رستم ہند گاماں پہلوان کی نواسی اور سابق خاتون اول محترمہ کلثوم نواز انتقال کرگئیں۔ پچھلے سال بھر سے وہ کینسر جیسے موذی مرض سے لڑ رہی تھیں۔ لندن کے ہسپتال میں زیر علاج بیگم کلثوم نواز کو خالق حقیقی کی طرف سے عطا کردہ سانس ختم ہوئے اور وہ اپنے رب کے حضور روانہ ہوگئیں۔
جناب نواز شریف‘ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو مرحومہ کی آخری رسومات میں شرکت کے لئے اڈیالہ جیل سے پیرول پر رہا کرکے خصوصی طیارے میں لاہور پہنچایاگیا۔ ان کی پیرول پر رہائی شہباز شریف کی طرف سے دی گئی درخواست پر عمل میں لائی گئی۔ پچھلے 48گھنٹوں سے سوشل میڈیا پر گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔ نئے اور پرانے پاکستان والوں کے درمیان ہوتے جملوں کے تبادلوں پر کئیوں نے منہ چھپا لئے۔
بنجر سماج کا المیہ یہی ہے کہ مرنے والے کی عاقبت کے فیصلے بندے کرنے لگتے ہیں۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے نئی نسل کی اس اٹھان اور بد تمیزی و سماجی روایات کے روندے جانے پردل گرفتہ ہوں۔
دور کی کوڑیاں لاتے ہوئے لوگوں کو کون سمجھائے کہ زندہ شعور کا مظاہرہ نہ کرنے والے تاریخ کے کوڑے دان کا رزق بنتے ہیں۔
بیگم کلثوم نواز تین بار خاتون اول بنیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ ان کے شوہر نواز شریف تینوں بار کرپشن کے الزامات پر ایوان اقتدار سے نکالے گئے۔
اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تو بعد کے بدترین حالات میں انہوں نے اپنی جماعت کی قیادت کی۔ ان کی گرفتاری اور پھر نظر بندی کے دوران اس تحریر نویس کو ماڈل ٹائون میں ان کی اقامت گاہ پہنچ کر ان کا انٹرویو کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ وہ تاریخی انٹرویو ایک معاصر اخبار سمیت متعدد ملکی و عالمی جریدوں میں شائع ہوا۔ اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد ریاستی اداروں کی کڑوی کسیلی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
گاماں پہلوان کی نواسی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مشرقی روایات کی امین خاتون تھیں۔ ان کے شوہر کی سیاست‘ انتظامی صلاحیتوں اور دیگر حکومتی و سیاسی امور پر بحث و تنقید کل کی طرح آج بھی بجا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
ان سطور کے لکھے جانے کا مقصد یہ ہے کہ کسی مرنے والے کے جہنمی یا جنتی ہونے کا فیصلہ وہ کرنے لگ جاتے ہیں جنہیں خود اپنے گھروں میں کسی اہم مشاورت میں شریک نہیں کیاجاتا بلکہ مشاورت کے چند خاص مواقع پر انہیں کمروں سے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔
کچھ عزیز سانحہ ماڈل ٹائون کا تذکرہ لے بیٹھے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ محترمہ کلثوم نواز کی رحلت سے سانحہ ماڈل ٹائون کی سنگینی کیسے کم ہوئی یا وہ اس کی براہ راست ذمہ دار تھیں؟
سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد شریف خاندان کے جو سات افراد جناب طاہر القادری کے گھر گئے تھے ان میں میاں نواز شریف کی والدہ محترمہ اور بیگم کلثوم نواز بھی شامل تھیں۔ اس ملاقات کے مقصد اور ملاقات میں ہوئی گفتگو اصرار و انکار بارے ان سطور میں انہی دنوں تفصیلی عرض کر چکا۔
سو یہ منطق درست نہیں ہے کہ چونکہ انہوں نے سانحہ ماڈل ٹائون کی تعزیت نہیں کی لہٰذا ان کے انتقال پر تعزیت کرنے والے منافق ہیں۔
غم گساری کے ان لمحوں میں دوسرا موضوع چھیڑنا درست نہیں ہوگا ورنہ عرض کرنے کو بہت کچھ ہے۔
دو ہزار دو میں جب میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم کلثوم نواز کے تعزیتی خطوط بیرون ملک سے موصول ہوئے تھے۔ ان سطور کے لکھنے کا مقصد کوئی تعزیتی قرض چکانا نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ اگر ہم مذہب و عقیدوں کو چند ساعتوں کے لئے طاق پر بھی رکھ دیں تو ہمارے تبدیلی والے دوست اور جناب طاہر القادری کے بپھرے ہوئے منہاجی جو کہہ لکھ رہے ہیں وہ ہماری سماجی روایات سے یکسر متصادم ہے۔ بشری کمزوریاں کس میں نہیں ہوتیں۔ ایسا کون ہے جو اس عہد نفساں میں کامل انسان ہونے کا دعویٰ کرے؟
بسا اوقات رشتے مجبوریاں اور زنجیر بنتے ہیں۔
یہ سارے جھمیلے زندگی کے ہیں۔
سفر حیات مکمل کر کے جو اپنے رب کے حضور روانہ ہوا اس کے اعمال ساتھ گئے۔ اس لئے خدائی اختیارات سنبھالے ہوئے لشکریوں کی خدمت میں یہی عرض کیاجاسکتا ہے کہ قدرت اور قانون کے اپنے انداز ہیں۔
ان کے صاحبزادے کرپشن کے مقدمات میں ملزم ہیں اس جرم سے بڑی سزا یہ ہے کہ وہ اپنی جنم بھومی میں اپنی والدہ مرحومہ کی آخری رسومات میں شرکت کرسکے نہ ماں کو قبر میں اتارنے کے بیٹوں کا حق پورا کرسکے ہیں۔
مناسب ہوتا اگر حکومت یہ اعلان کردیتی کہ مرحومہ کے صاحبزادگان کو والدہ کی میت کے ساتھ وطن واپسی پر گرفتار نہیں کیا جائے گا اور مقررہ مدت میں وہ اپنے وکلاء کے ذریعے عدالتوں سے ضمانتیں حاصل کرلیں۔
یہ جہان رنگ بو مستقل قیام کی جگہ کبھی تھی ہے نہ ہوگی۔ سانسوں کی ڈور کا محتاج آدمی تو یہ بھی نہیں جانتا کہ زندگی کی پتنگ کتنی اونچی اڑ سکتی ہے اور ڈور کب کٹ جائے۔
مکرر عرض ہے مرحومہ کے شوہر نواز شریف کی سیاست‘ طرز حکمرانی اور کرپشن کہانیوں پر بحثیں اٹھانے کے لئے بہت وقت پڑا ہے۔ سیاسی مخالفت اگر نفرت و تعصب کی جگہ لے لے تو بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
ویسے سنگین الزامات کی زد میں آئے ہوئے درجن بھر سے زیادہ افراد تحریک انصاف کی بدولت مختلف عہدوں پر فائز ہیں۔ خود نو منتخب صدر مملکت پی ٹی وی حملہ کیس میں نامزد ملزم ہیں۔
اپنی بات آسمانی ہدایت اور دوسرے کی جہنم کا ایندھن والی منطق درست نہیں۔
ہمیں اپنی سماجی روایات کو جوتے مارنے سے گریز کرنا ہوگا ورنہ آنے والے دنوں میں بہت سارے لوگوں کو اپنے پیاروں کی آخری رسومات کے لئے دیہاڑی دار مزدوروں کی خدمات لینا پڑیں گی۔
اللہ تعالیٰ مرحومہ کی لغزشیں معاف فرمائے۔ کائنات کے عادلین کا عادل ہی جانتا ہے کہ کس سے کیا معاملہ کرنا ہے۔ زبانوں اور جملوں کو تلواریں بنا کر زندگی بسر نہیں ہوتی کاش ہم اس ابدی سچائی کو سمجھ سکتے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn