معاملات طے کروائے۔ معاملات طے کرواتے وقت جو رقم ادا کی گئی وہ لندن میں کس سے لی تھی اور وہ کون تھا۔ اگر پاکستان سے وہ لے گئے تو کیسے کوئی اور لے گیا تو کیا طریقہ اپنایا گیا؟ خادم اعلیٰ پنجاب کی دبنگ انٹری کی وجہ صاف ظاہر ہے ان کی انٹری کے بعد سے آپ طلال و دانیال، آصف کرمانی، مریم اورنگزیب، سعدرفیق، طارق فضل چودھری اور رانا ثناءاللہ (یہ سات پیارے ہیں) کی باتوں پر غور کیجئے سارا منصوبہ سمجھ میں آجائے گا۔ اخلاقی طور پر شکست خوردہ خاندان شریف کے چھوٹے بڑے یہ سمجھتے ہیں کہ بارثبوت ان کی گردنوں پر ہے۔ ثبوت ہوں تو لائیں، کہانیاں تھیں یا سامری جادوگر کے قصے، قانون کہانیوں پر نہیں ثبوتوں پر غور کرتا ہے۔ جس وقت آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے وہ دن اور اس سے اگلے چند دن بہت اہم ہیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ پہلے مرحلہ پر سپریم کورٹ اور جوڈیشل اکیڈمی کے باہر سکیورٹی اہلکاروں سے ”الجھا جائے“۔ محض الجھا ہی نہ جائے بلکہ چند قدم آگے کی پیش قدمی کے ذریعے ججز اور جے آئی ٹی کے ارکان کو پیغام عام پہنچایا جائے کہ اب ”تخت یا تختہ“ سے کم پر بات نہیں ہے۔ ایک دو دن عدالت کا ردعمل دیکھا جائے گا اور پھر منصوبے کے اس دوسرے مرحلے پر کام ہوگا جس کی نشاندہی خورشید شاہ اور عمران خان دونوں نے کی ہے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں کہ شہبازشریف کو یہ ٹارگٹ دیا گیا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کو ”قطر“ بنادیں۔ بالکل ویسے جیسے سعودی عرب نے قطر کو قطر بنایا۔ کھچڑی پک نہیں رہی بلکہ دیگیں پک چکیں بس تقسیم کے وقت کا انتظار ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ لنگر کی تقسیم کے وقت کتنے کارکن کہاں سے آئیں گے۔ جھنگ اور فیصل آباد کے جن سکہ بند کارکنوں کو تیار رہنے کا کہا گیا ہے انہیں ایسے نازک حالات میں مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا پرانا تجربہ ہے۔ تجربات تو اﷲ کے فضل و کرم سے جناب شہبازشریف کو بھی بہت ہیں تین چار معاملات میں تو وہ پی ایچ ڈی ہیں۔ عجیب بات ہرگز نہیں جب حسین نواز یہ کہنے لگیں کہ ”جے آئی ٹی پر کئی سوالات جنم لے رہے ہیں“۔ فہمیدہ بات یہ ہے کہ اگر جے آئی ٹی ہوا میں تلواریں چلا رہی ہے خود سے اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تو پریشانی کس بات کی ہے؟ پانامہ کیس کے آغاز پر اگر وزیراعظم اپنے بھائی اور سمدھی کے ساتھ یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیتے کہ فیصلہ تک وہ گھر بیٹھنا پسند کریں گے تو شاید آج ان کی اخلاقی حیثیت مستحکم ہوتی مگر اقتدار اور کم وقت میں زیادہ ”خدمت“ کے جنون نے انہیں یہ فیصلہ نہ کرنے دیا۔ ثانیاً یہ کہ وزیراعظم سمیت ان کا خاندان اور نون لیگ اینڈ سنز پر عیاں ہے کہ ان کا اقتدار ایک بند گلی میں راستہ تلاش کررہا ہے۔ بند گلی میں دھکیلنے کا سبب حدیبیہ پیپر والا معاملہ ہے وہی جس میں وزیراعظم کے سمدھی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا ایک بیان حلفی موجود ہے۔ ادھر جے آئی ٹی کے سربراہ اور چند ارکان نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی کے سربراہ اور چند ارکان کے اہلخانہ کو چند عجیب و غریب پیغام موصول ہوئے ہیں۔ پیغامات کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں پیش کرکے درخواست کی جائے گی کہ بھیجنے والوں کو بے نقاب کرنے کے لئے تحقیقات کروائی جائیں۔ پانامہ کیس پر بنی جے آئی ٹی کے حوالے سے طرفین جو بھی کہیں البتہ مسلم لیگ (ن) کی پریشانی چھپائے نہیں چھپ رہی۔ سات پیارے اس حوالے سے اپنے اپنے مقام پر جس طرح کی گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ خاندانِ شریفیہ مشکل ترین حالات سے دوچار ہے۔ پروفیسر احسن اقبال نے جمعۃ المبارک کی شام اسلام آباد میں ایک نجی محفل میں فرمایا ”چوڑیاں ہم نے بھی نہیں پہن رکھیں“۔ جب احسن اقبال جیسا نرم خو بندہ اس انداز میں بات کرنے لگے تو سمجھ لیجئے کہ بچاؤ کے قانونی راستے بند ہوتے دیکھ کر نون لیگ کیا کرسکتی ہے اور کیا کرنے جارہی ہے۔
جے آئی ٹی اور سات پیاروں کے درمیان میں کچھ تذکرہ ملک نوراعوان کا ہوجائے۔ یہ وہ متوالے ہیں جنہوں نے قومی اسمبلی کے احاطے میں شیخ رشید سے اپنے مالی تنازع پر ادھم مچاکر شہرت پائی۔ نور اعوان اور ان کے چند جاپان میں مقیم نون لیگی دوستوں نے نوازشریف کے پہلے دوراقتدار میں شیخ رشید کو ایک گاڑی کا تحفہ دیا تھا۔ تحفہ ادھار اس وقت قرار پایا جب 2002ءکے انتخابات کے بعد شیخ رشید جنرل پرویزمشرف کے کیمپ میں چلے گئے۔ پنجاب میں نون لیگ پچھلے 9سال سے اور اب وفاق میں چارسال سے اقتدار میں ہے۔ نوراعوان نے اپنی جماعت کی صوبائی حکومت سے پچھلے 9برسوں کے دوران اس معاملے میں مدد کیوں نہ مانگی۔ پچھلے چار برسوں کے دوران بھی انہوں نے کہیں دادرسی کے لئے دستک نہیں دی اب اچانک وہ ایک دن سنیٹر نہال ہاشمی کے ساتھ پارلیمنٹ کے احاطے میں پہنچے اور ”میلہ لگادیا“۔ کیا اس میلے کا مقصد شیخ رشید کی تذلیل تھا؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے اندر حکومت کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے اور کامیاب بائیکاٹوں کے ذریعے اس کی جمہوریت دوستی کا نقاب اتارا ہے اسے میڈیا پر ملنے والی پذیرائی سے بوکھلائے لوگوں نے تماشا لگانے کا فیصلہ کیا۔ اچھا اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ گاڑی تحفہ میں نہیں بلکہ ادھار میں دی گئی تھی تو اڑھائی عشروں کے دوران اس ادھار کی وصولی کے لئے کیا کیا گیا؟ قومی اسمبلی کے احاطے میں لگے اس میلے سے نون لیگ کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ مظفرگڑھ سے رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کو بجٹ سیشن اور صدرمملکت کے خطاب کے دوران شریف فیملی کے چند نابغوں سے تلخ کلامی کا مزہ چکھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ جمشید دستی کی گرفتاری کے لئے جناب شہبازشریف نے ذاتی طور پر آئی جی پنجاب کو کہا اور پھر حکم کی تعمیل میں جس بھونڈے پن کا مظاہرہ کیا گیا اس سے جگ ہنسائی ہوئی۔ حکومت میں ہمت تھی تو سیاسی میدان میں مقابلہ کرتی جو طریقہ اس نے اختیار کیا وہ شرمناک حد تک قابل مذمت ہے۔
بشکریہ خبریں ملتان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn