Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

شہباز شریف کی مولا جٹ برانڈ انٹری | حیدر جاوید سید

کیا محض دلپشوری کے لئے شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ ایک خاندان کے خلاف بندوق تان لینا کوئی احتساب نہیں۔ وزیر اعظم کے بچے کو جے آئی ٹی کے سامنے ایسے بٹھایا گیا جیسے اس نے کرپشن کی ہو’ احتساب برابری کی سطح پر کریں۔ آ پ نے ایک خاندان پر بندوق تان لی ہے”۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے ہاتھ میں شہباز شریف کو جو بندوق دکھائی دے رہی ہے وہ بائیس کروڑ لوگوں کو کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ یہ سوال اپنی جگہ مگر سادہ سی بات یہ ہے کہ سوموار 5جون کی شام نون لیگ کے مالکان نے مارو یا مر جاؤ کی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ پانامہ کیس کی ابتداء سے اب تک بڑے بھائی اور بھتیجوں بھتیجی کی مدد کے لئے محض دو بار میڈیا سے اپنے جذبات شیئر کرنے والے شہباز شریف کی تازہ انٹری دھانسو ٹائپ ہے۔ آسان الفاظ میں انہوں نے وہی باتیں دوسرے انداز میں کی ہیں جو چند دن قبل نہال ہاشمی نے کی تھیں یا خواجہ سعد رفیق’ دانیال عزیز اور طلال چودھری کے ساتھ اطلاعات کی وفاقی وزیر مملکت مریم اورنگزیب کرتی رہتی ہیں۔ خواجہ پیانے تو ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم نے عدالت میں جو کتاب زندگی پیش کی اس کاکوئی صفحہ غائب نہیں۔ پڑھنے والوں کی آنکھیں کمزور ہیں تو اپنا علاج کروائیں۔ مکرر عرض کرتا ہوں 5 جون کی شام نون لیگ کے مالکان نے مارو یا مر جاؤ کی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کرلیا۔ نہال ہاشمی کی سینٹ سے دئیے گئے استعفیٰ پر قلا بازی اس کا نتیجہ ہے۔ شہباز شریف کا بیان اس حکمت عملی کا بیانیہ۔ شریف خاندان کا احتساب کب ہوا یہ ایک اچھوتا سوال ہے۔ 1988ء سے 1999ء تک کے درمیان چار ادوار میں دو بار پیپلز پارٹی اقتدار میں رہی اور دوبار مسلم لیگ(ن) ایک بار آئی جے آئی کی شکل میں اور دوسری بار تنہا۔ دونوں نے اپنے اپنے دو دو ادوار میں ایک دوسرے کے خلاف ڈھیروں ڈھیر مقدمات بنائے۔جناب نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف کرپشن’ اقربا پروری’ کمیشن اور حکومتی وسائل کو خاندانی کاروبار کے بڑھاوے کے لئے استعمال کرنے کے الزامات پر جو مقدمات بنے ان میں سے بہت سارے مقدمات میں انہوں نے جنرل پرویز مشرف سے ہوئے دس سالہ معاہدہ جلا وطنی کے معافی نامے میں ریلیف حاصل کرلیا۔ سو یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ احتساب ہوا کب؟ اور یہ کیسا احتساب تھا کہ نیشنل بنک کی نادہندگی کے باوجوداس خاندان نے 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ 2013ء کے بعد نیشنل بنک سے معاملات طے کرکے این او سی لیا گیا۔ ملک کا وزیر اعظم اور اس کا خاندان کیسے این او سی لیتا ہے اس پر سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ نون کے دو ادوار اور 1999ء والی نگران حکومت کے قصوں اور مقدموں پر دفتر کے دفتر لکھے جاسکتے ہیں۔ حیران ہوں کہ وزیر اعظم کے صاحبزادے کی ایک تصویر کے سامنے آنے پر عزت کے آسمان پر جاری ماتم کرنے والوں کو وہ دن یاد نہیں آئے جب سیاسی مخالفت میں قائم مقدمات ( سیاسی مخالفت میں قائم مقدمات اس لئے لکھا ہے کہ خود جناب نواز شریف نے جلا وطنی کے دنوں میں سہیل وڑائچ کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا ہمیں بے نظیر بھٹو اور زرداری پر مقدمات بنانے کی ہدایات ملتی تھیں ان ہدایات پر عمل ہماری غلطی ہے) میں بے نظیر بھٹو کی عدالتوں کے باہر دھکے کھاتی درجنوں تصویریں اہتمام کے ساتھ شائع کروائیں اس وقت کی پنجاب حکومت نے اور جو صاحب ان تصویروں کو اہتمام سے شائع کروانے کی خدمت سر انجام دیتے تھے وہ آج بھی سرکاری ملازمت کے اختتام کے بعد شہباز شریف کے پریس سیکرٹری ہیں۔ نون لیگ کی اپنی سیاسی تاریخ یہ ہے کہ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کے لئے لاہور سے لائے گئے متوالوں کو راولپنڈی کے پنجاب ہاؤس میں قیام و طعام کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس سید سجاد علی شاہ حملہ آوروں سے جان بچاکر کمرہ عدالت سے کیسے نکلے یہ کوئی راز ہر گز نہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  بجٹ سیاپا

بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ پانامہ کیس کے دوران حدیبیہ مل کا قصہ د وبارہ کھلنے اور اسحاق ڈار والے بیان حلفی پر سوال اٹھنے کے ساتھ منی لانڈرنگ کیس کے تن مردہ میں پڑتی جان لیگی قیادت کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکے۔ لیگی قیادت ہر حال میں سیاسی شہادت کی آرزو مند ہے۔ یہ آرزو پوری ہوتی ہے یا نہیں مگر ایک بات طے ہے کہ جناب شہباز شریف کی اچانک مولا جٹ برانڈ انٹری کی وجہ یہ ہے کہ اگر حدیبیہ مل والا قصہ مزید آگے چلتاہے تو خادم اعلیٰ براہ راست اس کی زد میں آتے ہیں۔ شریف خاندان نے لندن میں ایک بنک سے مالی تنازعہ پر جو فلیٹ بنک کے سامنے سرنڈر کئے تھے ان کی واگزاری کے انتظامات میں جناب شہباز شریف کا بنیادی کردار ہے۔ مقدمہ اگر منی لانڈرنگ کی بنیاد پر چلتا ہے تو اس کی زد میں وہ بھی آئیں گے اسی لئے وہ چپ کا روزہ توڑنے پر مجبور ہوئے۔ شہباز شریف کے اس بیان سے اس امر کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ شریف خاندان رخصتی کے لئے 1993ء والی صورتحال کا متمنی ہے جب صدر اسحاق ان کے ساتھ رخصت ہوئے یا پھر دسمبر 2000ء کی طرح جب معافی نامہ لکھ کر مقدمات معاف کروائے اور ملک سے چلے گئے۔ اب بھی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عدالتی عمل اپنی سمت بڑھتا رہا تو اس میں سیاسی موت کے امکانات زیادہ ہیں۔ سیاسی موت سے سیاسی شہادت زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس سے واپسی کے دروازے بند نہیں ہوتے۔ مگر کیا سپریم کورٹ اورجے آئی ٹی کو متنازعہ بنا کر شریف خاندان اور نون لیگ اس درخت کی جڑیں نہیں کاٹ رہے جس کے نیچے بیٹھے ہیں؟۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ 5جون کی شام کے فیصلے پرمرحلہ وار عمل شروع ہوچکا اب یہ حزب اختلاف پر منحصر ہے کہ وہ نون لیگ کی سازش کو کامیاب ہونے دیتی ہے یا نظام انصاف کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوتی ہے؟۔

یہ بھی پڑھئے:  کابل سے ہرات تک بہتا لہو | حیدر جاوید سید

حالیہ بلاگ پوسٹس