ایک دن مزید انتظار کر لیا جاتا تو نہ صرف کچھ معاملات زیادہ بہتر انداز میں واقع ہو جاتے بلکہ فوج کے شعبہ اطلاعاتِ عامہ پر یہ حرف گیری بھی نہ ہوتی کہ "آرمی چیف ہاؤس” سے "شام” کی قربتوں کے دعوے دار خلیفہ سے وہ کچھ لکھوا یا گیا جس کی ضرورت نہیں تھی۔ افسوس صد افسوس کہ کچھ "نابغے” خارجہ امور کو فرقہ واریت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اورتعصب کی پھبتی دوسروں پر کستے ہیں۔ ممالک کی خارجہ پالیسی طویل المدتی ریاستی مفادات پر استوار ہوتی ہے۔ پچھلے 70 سالوں کے دوران بھٹو صاحب کے چند سال الگ کر لیجیئے جب تیسری دنیا اور مسلم امہ کا تصور خارجہ پالیسی کا بیانیہ تھا باقی تو ہم امریکی کیمپ میں "ذوق و شوق” سے کھڑے رہے اور اب بھی کھڑے ہیں۔ جناب راحیل شریف کو 39 ملکی اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ بننے کے لئے حکومت نے این او سی جاری کر دیا ہےاور تحریکِ انصاف اس حکومتی فیصلے کے ناقد کے طور پر سامنے آئی ہے۔ عمران خان نے آرمی چیف سے ملاقات کی اور خبروں کو پر لگ گئے۔ تحریکِ انصاف کے لینن کا دعویٰ ہے کہ اس ملاقات میں راحیل شریف کے معاملے پر بات ہوئی۔ لینن دعویٰ کرتے ہیں اسلامی عسکری اتحاد کے مخالف فرقہ پرست ایران نواز ہیں۔ اللہ اور اس کے عظیم المرتبت رسول ﷺ کی گرفت میں آئے ہر وہ شخص جو جھوٹ باندھے اور اپنے کج کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر دانش کی جگالی کرے۔ اخلاقیات کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اپنے کالم کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے اس طالب علم کے دو خطوط کا حوالہ بھی دیتے۔ اولاََ جو آرمی چیف کو لکھا گیا اور ثانیاََ خود خلیفہ کو۔ دونوں خطوط میں ایک سوال مشترکہ تھا۔ آخر ہم کیوں پاکستان کو ایک ایسے عسکری اتحاد کا حصہ بنانا چاہتے ہیں جو بذاتِ خود تند فرقہ پرستی سے عبارت ہے۔ ضمنی بات یہ پوچھی تھی کہ اگر کل کلاں کو کوئی سابق آرمی چیف یا جنرل ایران کے تشکیل کردہ کسی عسکری اتحاد میں شامل ہونا چاہے تو اس وقت حکومت اپنا این او سی جاری کرے گی؟
بہت کھلواڑ ہو چکے اس ملک اور زمین زادوں کے ساتھ۔ بالغ نظری اور اجتمائی شعور کے مظاہرے کی ضرورت دوچند ہوچکی ہے۔ ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ کیا ملا افغانستان میں لڑی گئی امریکہ سوویت یونین جنگ میں ہروال دستے کے طور پر شرکت کر کے پاکستان کو؟ حساب کتاب سے آنکھیں چرانے کی ضرورت نہیں۔ افغان پالیسی کی قلابازیاں کس بری طرح گھائل کر گئی ہیں چھپائے نہیں چھپتا۔ چند درجن یا دو تین سو لوگ مالدار ہو گئے۔ افغان جنگ اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی دہشت گردی پچھلے 37 برسوں میں سوا لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کو نگل گئی۔ ان برسوں کو کیسے بھلا دیا جائے جب ہمارے قبائلی علاقوں کے بعض حصے غیر ملکی جنگجوؤں کی اس طور دسترس میں تھے کہ ان کی مرضی کے بنا پتہ بھی نہیں ہلتا تھا۔ افسوس ہم آج بھی صرف لکیر پیٹنے میں مصروف ہیں بنیادی وجوہات پر غور کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کر رہے۔ کتنی دہشت گرد تنظیمیں افغان جنگ کی کوکھ سے برآمد ہوئیں۔ سہولت کاروں کے مراکز اب بھی آباد ہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس نفع و نقصان کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیا جاتا۔ اس تجزیہ سے مستقبل کی پالیسیوں کی بنیاد رکھی جاتی۔ لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ اعلیٰ دانش و فہم کے لوگ دستیاب نہیں ہیں۔ دو وقت روزی روٹی کے چکر میں پڑے ہوؤں کے غول دندناتے پھرتے ہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ کھلی اور بدترین دہشت گردی کو فرقہ واریت کا نام دے کر حقائق کو مسخ کیا جارہا ہے اور اس کی آڑ میں انسانیت اور امن کے قاتلوں کو محفوظ راستہ دینے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ اجتماعی دانش اور ترجیحات پر سوالیہ نشان ہیں۔ کسی کو فکر ہی نہیں۔ اس ماحول میں اپنی زمین ، ملک اور زمین زادوں کے مفاد کی بات کرنا عجیب سا لگتا ہے۔ مگر کیا وقتی مفادات، دو وقت کی راٹی، "شام کے ماحول” اور چند سہولتوں کے لئے سچ کو جوتے مارے جائیں؟ طالب علم کا جواب نفی میں ہے۔ ایک سادہ اطورا مسلمان کی حیثیت سے اس بات پر ایمان ہے کہ ایک وقت بہرطور ایسا آئے گا جب محبوب دو عالم سرکار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی زیارت نصیب ہو گی۔ خواہشوں کے بے لگام گھوڑوں پر سوار سچ کو روندتے اور جھوٹ کو رزق بنائے پھرتے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ دربارِ مصطفیٰ ﷺ میں بازپرس ہوئی تو کیا ہوگا؟ آج کا سچ یہ ہے کہ سعودی عرب کی تحریک پر قائم ہوئے اسلامی عسکری اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کا فیصلہ صریحاََ غلط ہے۔ اس فیصلے پر معترض فقط اور فقط پاکستان کے طویل المدتی مفادات کو مدِ نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جس بات کو یہاں نظر انداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ اسلامی عسکری اتحاد کس کے خلاف کارروائی کرے گا؟ اس سوال پر غور کرتے وقت ذہن میں رکھیئے کہ اگر سعودی عرب کو خطے میں بالادستی کا حق ہے تو کوئی دوسرا ملک بھی اپنے مفادات کے پیشِ نظر حکمت عملی وضع کرنے اور خطے کے ممالک سے مل کر اقدامات کے لئے آزاد ہے۔ یہ بڑی عجیب بات کہی خلیفے نے کہ ایران 39 اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد میں شمولیت کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے غالباََ پاکستان میں ایران کے سفیر کا تازہ انٹرویو نہیں پڑھا۔ مختصراََ یہ ہے کہ ایران نے اپنے پڑوسی برادر اسلامی ملک کی سعودی عسکری اتحاد میں شمولیت پر تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ یہاں ساعت بھر کے لئے رک کر غور کیجیئے۔ بھارت سے تعلقات کا عالم کیا ہے۔ افغانستان میں بد اعتمادی کس بھاؤ فروخت ہوتی ہے۔ اب تیسرا پڑوسی ملک ایران اپنے تحفظات ظاہر کر رہا ہے۔ کیا ہم پاکستان کو جغرافیائی طور پر جنوبی ایشیاء سے اٹھا کر سعودی عرب کے پڑوس میں کسی خالی قطعہ اراضی پر رکھنے جا رہے ہیں؟
سوالات سماج کے اندر پنپتے ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں ” سعودی اتحاد میں شمولیت کے مخالفین کو امہ کے مفہوم سے چڑ ہے”۔ خدا کے بندے پہلے تو یہ طے کرو کہ امہ کسی ایک مسلم مکتبِ فکر کا نام ہے یا پانچوں مسلم مکاتبِ فکر کی اجتماعی تعبیر؟ اور ویسے یہ امہ وجود کب رکھتی تھی؟ چلیں ہم تاریخ کے اس تلخ ترین سوال کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔مجھ زمین زادے کے لئے اپنی قومی شناخت کے ساتھ پاکستان ہی اول ہے یہی آخر۔ خواجہ غلام فریدؒ کی مشہور زمانہ کافی کو آپ جس رنگ میں دیکھیں میرے لئے تو میرا کعبہ قبلہ ایمان اپنی زمین وسیب اور پاکستان ہے۔ امریکی مفادات کے تحفظ میں ہر حد سے گزر کر جو بویا اب اس کی فصلیں کاٹی جا رہی ہیں۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہ کہ مشرقِ وسطیٰ میں بالادستی کے جھگڑے سے ہمیں کیا لینا دینا؟ ایک نکتہ ذہن میں رکھیئے یہ جو عرب لیگ ہے نا اس نے 2006ء میں حزب اللہ اور اسرائیل جنگ کے دوران عین اس وقت لبنانی حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا جب حزب اللہ اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا رہی تھی۔ عرب لیگ کو شامی صدر بشار الاسد کی شکل نہیں بھاتی۔ لیگ کا کرتا دھرتا سعودی عرب ہے۔ کل اگر سعودی عرب بشارالاسد کے خلاف اسی طرح جنگ چھیڑے جیسے اس نے یمن میں کٹھ پتلی صدر ہادی منصور کے لئے شروع کی ہے تو کیا ہم برادر اسلامی ملک شام کے خلاف لڑیں گے؟
پچھلے چند ماہ کے دوران سعودی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے جن پاکیزہ خیالات کا اظہار کیا وہ مستقبل کے عزائم اور ایجنڈے کو سمجھنے کے لئے ناکافی ہیں کیا؟ سوال یہ ہے کہ ہم پاکستان کو ایک بے مقصد جنگ کا ڈھول گلے میں ڈالنے پر تالیاں پیٹتے ہوئے اعتراض کرنے والوں کی حب الوطنی اور مسلمانی پر شک کیوں کرتے ہیں؟آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور عمران خان کی ملاقات کے حوالے سے بااعتماد حلقے تو اس بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں کہ عمران خان نے آرمی چیف سے کہا کہ ہم نے راحیل شریف کی ضمانت پر پانامہ کیس پر سیاسی محاذ آرئی کی بجائے عدالتی سماعت کا راستہ قبول کیا تھا۔ انہوں نے ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ کے منظر عام پر نہ لائے جانے پر بھی تشویش ظاہر کی۔ خلیفہ نے یہ دونوں باتیں تو نظر انداز کر دیں اور یہ تاثر دیا کہ اس ملاقات کا مقصد جنرل (ر) راحیل شریف کی نئی ملازمت کے حوالے سے تحریک انصاف کےتحفظات کی برین واشنگ تھی۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جو سعودی عسکری اتحاد کی تائید میں فرقہ واریت کا زہر نئے انداز سے پاکستانی معاشرے میں پھیلانا چاہتے ہیں۔ برصغیر کی مسلم فرقہ وارانہ کشمکش پر بات تو اورنگ زیب عالمگیر کے دور سے ہوگی یا سرہند سے جاری ہوئے فتاویٰ کے وقت سے، سو اسے موضوعِ بحث بنانا ہی درست نہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ عصری مسائل اور تاریخ پر ہر دو کو الگ کر کرے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اہم ترین ہے۔ ہم ایسے طلباء اور زمین زادوں کےلئے پاکستان پر ہزاروں سعودی عرب اور ایران قربان کیے جا سکتے ہیں پاکستان کو کسی پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ کاش دانش کی جگالی کرنے والوں کو یہ بات سمجھ میں آ سکے۔
بشکریہ خبریں ملتان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn