Qalamkar Website Header Image

تاریخ کے گند سے چہرے صاف کرتے لوگ – حیدر جاوید سید

فرقہ واریت اور پسند و ناپسند کی ڈفلی بجاتے ہوؤں کو مبارک ہو کہ ان کی مرادیں بھر آئیں اور امریکہ نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف فضائی حملے شروع کر دیئے۔ 5 سالوں میں لگ بھگ 18 ارب ڈالر کی امداد اور پھر داعش کے سفاک درندے میدان میں اتارنے کے باوجود عالمی سامراج اور مشرق وسطیٰ میں اس کے ساجھے دار جو مقاصد حاصل نہیں کر پائے تھے وہ ایک پراسرار واردات اور پروپیگنڈے کے زور پر حاصل کرنے کے لئے کھلواڑ شروع ہو گیا ہے۔ ہم مسلمان امریکہ کے ہاتھوں کب اور کہاں استعمال نہیں ہوئے؟ کڑوا سوال ہے مگر ہم سب اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بجائے تاریخ گے گند سے ایک دوسرے کا چہرہ دھونا چاہتے ہیں۔ سادہ سا سوال عرض کرتا رہتا ہوں۔ کیا کسی ریاست کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے باغیوں کی سرکوبی کے لئے اختیار استعمال کرے؟ اصولی طور پر ریاست کو حق حاصل ہے۔ اس اصول کی بنا پر پاکستان میں ہر قسم کی طالبانائزیشن کے خلاف ریاست کے اقدامات کی تائید کی جاتی ہے۔ جومین میخ تلاش کرنے لگ جاتے ہیں ان بدروحوں سے شکوہ فضول ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ افغان انقلاب ثور کے بعد امریکہ اور مغربی ذرائع ابلاغ نے ہمیں سوویت یونین کے براستہ افغانستان گرم پانیوں تک رسائی کی کہانی سنائی اور اہل ایمان ڈالروں کے چھنکار پر جھومتے افغان میدان جنگ میں اتر پڑے۔ امریکہ نے (اور یہ دستاویزات سے ثابت ہو چکا ہے) پہلے صدام حسین کو کویت پر قبضے کے لئے اکسایا اور پھر کویت کو واگزار کروانے کے لئے مربی و محسن بن کر میدان میں کودا اور کویت کو واگزار کروانے اور پھر عرب بادشاہوں کو صدام کی دہشت سے محفوظ رکھنے کے لئے کتنےارب ڈالر کی کمائی کی؟ ان دونوں کے درمیان ایک عراق اور ایران جنگ ہوئی تھی۔ شام اور لبنان کے سوا پورا بلادِ عرب ، عرب قوم پرستی کے جذبہ کے تحت عراق کی پشت پر کھڑا تھا۔ لڑے مرے عراقی اور ایرانی۔ اربوں ڈالر کا اسلحہ امریکہ نے بیچا۔ اسلحہ کابل ،سعودی عرب اور کویت نے دیا۔ خلیج تعاون کونسل نے عراق کو زمانہ جنگ میں 12 ارب ڈالر کی مجموعی امدادبھی فراہم کی۔ اس جنگ میں کھپت ہوئے انسانوں کی بات نہ کیجئے پر یہ تو سچ ہے کہ نا کہ عراق ایران جنگ میں دونوں ملکوں کو مجموعی طور پر ساڑھے چار کھرب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ وہ سارا پیسہ اگر مسلمانوں کی تعلیم، تحقیق کے شعبوں ، صحت اور معیار زندگی بہتر بنانے پر صرف ہوتا تو آج مسلمان کہاں کھڑے ہوتے؟ یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے فقط ان لوگوں کو جو حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری اور اسلام کو انسانیت کے لئے معراج سمجھتے ہوں اور کج بحثوں، بدنصیبوں اور فرقہ پرستوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیئے۔
خان شیخون نامی درمیانی درجے کا شہر پچھلے 5 برسوں سے بشار الاسد کی مخالف عسکری تنظیم النصرہ فرنٹ کے قبضہ میں ہے۔ النصرہ شامی اپوزیشن کا عسکری چہرہ ہے۔ الحمدللہ ترکی ، قطر اوربحرین اس کے پشت بان ہیں۔ صرف قطر سرکاری طور پر النصرہ فرنٹ کو 2 ارب ڈالر سالانہ کی امداد دیتا ہے 50 کروڑ ڈالر بحرین بھی۔ اور ترکی نے النصرہ فرنٹ کے عسکریت پسندوں کو تربیت دی تھی۔ اس کا سیاسی دفتر آج بھی استنبول میں قائم ہے۔ پچھلے دو سالوں کے دوران ارشادتِ اسلامی اور جیشِ ملی نامی دو گروپ النصرہ میں ضم ہوئے۔ جیش الشام بھی کہتے ہیں النصرہ فرنٹ کو۔ خان شیخون میں النصرہ فرنٹ کے ہیڈ کوارٹر کے قریب ایک ورکشاپ نما فیکٹری پر حملہ ہوا اور فیکٹری میں موجود کیمیائی گیس کے ذخیرہ سے 10 سے 15 بچوں بچوں سمیت 100 افراد جاں بحق ہوئے اور 400 سے زائد زخمی ہوئے۔ عرب میڈیا ( ماسوائے عراق اور لبنان کے ) اور اس کے سرخیل "الجزیرہ” کی خبر یہ ہے کہ حملہ بشار الاسد کی فضائیہ نے کیا۔ آزاد ذرائع اس کی تصدیق نہیں کرتے مگر دنیا بھر کے مچونے اس خبر پر ایمان لے آئے۔ وجہ صرف اتنی ہے کہ خبر نشر عربی ذرائع نے کی ہے۔ اقوام متحدہ میں روس نے امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کی قراردا مسترد کر دی۔ روسی کہتے ہیں کہ خان شیخون کی ورکشاپ پر شام اور اس نے حملہ نہیں کیا۔ لاریب حملہ ہوا ہے اور انسانی جانوں کا ضیاع بھی۔ مگر ہم کیوں بضد ہیں کہ حملہ بشارالاسد کی فضائیہ نے کیا ہے۔ کیا داعش اور النصرہ کی باہمی جنگ کے بھیانک قصے بھلا دیئے جائیں؟ داعش احیائے خلافت کے لئے سرگرم عمل ہے جبکہ النصرہ بشار الاسد کی جگہ ایسی حکومت جو ایران اور لبنان کی حزب اللہ کے خلاف عربوں کی اتحادی ہو۔ معاف کیجیئے گا تحقیق سے کورے اور سنی سنائی پر ایمان لانے والوں کو کون سمجھائےکہ امریکہ اور اسرائیل کب سے مسلمانوں کے خیر خواہ ہوئے۔ کیا عراق پر بھی امریکی حملہ بھی ایسے ہی کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے اور مخالفین کے خلاف استعمال کیے جانے کے قصوں کی کوکھ سے برآمد نہیں ہوا تھا؟ تب بھی امریکیوں کو جلدی تھی برطانیہ اس کے ساتھ کھڑا تھا۔ پھر ٹونی بلیئر نے معافی مانگی اور امریکیوں نے اعتراف کیا عراق کے کیمیائی ذخیروں والی بات صریحاَََ جھوٹ تھی۔ کیا معافی اور غلطی کا اعتراف 12 لاکھ عراقیو
ں (ان میں تین لاکھ بچے) کو زندگی لوٹانے کا سبب بن سکتے ہیں؟
پسند کا ظالم اور مظوم پالے صدیوں سے ایک دوسرے کو کھیت کرتے مسلمانوں کو کون سمجھائے؟ سمجھا کر دیکھ لیجئے آپ اصل کھرے مجوسی، رافضی اور یہودی قرار دیئے جائیں گے اور چند پاکیزہ گالیاں آپ کی خواتین کے لئے بھی تبرک کے طور پر پیش کی جائیں گی۔ کاش کوئی ان کو سمجھا سکے کہ بندگانِ خدا کبھی یہ سوچیئے کہ آخر میدان جنگ مسلم دنیا اور جنگ کا رزق مسلمان اور ان کے وسائل کیوں؟ رہنے دیجیئے”مشرک اور ظالم” بشارالاسد سے اہلِ کتاب امریکی اور اسرائیلی بہتر ہیں۔ کسی تاخیر اور ثبوت کے بغیر مدد کو دوڑے چلے آئے ۔ ایک عملاََ اور ایک زبانی طور پر۔ شام کا تیل چوری کے مال کے طور پر خریدنے والا خلیفہ کہلاتا ہے۔ بہت عجیب لگتا ہے پاکستان میں بشار الاسد کے مخالفین میں نوے فیصد وہ ہیں جو جنرل ضیاء الحق کی دہلیز پر ڈھیر ہوئے تھے اور آج بھی اسے مرد مومن اور مرد حق کہتے ہیں۔ قربان جاؤں اہلِ اسلام کی منطق پر۔ قطر، بحرین اور ترکی کو النصرہ کو پالیں تو عین اسلام و جمہوریت (ارے کیا غضب کیا، جمہوریت لکھ دیا یہ تو کفار کا مال ہے) شام اگر ایران ، حزب اللہ اور روس کے تعاون سے اتحاد بنائے تو کھلا کفر۔ چلیں مبارک ہو اہلِ کتاب امریکہ مدد کو پہنچا۔ کھیل شروع ہواں یہاں یاد رکھنے والی بات سعودی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے چند حالیہ بیانات ہیں۔ جن میں کہا گیا تھا بشار الاسد کو ہٹانے کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ امریکی حملہ ابتدائیہ ہے۔ اب روس میدان میں اترے گا اور پھر 39 ملکی اسلامی عسکری اتحاد ، خون شامیوں کا بہے گا۔ وسائل اس کے تباہ ہوں گے۔ لیکن یہ عرض کروں "چراغ سب کے بھجیں گے ہوا کسی کی نہیں”۔یہ وسائل پر قبضے کی جنگ ہے اور بدقسمتی سے ہمارے درمیان میں سے ہی کچھ لوگ عالمی سامراج کے پٹھو بنے حق ِ نمک ادا کر رہے ہیں۔ لاریب بہت ظلم ہوا خان شیخون نامی شامی شہر میں۔ معصوم بچے مرے ہیں۔ ہاں مگر یمن میں مرنے والے بچے ماؤں نے کب جنے تھے وہ تو ایک خاص قسم کے درخت پر لگتے ہیں۔ پشاور کے بانو بازار اور لاہور کے اقبال ٹاؤن کی مون مارکیٹ یا گلشنِ اقبال میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے بچوں کا ذکر ہی کیا وہ تو کسی شمار میں نہیں تھے۔ مگر ایک سادہ سا سوال ہے۔ بشار الاسد نے حلب اور دیامر میں کیمیائی ہتھیار کیوں استعمال نہیں کیے؟ معاف کیجیئے گا بشار کی قسمت کا فیصلہ شام کی عوام کو کرنا ہے اڑوس پڑوس یا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نہیں۔ شام میں امن کون نہیں چاہتا؟ چھوڑیں اس سوال پر غور کیجیئے آخر مشرق وسطیٰ کی ہر اس طاقت کی بربادی کس کا خواب ہے۔ اس کا جو اسرائیل کو ایٹمی تحفظ فراہم کرنے کا ایجنڈا رکھتا ہے۔ سوال کا جواب تلاش کیجیئے اصل دشمن کا چہرہ بے نقاب ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھئے:  ہندو ریاست پہ کوئی اعتراض بنتا ہے؟

بشکریہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس