Qalamkar Website Header Image

پنجاب اور گومل یونیورسٹیز کے افسوسناک واقعات – حیدر جاوید سید

اصل موضوع پر بات کرنے سے قبل یہ عرض کرنا از بس ضروری ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں پشتون کلچر ڈے کی تقریب پر اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں کے حملے اور گومل یونیورسٹی میں انتظامیہ کی اجازت کے بغیر اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر اہتمام پروگرام کے انعقاد پر متحارب طلباء تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان ہونے والے تصادم سے تعلیمی اداروں میں طلباء یونینوں کی بحالی کا مقدمہ اٹھانے والے ہم سے محبوں کو شدید تکلیف پہنچی ہے۔ محض یہ کہہ دینا کہ گومل یونیورسٹی کا واقعہ پنجاب یونیورسٹی کے واقعے کا رد عمل تھا یا پھر یہ کہ ”جیسا لیاقت بلوچ نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی میں رقص و سرود پرجھگڑا ہوا” درست نہیں ہے۔ غالباً عالی جناب لیاقت بلوچ رقص و سرود کے وسیع یا کم از کم فوری معنی سے آگاہ نہیں یا پھر انہیں ہر حال میں اپنے شاہینوں کا دفاع کرنا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی میں پشتون طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ سے ”کلچر ڈے” کے حوالے سے باقاعدہ اجازت حاصل کی تھی۔ اصولی طور پر جمعیت کو اپنی لٹھ فورس میدان میں اتارنے کی بجائے انتظامیہ سے بات کرنا چاہئے تھی۔ اگر جمعیت کے اس الزام کو درست مان لیا جائے کہ کلچر ڈے کی تقریب میں یونیورسٹی کے طلباء سے زیادہ باہر کے لوگ شریک تھے تو ایک سادہ سا سوال ہے کہ خود جمعیت اسی دن یونیورسٹی میں طالبات کا جو پروگرام (بقول جمعیت کیونکہ انتظامیہ کے ریکارڈ میں اس کا ذکر نہیں ہے) منعقد کر رہی تھی اس میں مقامی طالبات کتنی تھیں اور جماعت اسلامی کے شعبہ خواتین کی کارکنان کتنی؟ بد قسمتی یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی پر اسلامی جمعیت طلبہ پچھلی ساڑھے تین دہائیوں سے قابض ہے۔ یو نیو ر سٹی ملازمین کی تنظیم ہو یا اساتذہ کی دونوں میں جماعت اسلامی کے ہم خیال طاقتور ہیں اسی لئے یونیورسٹی میں جمعیت کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ پشتون کلچر ڈے پر رونما ہوا واقعہ پہلا واقعہ ہر گز نہیں ابھی چند ہفتے قبل یونیورسٹی میں بلوچ کلچر ڈے منانے والے بلوچ طلباء کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ ستم یہ ہے کہ اس پچھلے واقعے کی طرح پشتون کلچر ڈے کے موقع پر ہونے والے تصادم سے یہ تاثر ابھرا کہ پنجاب کی سر زمین دیگر اقوام کے ثقافتی و تہذیبی پروگراموں کے حوالے سے ساز گار نہیں۔ اس آگ پر تیل پھینکا جناب لیاقت بلوچ کے بیان نے اور پھر سامان رسوائی کی شدت کو کم کرنے کے لئے صالحین نے الزام دھر دیا کہ پشتون طلباء نے جمعیت طالبات کی اس تقریب پر حملہ کیا جس میں مرحوم قاضی حسین احمد کی صاحبزادی موجود تھیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا جمعیت کے کارکنوں کی طرف سے کلچر ڈے کی تقریب پر حملے اور کیمپ جلائے جانے کی رپورٹنگ کرنے والے میڈیا کی جمعیت سے ذاتی دشمنی تھی کہ اس نے تصادم کا فقط ایک واقعہ رپورٹ کیا؟ بہت ادب سے عرض ہے کہ وہ دوسرا واقعہ ہوا ہی نہیں جسے بنیاد بنا کر جمعیت اور جماعت اسلامی پہلے واقعہ سے پیدا ہوئی صورتحال کی سنگینی کو کم کرنا چاہتی ہے۔جماعت اسلامی کی آج کی قیادت 1970ء اور 1980ء کی اس طلباء سیاست سے اٹھی ہے جو نظریات پر دلائل دینے سے زیادہ بندوق اور لاٹھی کے استعمال کی فہم کی علمبردار ہے۔ کیا وقت آگیاہے کہ بر صغیر کے فہمیدہ اور وضع دار بزرگ سید مودودی کی جماعت کی قیادت بیسویں صدی کی ساتویں اور آٹھویں دہائی کے ان طلباء رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جو اپنے زمانہ طالب علمی میں متنازعہ رہے۔ کچھ کا ماضی آج بھی ان کے تعاقب میں ہے۔ کیا انہیں احساس نہیں کہ وقت بہت زیادہ تبدیل ہوچکا۔ اب صحافت کے میدان پر بھی جماعت اسلامی کی ویسی بالا دستی نہیں جیسی بیسویں صدی کی آخری تین دہائیوں میں ہوا کرتی تھی اور کالے کو سفید اور سفید کو کالا کرکے پیش کردیا جاتا تھا۔ درجنوں ٹی وی چینلز پھر آزاد سوشل میڈیا’ جدید الیکٹرانک سہولیات یہ وہ سب ذرائع ہیں جو سارے منظر نامے کو زیر زبر پیش کے ساتھ پیش کردیتے ہیں۔ اس طالب علم کے نزدیک گومل یونیورسٹی کا واقعہ بھی پنجاب یونیورسٹی کی طرح افسوسناک ہے ۔ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن پنجاب یونیورسٹی کے واقعہ کے بعد اعلان کرچکی تھی کہ جمعیت کو خیبر پختونخوا کی جامعات میں تقریبات منعقد نہیں کرنے دی جائیں گی۔ سو یہ کہنا کہ گومل یونیورسٹی کا واقعہ رد عمل نہیں تھا جی بہلانے کے سوا کچھ نہیں۔ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے افسوسناک واقعہ سے پشتون طلباء کو جو اخلاقی برتری حاصل تھی وہ گومل یونیورسٹی کے واقعہ سے کم ہوئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کا واقعہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا۔ پچھلے کچھ عرصہ میں یونیورسٹی کے ہاسٹلز اور دیگر مقامات سے نا پسندیدہ سر گرمیوں میں ملوث کچھ عناصر کی گرفتاری پر جمعیت دباؤ میں تھی۔ پشتون کلچر ڈے اور اس سے قبل بلوچ کلچر ڈے کی تقریب پر حملہ جمعیت کی طرف سے طاقت کا مظاہرہ بھی تھا اور ”کسی” کے لئے پیغام بھی۔ مگر چند جذباتی طلباء نے گومل یونیورسٹی میں رد عمل کا مظاہرہ کرکے جمعیت کے منصوبے میں اس کی خواہش کے مطابق رنگ بھر دیا۔ حرف آخر یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کا افسوسناک واقعہ پنجابی پشتون تصادم ہر گز نہیں۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر خود پشتون ہیں یہ فہم کا ٹکراؤ ہے۔ مقامی تہذیب و تمدن اور کلچر سے انکار کی رجعت پسندانہ سوچ اور تربیت کا شاخسانہ جس کے تباہ کن نتائج بنگلہ دیش کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں مگر ہم میں سے کوئی بھی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں۔
بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس