سبطِ مصطفیٰﷺ حسین ابنِ علی علیہ السلام 3 شعبان 3 ہجری کو پیدا ہوئے۔تاریخ پیدائش اور ہجری سال کے حوالے سے اس تاریخ پر اکثریت کااتفاق ہے۔کچھ مورخین نے ماہِ ولادت ربیع الاول تحریر کیا ہے۔چند نے 5 شعبان رقم کی ہےجبکہ بعض نے سالِ ولادت 4 ہجری کو قرار دیا ہے۔جمہور کا اتفاق بہر طور 3 شعبان 3 ہجری پر ہے۔ 3 شعبان 3 ہجری کو دینا میں تشریف لانے والے حسینؑ ابنِ علی ؑ 10 محرم الحرام 61 ہجری کو بوقتِ عصر میدانِ کربلا میں تین دن کے بھوکے پیاسے عدو کے لشکر کا حیدرانہ انداز میں مقابلہ کرتے رہے پھر سجدہ کی حالت میں شہید کر دیئے گئے۔ 57 سال اور چند ماہ کے تھے سبطِ مصطفیٰﷺ حسینؑ ابنِ علیؑ جب شہید ہوئے۔
کیا حسین ؑ ابنِ علیؑ کا تعارف بس یہی ہے کہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ کے نواسے ہیں۔ ان کی دختر سیدہ فاطمہؑ کے صاحبزادے اور محبوبانِ خدا کے اس قافلے کے سالار و امام تھ جو فرات کنارے اترا۔ عددی کمی کے باوجود اس قافلے نے تاریخ عالم کو یہ اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا کہ حسینؑ سا کوئی نہیں۔ سولہ القابات، تین کنیت، چار صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں۔ یہ تعارفِ حسین ؑ تو ہے تعارفی حسینیت ہرگز نہیں۔ سبطِ مصطفیٰ حسینؑ ابنِ علیؑ تیسرے وصی رسولؐ امام ہیں۔ حریت فکر، شجاعت ، علم ، علم و عمل، تقویٰ ، جہاں بانی، راست فکری، انسان پروری میں یکتا و باکمال سخی ابنِ سخی، خوبیاں شمار سے باہر۔ مجسم روشن چندے آفتاب حسینؑ ۔ 3 شعبان یا 10 محرم الحرام ہی ذکرِ شاہِ شہیداں امام حسین کے لیے مختص نہیں۔ حسینؑ ہر اس آنکھ میں روشن ہے جو حیا کا گھر ہے۔ ہر اس انسان کے دل میں مقیم ہے جو غلامی پر آزادی کو محض زبانی کلامی ترجیح نہ دیتا ہو بلکہ آزادی ، عزت و قار اورحلال کے تحفط کے لیے وقت پڑنے پر میدانِ عمل میں ثابت قدم رہے۔
حسینؑ شاہِ شہیداں، امام حریتِ فکر، سبطِ مصطفیؐ، نورِ نظر سیدہ فاطمہؑ، جگر گوشہء بوتراب علیؑ کی ذات سے محبت رکھنے کے لیے انسان ہونا ضروری ہے۔ جو انسان نہیں بن پاتے وہ فکرِ حسینؑ کو سمجھ نہیں پاتے۔ عقیدوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ حسینؑ شہزادہ ہے سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفیؐ کا لیکن کربلا شہزادوں کی جنگ نہیں تھی۔ کربلا میں ایک طرف جہالت ، غصب، تکبر،تعصب و دولتِ دنیا، طاقت کی بدمستی اور انکار تھا۔ دوسری طرف امام حسینؑ۔ محبوبِ خدا، فخرِ انسانیت ، امام عادل، عالمِ باعمل، حلیم، کریم، شجاع، سخی حسینؑ۔
3 شعبان 3 ہجری سے 10 محرم 61 ہجری تک 57 سال سے کچھ اوپر وقت ہے۔ ماہ و سال ہیں زندگی سے عبارت ماہ و سال۔ ان سارے ماہ و سال میں قدم قدم پر انہوں نے اپنی تربیت کا حق ادا کیا۔ غلاموں مجبوروں اور بے نواؤں کی داد رسی کی۔ اوائل عمری سے پسندیدہ کام یہ تھا کہ سورج غروب ہونے کے کچھ دیر بعد ایک کاندھے پر روٹیوں اور دوسرے پر کھجوروں سے بھرا ہوا ٹوکرا لٹکائے گھر سے نکلتے اور مدینہ کے مختلف علاقوں میں ضرورت مندوں تک پہنچاتے۔ جنابِ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "میرے بھتیجے حسینؑ کی پشت کے بالائی حصوں پر کھجور کے پتوں سے بنی ٹوکریوں کے نشان ایسے تھے جیسے پیدائشی ہوں۔” ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے بقول آپ حسین ؑ ابنِ علی علیہ السلام کلام کرتے تو ایسا لگتا کہ حضرت رسولِ خداﷺ کلام کر رہے ہوں۔ سبطِ مصطفیٰؐ امام حسین فرماتے ہیں ” ضرورت سے زیادہ جمع رکھنا حقداروں کا استحصال ہے”۔”علم انسان کی زینت ہے”۔”کم خوراک انسان کو اعتدال پر رکھی ہے”۔” تحمل انسان کا وقار ہے۔”۔”غربت انکار کا دروازہ کھولتی ہے”۔ فی الوقت جو دعویدارنِ حسینیتؑ ہیں ان کے معاملات زندگی کو ان ارشادات کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حسین بن منصور حلاج فرماتے ہیں”عاشق کا کام خود کو محبوب کے رنگ میں رنگ دینا ہے”۔ حلاج کے اس قول میں ہزار معنی پوشیدہ ہیں۔ دعویٰء عاشقی بہت آسان ہے۔ عمل کی دنیا کے تقاضے الگ ہیں۔ 3 شعبان تین ہجری کو مدینہ میں آغوشِ مادر میں آنے والے حسینؑ ابنِ علیؑ کی ساری زندگی راہِ حسینیہ ؑ کے مسافروں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں جو خدا سے ڈرتے ہیں وہ حق سے نہیں پلٹتے ۔ حق ہمیشہ کم لوگوں کو مرغوب رہا جو بلند مرتبہ عطا کرتا ہے۔ قلوب تلوار سے نہیں حسنِ کلام سے فتح ہوتے ہیں۔ دین چند لوگوں کے لیے دہن کا ذائقہ بدلنے ولی چیز ہے۔ فاسقوں سے بیزاری شجاعت ہے۔ قیات کے عذاب سے بچنے کی تیاری ساری عمر جاری رہتی ہے۔ عدل صفتِ الٰہی ہے۔حلیم شخص کبھی ذلیل نہیں ہوتا۔ ذلت کی زندگی سے میدانِ عمل کی شجاعت بھری موت افضل ہے۔ کج ادا لوگ شریفوں کو رسوا کرکے تسکین پاتے ہیں۔ غیرت مند ہر حال میں نفس پر قابو رکھتے ہیں۔ دھوکہ دینے والوں کی کوئی ذات نہیں۔ متکبر سے پناہ مانگتے رہو۔ مصیبتیں عقلوں کو ماؤف کر دیتی ہیں۔ زبان درازوں کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ یہ دنیا بوڑھی اور مکار ہے جو اپنی محبت میں گرفتار کو برباد کرتی ہے۔ ظالم اور خائن ہمیشہ نامراد رہیں گے۔ مغرور لوگ دینا کے جال میں پھنسے رہتے ہیں۔ نفس کے غلام ہر حد کو پامال کر دیتے ہیں۔ دنیا کے دھوکے میں نہ آؤ کیونکہ اس نے بہت سے امیدوارانِ دنیا کو نا امید کیا۔ اقرار کو انکار میں بدلنے والے رسوا ہوتے ہیں۔ ہر سختی کے وقت خدا پر یقینِ کامل رکھو۔ زبان درازی ناپسندیدہ فعل ہے۔ پیمان توڑنے والے سے زیادہ رسوا کوئی نہیں ۔ مشکلات جتنی زیادہ ہوں وہ جہنم کی آگ سے کم سخت ہیں۔
سبطِ مصطفیؐ امام حسینؑ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے یہ عرض کرنا از بس ضروری ہے کہ اعلائے کلمتہ الحق کی جرات سے محروم نفس پرستوں سے بیزاری اور سماج کے مظلوم و محکوم طبقات کی ہمنوائی ہی درحقیت حسینیتؑ ہے۔ "لوگ آساں سمجھتے ہیں انساں ہونا”
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn