اگر یہ خبر درست ہے کہ سول ایوی ایشن اور کراچی، لاہور، اسلام آباد کے ائیر پورٹس کی نجکاری کی جا رہی ہے تو پھر یہ سوال بنتا ہے کہ وہ تجربہ کار ٹیم کہاں "مرکھپ” گئی جس کا ذکر میاں نواز شریف 2013ء کے انتخابات سے قبل کیا کرتے تھے ” پیپلز پارٹی نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ سارے ادارے تباہ ہوچکے، ملک پر قرضوں کا انبار لاد دیاگیا ہے۔ ان حالات میں عوام تحریک انصاف کی اناڑی قیادت کوو وٹ دینے کی بجائے نون لیگ کی تجربہ کار ٹیم کو ووٹ دیں تاکہ ملک کی قسمت سنور سکے”۔ پچھلے پونے چار سالوں میں ملک کی قسمت کتنی سنوری اور خود عالی جناب کے خاندان کی کتنی اس پر لمبی چوڑی مغز ماری کی ضرورت نہیں۔ پی آئی اے کو بہتر بنانے کے نام پر ہوا تجربہ پی آئی اے کو ساڑھے چار ارب روپے میں پڑا، 30ارب روپے والا نندی پور پاور پراجیکٹ 80ارب روپے تک پہنچا لیکن اب چین کو ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے۔ قائد اعظم سولر بجلی منصوبے سے 15روپے فی یونٹ بجلی ملے گی جبکہ بھارت میں 5روپے یونٹ پڑ رہی ہے۔ اقتدار میں تشریف لائی تھی تجربہ کار ٹیم تو اندرونی و بیرونی قرضوں کی مد میں 65 ہزار روپے فی کس پاکستانی مقروض تھا۔ پونے چار سال بعد فی کس سوا لاکھ روپے سے کچھ اوپر کا مقروض ہے۔ پارلیمان کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں کل مل ملا کر تین سو فیصد اضافہ ہوا اس دوران اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اب تک 30 فیصد اضافہ ہوا جبکہ مہنگائی کی شرح میں 87 سے 116 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حالت یہ ہے کہ لاہور کے ترقیاتی منصوبوں پر جنوبی پنجاب کے 17اضلاع کے وسائل پھونکے جا رہے ہیں۔یہ چند مثالیں نا گزیر تھیں۔ ہم دوبارہ اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ سول ایوی ایشن کا خالص سالانہ منافع 75 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ ہم منافع بخش ادارے ریوڑیوں کی طرح نجکاری میں کیوں بانٹتے ہیں؟ ایم سی بی، حبیب بینک، یو بی ایل اور الائیڈ بینک خالص منافع بخش ادارے تھے جن قیمتوں پر یہ مسلم لیگ کے ابتدائی دو ادوار اور پھر دہلوی سرکار جنرل پرویز مشرف کے دور میں فروخت ہوئے ان کی قیمت فروخت سے زیادہ مالیت کے اثاثے تھے اندرون بیرون ملک ۔ کچھ عرصہ قبل پی آئی اے کی نجکاری کی سازش ہوئی جس قیمت پر بیچنے کی بات ہو رہی تھی اس سے زیادہ مالیت کے تو پی آئی اے کے تین ملکی و غیر ملکی ہوٹلز تھے۔ پچھلے پونے چار سال میں غربت اور بے روز گاری بڑھی ہے مگر میڈیا منیجری کے ذریعے پردہ پوشی کی گئی۔ میرے ماہر تعلیم دوست مشتاق احمد اکثر میرے کالموں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ” کالم نگار بغض و حسد نواز شریف کا شکار ہے” کاش انہیں وہ درباری بھانڈ اور استرے بھی دکھائی دیتے جو "حضور کا اقبال بلند ہو” کا غوغا برپا کرکے سچائیوں سے منہ موڑ رہے ہیں۔ سوا چار عشرے ہوتے ہیں کوچہ صحافت میں قلم مزدوری کرتے ہوئے۔ ان برسوں میں حرمت لوح قلم سے زیادہ کچھ عزیز نہیں رہا۔ صلے میں پانچ سال پر پھیلی قید و بند اور شاہی قلعہ کا وحشیانہ تشدد شامل ہے۔ پیپلز پارٹی کی وکالت کی پھبتی کسنے والے دوستوں کو غالباً معلوم نہیں کہ میرے سگے بھائی کو (ن) لیگ کے دوسرے دور اقتدار میں پی آئی اے کی ملازمت سے ایک کالم پر ناراض ہو کر نکلوایا گیا تھا۔ سیاسی طور پر محبوب پیپلز پارٹی کے دور میں جناب زرداری اور گیلانی پر تنقیدی کالم لکھنے کی وجہ سے وہ بحال نہ ہو پائے۔ معاف کیجئے گا خود ستائی ہر گز مقصود نہیں نہ مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت ہے۔ صحافت کے ہم ایسے طلباء 1970ء کی دہائی میں اس کوچہ میں وارد ہوئے تو جناب فضل ادیب، حمید اختر، سید عالی رضوی مرحوم جیسے قابل فخر اساتذہ کرام سے سیکھنے کا موقع ملا۔ان درویش صفت اساتذہ کا پہلا سبق یہ تھا کہ صحافت ذاتی اور سیاسی محبت پال کرنہیں کی جاسکتی۔ پاکستان اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے ۔ اشتہاری مشہوریوں اور درباریوں کے قصیدے حقائق پر مٹی نہیں ڈال سکتے۔ موٹر وے تک تو گروی رکھنے کے پروگرام ہیں۔ جس چائنا کی اپنی مصنوعات سال بھر سے زیادہ نہیں چلتیں وہ ہمارے لئے مستقبل کی ایسٹ انڈیا کمپنی بننے جا رہا ہے۔ ساری سرمایہ کاری در اصل قرضے ہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ آج تک سی پیک پر پارلیمان میں کھلی بحث نہیں ہوئی۔ گو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔ 18ویں ترمیم نے ارکان پارلیمان کو اپنی اپنی جماعتوں کے مالکان کا چوبدار بنا کر رکھ دیا ہے۔ پھر بھی ممکن ہے دو چار ارکان اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کے سوال پر پارلیمان میں چپ کا روزہ کھولنے پر آمادہ ہوجائیں۔ ہماری حالت تو اب یہ ہے کہ "نجکاری کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے یہ رنگ لائے گی ایک دن تجربہ کاری ہماری” بد قسمتی سے اس ملک کے وزیر خزانہ وہ صاحب ہیں جن پر خود بعض عالمی مالیاتی ادارے یہ الزام لگا چکے کہ وہ سیاہ کو سفید دکھانے میں ماہر ہیں۔ خود وزیر خزانہ کو بھی اپنے ادویات کے تازہ کاروبار سے زیادہ کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔ حرف آخر یہ ہے کہ اس ملک کے بدقسمت لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ سول ایوی ایشن اور تین بڑے ائیر پورٹس کی نجکاری اگر کی جا رہی ہے تو ان چینی کمپنیوں میں عزیزوں اور دوستوں کا کتنا حصہ ہے؟ کیا امید کی جائے کہ عوام کی اصل بات بتائی جائے گی یا سوال کفر قرار پائے گا؟
بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn