Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

تین نسلوں پر اثر کرتا ایک لقمہ حرام | حیدر جاوید سید

دوست شکوہ کرتے رہتے ہیں اور قارئین بھی۔ کیا قرآن کے علاوہ دنیا میں ایسی کوئی دوسری کتاب ہے جس پر اتفاق کلی ہو؟سادہ سا جواب ہے ”جی نہیں”۔ ہم اس سماج میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جس کی اکثریت نفس کے سرکش گھوڑے پر سوار ہے وہ بھی ایسے کہ بت ہر شخص من میں سجائے ہوئے ہے۔ خواہشیں کہاں پوری ہوتی ہیں۔ آرزوؤں کے گھاٹ پر آدمی ایک بار اترے تو پھر یہی پڑا رہتا ہے۔ حب دنیا سے جو بچ کر زندہ رہتے ہیں کمال وہی کرتے ہیں۔ پر موجودہ سماج میں ایسے صاحبان کمال کتنے ہیں؟ اس سوال پر مغز کھپانے کی بجائے آگے بڑھ لیتے ہیں۔ ایک کم ساٹھ برس کی زندگی اور پینتالیس سال پر پھیلی صحافتی محنت کشی کے د وران درجنوں بار ایسے موقع ملے جب نفس نے خواہشوں کے گھوڑے پر سواری کے لئے آمادہ کیا۔ عجیب ہے طالب علم کو ہر بار دو باتیں یادآئیں۔ اولاً امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشاد گرامی ”حرام کا ایک لقمہ تین نسلوں پر اثر دکھاتا ہے” ثانیاً والدہ مرحومہ کی تائید ”صاحبزادے’ آقائے دو جہاں ﷺ کے حضور شرمندگی کا سامان نہ جمع کرنا ہمارے لئے”۔ زندگی کسے محبوب نہیں ہوتی؟ زندگی ہی تو محبوب ترین چیز ہے۔ آدمی اپنے سفر حیات میں تربیت’ تعلیم ‘ نسب اور اس رزق کا حق اداکرتا ہے قدم قدم پر جو اس کی پرورش میں شامل ہو۔ اب یہ خاصے کی باتیں لگتی ہیں۔ قدریں تبدیل ہوگئیں۔ زمانے بدل گئے۔ آدمیوں کے جنگل میں نجیب انسان کم کم ہیں۔ نجابت کیا ہے’ محض نسب؟ جی نہیں۔ نجابت کردار میں پوشیدہ ہے۔ کردار سازی کی اولین درس گاہ ماں کی گود ہے اگلی درس گاہیں اساتذہ کرام’صد شکر کے جنم دینے والی ماں کو ملتان کے لوگ واعظ والی بی بی جی کہتے تھے۔ 50سال انہوں نے ملتان میں خواتین کے چھوٹے بڑے اجتماعات میں قرآن و حدیث کا درس دیا۔ چند دن ہوتے ہیں اساتذہ کرام بارے گفتگو شروع ہوئی تو عرض کیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس نسل کے درمیان پروان چڑھے جو اساتذہ کرام کی جوتیاں سر پر رکھ کر چلنے میں فخر محسوس کرتی تھی۔ 9سال کی عمر سے اب تک کے پچاس برسوں کے دوران جو دوست ملے وہ ایک سے بڑھ کر ایک۔ سو یہ جو مقام شکر ہے یہاں تک پہنچنے میں میرے دوستوں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ اب عمر کے اس حصے میں جب سانسوں کی نقدی تیزی سے کم ہو رہی ہے لاکھ بدلنا چاہیں خود کو تو نہیں بدل سکتے۔ جو کچھ اور جتنا تعمیر ہونا تھا ہولئے۔ حلقہ احباب میں زیادہ تر سیاسی کارکن ہیں۔ بچے کھچے صاحبان علم ہیں۔ طالب علم اور صحافی۔ زیادہ تو شکوہ سیاسی کارکن دوستوں کو ہوتا بلکہ رہتا ہے۔ پچھلی شام نون لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست جہاں زیب خان کہہ رہے تھے شاہ جی جب نون لیگ پر لکھتے ہو تو لگتا ہے جیسے کوئی ذاتی دشمنی ہو۔ دو دن ادھر تحریک انصاف کے ملک عباس کھاوڑ کا شکوہ تھا۔ لوگ ہماری پارٹی کے منشور اور عمران خان کی صلاحیت سے متاثر ہو کر پی ٹی آئی میں آرہے ہیں۔ میرا بھانجا سید ندیم عباس شمسی بھی عمران خان کا عاشق صادق ہے۔ ہر وقت بحث پر آمادہ۔ پیپلز پارٹی کے دوست سرائیکی مسئلہ اور بالخصوص سرائیکی زبان کے معاملے پر پچھلے مہینے میں سینٹ کی ایک کمیٹی میں اعتزاز احسن کے سرائیکی دشمن اقدام پر تنقید سے نالاں ہیں۔ ناراض رہنے والوں میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) بھی شامل ہیں۔ کیا عرض کروں۔ فقط یہی کہ بندگان خدا ایک آزاد منش اخبار نویس اپنی فہم کے مطابق تحسین و تنقید کرتا ہے۔ عمران خان انقلاب لانے چلے تھے لا سکتے تھے مگر مروجہ سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دوسری جماعتوں کا ملبہ جمع کرکے وہ شاہراہ انقلاب تعمیر کرنے کے آرزو مند ہیں۔ ایک آدمی پیپلز پارٹی میں کالا چور ہوتا ہے جونہی تحریک انصاف میں جمع ہوا سادھو سنت قرارپاتا ہے۔ ارے بھیا! یہ سیاسی مسافر ہیں موسم کے ساتھ منڈھیروں سے پرواز کرتے دوسرے آنگن میں ڈیرے ڈالنے والے۔ انقلاب تربیت یافتہ دیوانی نسل لاتی ہے سیاسی مسافر نہیں۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ پی پی پی کا مال بلاول ہاؤس میں خراب اور بنی گالہ میں نمبر ون۔ پی ٹی آئی یا نون لیگ کا مال جب پیپلز پارٹی کی مارکیٹ میں ہوتا ہے تو عظیم جیالا۔ سیاسی ہجرتیں سیاست کا حصہ ہیں مگر یہ بھی تو دیکھنا ہوگا کہ کون جماعتی منشور سے متاثر ہوا اور کون نئی فتوحات میں سے حصہ لینے کا آرزو مند ہے۔ تاریخ و سیاسیات کے طالب علم کو مفاد پرستی پر مبنی سیاسی ہجرت سب سے بری لگتی ہے۔ 1970ء کی دہائی کے آخری برسوں کی بات ہے جب پیر صاحب پگارا (موجودہ پیر پگارا کے والد مرحوم) کے خلاف کراچی کے ایک جریدے میں ایک مضمون شائع ہوا۔ چند پرجوش مدیروں نے اس جریدے کے دفتر پہنچ کر عملے کو مقام پیر سے” آگاہ” کیا۔ پیر پگارا کے علم میں بات آئی تو انہوں نے اس جریدے کے سارے عملے کو اپنے گھر پر کھانے کی دعوت پر بلوایا اور مقام پیر سے آگاہ کرنے والے مریدوں کو بھی طلب کیا۔ کھانے کے کمرے میں داخلے سے قبل مریدان باوفا نے اپنے پیر کے حکم پر سندھی روایات کے مطابق گھٹنے چھو کر معافی مانگ لی۔ اب تو تنقید کرو تو ماں بہن کی گالیاں انعام میں ملتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو افرادی قوت بڑھانے اور انتخابی ریس جیتنے والے گھوڑے جمع کرنے کا حق ہے لیکن یہ تو ہونا چاہئے کہ وہ ان گھوڑوں کی پچھلی رسیوں کا حساب آنکھ کھول کر پڑھ لیں۔ غور اس بات پر ہونا چاہئے کہ کرپشن کے خلاف علامت کہلوانے کے شوقین ہندو سندھ کے مشہور کرپٹ لوگوں کو جمع کیوں کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی حالات کو بھانپ کر وسطی پنجاب کے ڈربی ریس جیتنے والے گھوڑے تحریک انصاف کو دے رہاہے اور سرائیکی وسیب میں کچھ مال پیپلز پارٹی کے سپرد کر رہا ہے؟ اس سوال کاجواب تلاش کیجئے کہ جواب ہی آپ کو مستقبل کا منظر نامہ سمجھا سکتا ہے مجھے تو فقط یہ عرض کرنا ہے۔ سیاست کرنی ہے تو تنقید حوصلے سے برداشت کیجئے یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  ذوالفقار علی بھٹو سے عمران خاں پر الزامات۔۔۔اخلاقیات کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے | انور عباس انور

بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس