مبنی بر انصاف ایک عدالتی فیصلے کے بعد جس طرح ایک متشدد تنظیم کے کارکنوں نے ملک بھر میں افراتفری پیدا کر رکھی ہے اور تنظیم کے لیڈران عوام اور اداروں کو بغاوت پر اکسا نے میں مصروف ہیں ، اس کے جواب میں حکومت کا تحمل اور امن و امان برقرار رکھنے کی اپیلیں قابلِ ستائش ہیں۔ اپنے معروضی حالات اور ناخواندگی سے خوف و لالچ کا کاروبار کرتے ملاؤں کو مقدسات کے تقدس اور اسلامی تعلیمات سے زیادہ اپنی فہم کی تعبیرات اور انانیت عزیز ہے۔ پچھلے دو دنوں سے ملک بھر میں عموماََ اور پنجاب میں خصوصی طور پر کاروباری مذہبی رہنماؤں کے اشتعال انگیز خطابات سے مشتعل ہوئے ان کے پیروکاروں نے جو طوفان بدتمیزی برپا کررکھا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ کڑوی حقیقت یہی ہے کہ ناخواندگی اورا س کی کوکھ سے جنم لینے والی اندھی تقلید سے ہی خوف و لالچ کا کاروبار دوام حاصل کرتا ہے۔
ملک بھر میں جب کبھی کسی مذہبی طبقے یا انتہا پسند تنظیم کے سرکردہ لوگوں کی طرف سے بگاڑ پیدا کیا جاتا ہے تو سنجیدہ فہم حلقے یہ سوال ضرور دریافت کرتے ہیں کہ آخر حکومت امن و امان سے کھیلنے والے شرپسند وں کے خلاف بروقت قانون کے مطابق کارروائی کرنے میں ناکا م کیوں رہتی ہے! ۔ موجودہ حالات میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ دو دن قبل جب لاہور کے مختلف اہم مقامات پر چند درجن لوگ امن و امان کو خراب کرنے کی ابتداء کر رہے تھے تو اس وقت ان کے خلاف کارروائی کرنے میں کیا امر مانع تھا؟ اور کیوں ان شرپسندوں کو ڈھیل دی گئی؟ اطلاعاتی اداروں کی اپنی مجبوریاں اور دیگر معاملات ہیں مگر سامنے کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ شرپسند آبادی میں سب سے بڑے صوبے کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ ختم نبوت ﷺ کی من پسند تعبیر کو قانون کی حاکمیت پر مسلط کرنے کے جنون سے پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے شہریوں کو جن مسائل کا سامنا ہے ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ سماجی رابطوں کی سائٹس پر عام طبقات سے تعلق رکھنے والے شہری جن مشکلات و مصائب کا ذکر کر رہے ہیں ان سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایک محنت کش کی صاحبزادی نے سماجی رابطے کی سائٹ کے ذریعے پیغام دیا کہ ’’ میرے والد کو تین دن سے مزدوری نہیں ملی، پچھلے 36 گھنٹوں سے ہمارے گھر میں فاقہ ہے‘‘ اپنے اندھے مقلدین کو گلیوں اور سڑکوں پر شرپھیلانے کے لیے لائے رہنماؤں کو اس سوال کا جواب ضرور دینا چاہیے کہ جس غریب محنت کش کے گھر میں ان کے ہنگاموں کی وجہ سے 36 گھنٹے سے بھوک ناچ رہی ہے اسے کس جرم کی سزا دی گئی ہے؟
وقت آگیا ہے کہ اب خوف و لالچ کا کاروبار کرنے والے مذہبی تاجروں کے کاروبار کو ختم کروانے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائے جائیں۔ ناخواندگی اور اندھی تقلید ہر دو کا خاتمہ فروغ علم سے ممکن ہے۔ بہت ضروری ہے کہ تعلیم کے حصول کو لازمی قرار دیتے ہوئے کم از کم بارہویں جماعت تک کے تعلیمی اخراجات ریاست اٹھائے اوراس کے لیے طریقہ کار بھی وضع کیا جاسکتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سہولتیں عام طبقات تک پہنچ سکیں۔ ثانیاََ یہ کہ حکومت کسی دباؤ میں آئے بغیر مذہبی مدارس کے نظام ہائے تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کروائے۔
جس معاملے کو بنیاد بنا کر پچھلے تین دن سے احتجاج اور توڑ پھوڑ جاری ہے اس حوالے سے یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ مقدسات کی توہین کے مقدمات کے اندراج سے قبل سیشن جج، ڈی سی او اور ڈی پی او پر مشتمل کمیٹی پوری طرح تسلی کرے کہ الزام درست ہے یا غلط۔ من گھڑت الزام کی صورت میں الزام لگانے والے پر اسی قانون کے تحت پرچہ درج ہونا چاہیے۔
قانون کی بالادستی کو سڑکوں اور گلیوں میں للکارتے قانون شکن کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ پچھلے تین دنوں کے دوران بلوائیوں کے ہاتھوں جتنی بھی املاک کو نقصان پہنچا اس نقصان کے ازالے کے لیے بلوائیوں اور ان کے لیڈران کی جائیدادیں ضبط کر کے متاثرہ شہریوں کے نقصان کی بھرپائی کی جائے۔ ثانیاََ یہ کہ فوج اور دیگر اداروں میں بغاوت کی اپیلیں کرنے والوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل کے تحت مقدمات درج کروائے جائیں۔
قابل ستائش بات یہ ہے کہ اپوزیشن کے سنجیدہ حلقوں نے عدالتی فیصلے کو اپنی سیاست کی غذا بنانے کی بجائے قانون کی حاکمیت کے لیے حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ البتہ ایم ایم اے نامی فرقہ پرستوں کے اتحاد نے اس صورتحال سے اپنے کاروبار کے لیے فائدہ اٹھانے کی جو بھونڈی کوشش کی وہ شرمناک حد تک قابل مذمت ہے۔ اصولی طور پر اس موقع پر حکومت اور قانون و انصاف کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے تاکہ شرپسندوں کے عزائم پورے نہ ہوں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn