Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

ترقی یافتہ، کمیشن فری اور پڑھالکھا پنجاب | حیدر جاوید سید

قرض کی پیتے، کھاتے، اوڑھتے اور چونا لگاتے سیاستدان جب یہ کہتے ہیں کہ ”وہ دن ضرور آئے گا جب کشکول ٹوٹے گا“ تو ہنسی رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ترقی یافتہ بلکہ امریکہ بننے کی دوڑ میں بھاگتے تخت پنجاب کی حالت یہ ہے کہ جنرل پرویزمشرف کے بلدیاتی نظام میں پرانے بلدیاتی اداروں کے سکولز ضلعی حکومتوں کی معرفت محکمہ تعلیم کے حوالے کردیئے گئے۔ اس دوران 2003ءسے 2008ءکے درمیان ان سکولوں کی ملازمت سے سبکدوش ہونے والوں کےلئے مسائل پیدا نہ ہوئے مگر جونہی 2008ءمیں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اقتدار سنبھالا بلدیاتی اداروں کے سابق سکولوں کے ملازمین کو سبکدوشی پر مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے مرحلہ پر 2010ءسے سبکدوش ہونے والے اساتذہ اور معلمات کو پنشن گریجوایٹی کے بقایاجات ریٹائرمنٹ پر دینے کے بجائے ایک پرچی تھما دی جاتی تھی کہ جب آپ کا نمبر آئے گا تو پنشن وغیرہ کے معاملات حل ہوں گے۔ پھر کچھ ریٹائرڈ اساتذہ نے عدالتوں کا رُخ کیا تو بلدیاتی اداروں کا موقف تھا ہمارے پاس فنڈز نہیں اس لئے ہم نے پنشنروں کی میرٹ لسٹ بنادی ہے۔ ہرماہ ایک دو یا فنڈز کے حساب سے بقایاجات ادا کرنے کے ساتھ پنشن شروع کردیتے ہیں۔ اس دوران پنجاب کے درجنوں بڑے بلدیاتی اداروں کے مخصوص فنڈز نکلواکر بھاڑے کی ترقی میں جھونک دیئے گئے۔ بعض اداروں میں ملازمین کی پنشن گریجوایٹی کی جو رقوم مالیاتی اداروں میں فکس ریٹ پر جمع تھیں وہ بھی نکلواکر نام نہاد منصوبوں پر خرچ کردی گئیں۔ اب جنوری 2017ءمیں جب نئے بلدیاتی ادارے معرض وجود میں آئے تو نئے چیئرمینوں اور ٹی ایم اوز نے پنشنوں کی ادائیگی عمومی اور سابق سکولوں کے پنشنرز کی پنشن خصوصی طور پر بند کردی۔ نئے نظام کو چلانے والے پہلے کہتے تھے کہ فنڈز دستیاب نہیں۔ جب سابق ضلعی حکومتوں کی طرف سے بلدیاتی اداروں کے فنڈز مرحلہ وار منتقل ہونا شروع ہوئے تو بلدیاتی اداروں کے سابق سکولوں کے ریٹائر اساتذہ سے کہا گیاکہ چونکہ مشرف دور میں آپ کے ادارے محکمہ تعلیم کے پاس چلے گئے تھے اس لئے مالی معاملات بھی ان کے ذمہ ہیں۔ محکمہ تعلیم کے ذمہ داران کو سابق بلدیاتی سکولوں کی کمائی سے دلچسپی ہے۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کے سابق سکولز کے ریٹائرڈ اساتذہ کے ایک طبقے (جو 2009ءسے ریٹائر ہوئے) کی اکثریت کو پنشن گریجوایٹی ہی نہیں ملی ماہانہ پنشن تو بہت دور کی بات ہے البتہ 2009ءسے قبل ریٹائر ہونے والے جن اساتذہ کو پنشن مل رہی تھی یکم جنوری 2017ءسے وہ بند کردی گئی۔ زندگی بھر نور علم پھیلانے والے بلدیاتی اداروں کے سابق مرد و زن اساتذہ کرام بلدیاتی اداروں اور محکمہ تعلیم کے درمیان فٹ بال بنے ہوئے ہیں۔ پنجاب کی ترقی کا شور مچائے حکمرانوں کے پاس اللوں تللوں پر اڑانے کے لئے اربوں روپے ہیں کمیشن کھانے کے لئے قوم پر قرضوں کا بوجھ بڑھا رہے ہیں مگر پنجاب کے چند ہزار ان اساتذہ کو پنشن گریجوایٹی اور ماہانہ پنشن دینے کے لئے فنڈز نہیں۔ فنڈز ہیں تو وزیروں، مشیروں اور دیگر لاڈلوں کے لئے کروڑوں روپے کی نئی گاڑیاں خریدنے کے لئے ہیں۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ حال ہی میں پنشنرز کے ایک مقدمہ میں پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل نے سپریم کورٹ میں کہاکہ پنجاب میں تو کسی ایک پنشنر کو حکومت سے شکایت نہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  سندھ کی سیاست میں آئی گرما گرمی

تصور کیجئے جن لوگوں نے زندگی کے 25، 30سال فروغِ علم کے لئے خدمات سرانجام دیں ان کا ایک بڑا طبقہ لگ بھگ آٹھ برسوں سے اپنی پنشن کے واجبات کی وصولی کے لئے لائن میں لگا ہوا ہے اور ایک طبقہ پچھلے پانچ ماہ سے پنشن سے محروم ہے۔ بدترین مہنگائی کے اس دور میں جس پنشنرز کا پنشن کے علاوہ کوئی ذریعہ آمدنی نہ ہو اس کے حالات کیا ہوں گے یہ متاثرہ پنشنر ہی جانتا ہے۔ ساعت بھر کے لئے ایک لطیفہ سن لیجئے ویسے یہ حقیقی واقعہ ہے۔ پچھلے سال رمضان المبارک میں سستا بازار لگانے کے لئے پنجاب بھر میں اضلاع کی انتظامیہ نے ٹینٹ وغیرہ کرائے پر حاصل کئے۔ فقط بلدیہ شیخوپورہ کی حدود میں لگائے گئے تین رمضان بازاروں کے لئے حاصل کردہ ٹینٹوں کا کرایہ ایک کروڑ تیس لاکھ روپے ادا ہوا۔ پورے ضلع میں لگے رمضان بازاروں پر محض ٹینٹوں کے کرایوں کی مد میں 6کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم خرچ ہوئی۔ اگر یہ ٹینٹ مستقل طور پر خرید لئے جاتے تو غالباً ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ ہونے تھے مگر مسئلہ تو سالانہ بنیادوں پر مبارک مہینے میں عیدی کمیشن کا ہے۔ یہ ایک ضلع کی حالت ہے پنجاب کے باقی اضلاع سے رمضان بازاروں کے اخراجات کی رپورٹ نکلواکر دیکھ لیجئے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ چند دن قبل پنجاب حکومت کے فروغ تعلیم پروگرام کے حوالے سے ضلعی سطح پر محکمہ تعلیم کے لئے ایڈوائزری اتھارٹیاں قائم کرنے کے لئے پنجاب بھر کے اضلاع سے منتخب سابق سینئر اساتذہ کو ڈویژن وائز لاہور میں انٹرویو کے لئے بلایا گیا۔ 22مئی کو ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ لاہور میں عالی جناب رانا مشہود (وزیرتعلیم) اور سیکرٹری تعلیم نے دربار لگانا تھا۔ 10بجے صبح بلائے جانے والے لاہور ڈویژن کے چاروں اضلاع سے آئے ان بزرگ اساتذہ کرام کو 2بجے تک انتظار میں بٹھائے رکھا گیا۔ دو بجے کے بعد باری باری ہر ضلع سے تشریف لائے اساتذہ کو ایک ایڈیشنل سیکرٹری نے دیدار عام کروایا اور دولفظی ارشاد کیا ”آپ کا شکریہ۔ وزیراعلیٰ فروغ تعلیم کے لئے بہت سنجیدہ ہیں۔ آج کا انٹرویو ملتوی کردیا گیا ہے آپ کو پھر زحمت دیں گے“۔ 10بجے صبح سے شدید گرمی میں بیٹھے اساتذہ کو کسی نے ایک گلاس پانی تک مہیا نہ کیا مگر پونے تین بجے جب مختصر دربار تمام ہوا تو ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ کے کمیٹی روم میں افسرشاہی کے لئے پُرتکلف کھانے کا اہتمام تھا۔ یہ ہے ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے پنجاب کا اصل چہرہ۔

یہ بھی پڑھئے:  مذاکرات کے دروازے بند نہ کیجئے

دو تین مثالیں عرض کی ہیں۔ چند دن قبل جب وزیراعظم سندھ کے ایک جلسہ میں کہہ رہے تھے کہ جس نے ترقی دیکھنی ہوتو لاہور آکر دیکھے۔ رحیم یارخان، مظفرگڑھ، کوٹ ادو، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے سینکڑوں افراد نے سوشل میڈیا پر لکھا وزیراعظم کہتے ہیں ترقی دیکھنی ہے تو لاہور آکر دیکھو مگر ہم تو مظفرگڑھ، کوٹ ادو، رحیم یارخان، سکھر، ڈی جی خان، ڈیرہ اسماعیل خان، سوات یا بنوں میں رہتے ہیں تو ایک دوست کی پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوئے عرض کیا تھا بلاشبہ لاہور نے بہت ترقی کی ہے۔ میٹرو کا ماہوار خسارہ پنجاب بھر کے وہ لوگ بھی ادا کریں گے جو کبھی اس میں سوار نہیں ہوئے۔ ویسے ترقی یافتہ لاہور میں دس سے پندرہ منٹ کا سفر پون سے گھنٹہ بھر میں ایک کلو مٹی پھانک کر طے ہوتا ہے۔ صاف سیدھے لفظوں میں اگر یہ کہوں کہ پنجاب کی اور بالخصوص لاہور کی ترقی کی حقیقت فلمی اداکارہ کے میک اَپ جیسی ہے تو یہ غلط نہیں۔ ہمارے لیگی دوست کہتے ہیں ترقی کی قیمت تو ادا کرنا پڑتی ہے۔ جی بالکل درست بات ہے مگر ایسی ترقی کا کیا کریں گے جس کا مالی فائدہ چند خاندانوں کو اور خسارہ پورے پنجاب کا مشترکہ؟ کالم میں عرض کئے گئے تین چار واقعات بظاہر عام نوعیت کے ہیں۔ ہمارے حکمران اور خصوصاً شریف خاندان چونکہ عالمی سطح پر پاکستان کا مقام بنانے میں مصروف ہیں اس لئے ان سے شکوہ بنتا نہیں۔ مثال کے طور پر چند روز قبل لاہور کو لوڈشیڈنگ سے استثنیٰ دینے کو کہا گیا گو اس پر عمل نہیں ہوا مگر یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ صرف لاہور کیوں؟ پنجاب بھر اور خود لاہور کے مضافات کے وہ علاقے جہاں دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ برسوں سے معمول ہے ان کا کیا قصور ہے۔ کیا یہ لوگ بجلی کے بل اور اس میں نصف درجن قسم کے ٹیکس نہیں دیتے؟ مگر جو حکومت پرویزالٰہی دور کے سواکھرب کے میٹروٹرین (زیرزمین) والے منصوبے کو نئے انداز سے چار کھرب میں مکمل کرنے کو حب الوطنی اور دیانت کا اشتہار بنائے پھرتی ہو اس سے کسی اچھائی کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ۔

بشکریہ روزنامہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس