اصل موضوع پر بات کرتے ہیں مگر پہلے ایک لطیفہ اور ایک المیہ جان لیجئے۔ لطیفہ یہ ہے کہ ایک منشی برانڈ رپورٹر نے خبر فائل کی ”حسین نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر نئی مثال قائم کی۔ وزیراعظم کے صاحبزادے نے عام لوگوں پر مبنی تحقیقاتی کمیٹی کے سخت سوالات کے جواب دیئے“۔ رپورٹری پر قربان اور نیوزایڈیٹر کو سوا دوسو توپوں کی سلامی لیکن جب میڈیا ہاؤس کا مالک اپنے وسیع تر مفاد میں سرخ کو پیلا اور کالے کو سفید کرکے پیش کرنے کا حکم دے تو پھر ملازمین کی کیا مجال ہے۔ جس رپورٹر کی یہ خبر ہے وہ پیراشوٹر برانڈ صحافی نہیں۔ درمیانی عمر کے سینئرز میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ وزیراعظم کا بیٹا ہونا کیا آسمانی نمائندہ ہونا ہے؟ تحقیقاتی کمیٹی میں اپنے اپنے شعبہ کے ماہرین شامل ہیں۔ حسین نواز کی دو شہرتیں ہیں اوّلاً وزیراعظم کا بیٹا ہونا اور ثانیاً لوٹ مار کی دولت کا مالک۔ چلیں لوٹ مار ابھی کچھ لوگوں کے نزدیک الزام ہے ہم بھی ان کی دلجوئی کے لئے مان لیتے ہیں لیکن اﷲجانے یہ کیوں محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ رپورٹر نے مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل کی مقدس تخلیق کو خبر کی صورت دی۔ ایک بات اور وہ یہ ہے کہ اس خبر نے ثابت کردیا ہے کہ سامراجی اشرافیہ کے لئے رعایا کیڑے مکوڑے ہیں اور ادارے باورچی خانے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ کون سی نئی مثال رقم ہوئی؟ تحقیقاتی کمیٹی عام لوگوں پر مشتمل ہے تو سپریم کورٹ میں درخواست دیجئے دو فرشتوں تین عربیوں اور ایک گورے کے ساتھ ایک افریقی پر مشتمل نئی تحقیقاتی کمیٹی بنادے تاکہ شہزادہ عالم خاص لوگوں کے سامنے پیش ہوں تو شوگرلیول ڈاؤن نہ ہو۔ المیہ یہ ہے کہ چند دن قبل اسلام آباد میں ”میثاق مدینہ کی روشنی میں معاشرے کی تشکیل“ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار کے بعد مختلف مکاتب فکر کے 31 علماءکرام نے اسلام اور امن دشمنوں کے خلاف جو فتویٰ جاری کیا طالبان کے اباجی حضرت مولانا سمیع الحق نے اسے یکسر مسترد کردیا ہے۔ اس فتوے بارے لال مسجد کے مولوی عبدالعزیز نے جو پیغام ہوا کے دوش پر رکھا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں البتہ جناب سمیع الحق ایک مسلک کی سیاسی جماعت کے اپنے ذاتی دھڑے کے سربراہ ہیں۔ میڈم طاہرہ‘ سینڈوچ اور چند دوسرے معاملات بصدِادب عرض کئے جاسکتے ہیں لیکن فائدہ کڑوا سچ یہ ہے کہ اگر مولانا سمیع الحق اس فتوے کی تائید کرتے ہیں تو وہ گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سینہ ٹھوک کر طالبان اور دوسرے عسکریت پسندوں کی پشت پر کھڑے ہوئے اور آج بھی وہ تکفیر و عسکریت پسندی کے سب سے بڑے محافظ ہیں۔
اب آئیے اصل موضوع کی طرف۔ مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا سیل کا دعویٰ ہے کہ جب آصف زرداری سینما پر ٹکٹیں بلیک کرتا تھا نوازشریف کے والد کی دبئی میں فیکٹری تھی۔ جناب زرداری سے بلیک میں ٹکٹیں شریف فیملی کے کسی رکن نے لازماً خریدی ہوں گی بلاوجہ تو دعویٰ نہیں کیا البتہ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ جب میاں نوازشریف کے والد مرحوم اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لئے وزارت صنعت سے (یہ 1950ءکی دہائی کا قصہ ہے) 22/25ہزار کے دو قرضوں کے اجراءکی درخواستیں جمع کروا رہے تھے زرداری کے والد حاکم علی زرداری کراچی کے تین سینماؤں کے ساتھ نواب شاہ میں 750ایکڑ اراضی اور کراچی میں ہی ایک تعمیراتی کمپنی کے مالک تھے۔ جہاں تک عمران خان کے والد کی 500روپے ماہوار ملازمت اور شریف خاندان کی دولت و ثروت کے موازنے کی کوشش ہے تو یہاں بھی نون لیگ کا میڈیا سیل مار کھا گیا۔ عمران خان کے والد کو ان کی جالندھر والی اراضی اور جائیداد کے بدلے میں 1948ءمیں پاکستان (اس وقت ضلع ملتان اب ضلع خانیوال میں) جو زرعی اراضی الاٹ ہوئی وہ ریلوے روڈ لاہور میں اس وقت واقع اتفاق فونڈری سے کئی گنا زیادہ قیمتی تھی۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں نون لیگ کے میڈیا سیل کو یہ ہی معلوم کرلینا چاہیے کہ جب 1972ءمیں جب دوسری فیکٹریوں کے ساتھ اتفاق فونڈری قومی تحویل میں گئی تھی تو میاں محمد اظہر آف لاہور کے والد اور میاں زاہد سرفراز آف فیصل آباد کے والد دونوں نے اپنے مشترکہ دوست میاں محمدشریف کو پھر سے کاروباری دنیا میں قدم جمانے کے لئے کتنی رقم دی تھی؟ پاکستان بننے سے قبل کی دولت و ثروت اور ٹیکس گزاری کے جھوٹے قصے پتہ نہیں کیوں پھیلائے جارہے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ میاں محمد رمضان سب سے پہلے جاتی امراءضلع امرتسر سے محنت مزدوری کے لئے لاہور آئے۔ یہ 1935ءکے بعد کی بات ہے۔ انہوں نے ہی پہلے اپنے بڑے بیٹے میاں شریف کو لاہور بلوایا اور وہ ریلوے روڈ پر واقع ایک بھٹی میں ملازم ہوئے۔ یہ ”فونڈری“ 1946ءمیں غالباً ہندو مالک سے خریدی گئی یا 1947ءکے اوائل میں۔ غربت سے امارت تک کا سفر کوئی بری بات نہیں دنیا میں بہت سارے بڑے مالدار لوگوں نے ایک عام محنت کش کے طور پر عملی زندگی کا آغاز کیا۔
میاں شریف کی عملی زندگی ایک مزدور کی حیثیت سے شروع ہوئی۔ پھر اپنے ہندو مالک کی بھٹی خرید کر وہ سیٹھ بنے۔ کاروبار نے ترقی کی۔ معمولی سی بھٹی آگے چل کر اتفاق فونڈری بنی۔ یہ سفر قابل ستائش ہے اس پر قدیم امارت کی چادر چڑھاکر کچھ نہیں ملنا۔ جس دولت و ثروت بارے کہا جارہا ہے کہ وہ لوٹ مار کا مال ہے اس کا سفر 1984ءسے شروع ہوا۔ یہاں 1979ءمیں جنرل ضیاءالحق کی جانب سے میاں شریف کو اتفاق فونڈری واپس کرنے کے تذکرے کی ضرورت ہرگز نہیں۔ پھر بھی دو باتیں عرض کئے دیتا ہوں اوّلاً یہ کہ نوازشریف قومی اتحاد میں شامل تحریک استقلال کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن اور پارٹی کے سب سے بڑے فنانسر تھے۔ تحریک استقلال نے قومی اتحاد کی سیاسی سرگرمیوں کے لئے دوسری پارٹیوں کی طرح مشترکہ مالیاتی نظام میں جو حصہ ڈالا اس میں 90فیصد دولت میاں شریف کی فراہم کردہ تھی اور 10فیصد جناب محمود علی قصوری کی۔ قصوری صاحب اس وقت تحریک استقلال کے سیکرٹری جنرل تھے۔ بھٹو مخالف تحریک سے مالیاتی تعاون کے انعام میں اتفاق فونڈری واپس ملی اور چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کے خصوصی حکم پر بینکوں نے اتفاق فونڈری کے ذمہ 9کروڑ روپے سے زیادہ کے قرضے رائٹ آف کردیئے۔ سوال ہمیشہ یہ اٹھایا گیا کہ 1984ءمیں جب نوازشریف جنرل جیلانی کی کابینہ میں پنجاب کے وزیرخزانہ نامزد ہوئے اس وقت ان کی صنعتی ایمپائر کی مالیاتی حیثیت کیا تھی؟ اور آج وہ مالی حیثیت میں کہاں کھڑے ہیں؟ شریف فیملی کا اصل المیہ یہ ہے کہ وہ آئینے میں اپنی ہی صورت دیکھ کر پریشان ہوجاتی ہے۔ یہ حقیقت نوازشریف بھی جانتے ہیں کہ اگر بھٹو صاحب سے ان کے والد کی نفرت ان کے خاندان کو جرنیلوں کے قریب نہ لے جاتی تو انہیں آج کوئی جانتا بھی نہ۔ یہ جناب نوازشریف کی مہربانی (طالب علم اسے ظلم عظیم سمجھتا ہے) ہے کہ انہوں نے سیاست کو کاروبار بنادیا۔ کرپشن بذریعہ اقتدار کے بانی بہرطور نوازشریف ہی ہیں اور ان سے یہ اعزاز کوئی نہیں چھین سکتا۔ ان کے محبین کو حق ہے کہ وہ مخالفوں کے بارے پروپیگنڈہ کریں۔ یہ بھی کہیں اگر ہم چور ہیں تو دوسرے چور نہیں؟ مگر اس میں بھی چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ایک صحافی کی حیثیت سے میں نہ تو جناب زرداری کا ترجمان ہوں نہ ہی عمران خان کا وکیل صفائی۔ جناب زرداری اس ناچیز سے آج تک اس خبر پر ناراض ہیں جو ان کے داداجان کی حاکم علی زرداری (آصف زرداری کے والد مرحوم) کے بارے وصیت کے حوالے سے تھی۔ مرحوم (زرداری کے دادا جان) نے زندگی کے آخری چند برس کیٹی جتوئی میں بسر کئے تھے رئیس غلام مصطفی جتوئی کی میزبانی میں کیونکہ وہ اپنے بیٹے حاکم زرداری سے ناراض تھے۔ نون لیگ کے میڈیا سیل کے بھونپوؤں کو پیپلزپارٹی بارے ریکارڈ بھی درست کرلینا چاہیے۔ پیپلزپارٹی لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی قیام گاہ پر منعقدہ ایک ورکرز کنونشن میں قائم ہوئی تھی۔ 1985ءکی غیرجماعتی اسمبلی کو اس وقت مارشل لاءمخالف جمہوریت پسند جنرل ضیاءالحق کا بیڈروم کہا کرتے تھے۔ موجودہ مسلم لیگ اس غیرجماعتی اسمبلی یعنی جرنیلی بیڈروم میں بنی اور یہ بھی کہ بھٹو کو ایوب خان سیاست میں نہیں لائے بلکہ بھٹو پہلی بار سکندر مرزا کی کابینہ میں وفاقی وزیر بنے اسی کابینہ میں ایوب خان وزیردفاع تھے جو آگے چل کر اپنے محسن کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے اور بقول مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ ”خودساختہ فیلڈ مارشل بن گئے“۔ پیارے نونیوں! تاریخ بڑی بے رحم چیز ہے پروپیگنڈے اور تاریخ کا فرق سمجھنے کی کوشش کرو۔
بشکریہ روزنامہ خبریں ملتان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn