عجیب مخمصہ ہے سوال کرو تو کسی تاخیر کے بنا یہود و ہنود کا ایجنٹ اور پاکستان دشمن قرار دے دیاجاتا ہے۔ خاموشی اپنے عصر کے ساتھ تاریخ کا مجرم ٹھہراتی ہے۔ چھ یا سات سال قبل ان سطور میں بلوچستان کے حوالے سے چند معروضات رقم کی تھیں۔ لگ بھگ پندرہ دن بلوچستان میں قیام رہا تھا۔ ان دنوں صوبے کی آبادی کی مختلف اکائیوں کے نمائندہ لوگوں سے ملاقاتوں’ گفتگو اور مکالمے کے بعد طالب علم سے جو بن پایا لکھا اور فہمیدہ انداز میں عرض کیا تھا ”کانٹے بو کر گلابوں کی فصل اگانے کی آرزو ہمیں کہیں کا نہیں رکھے گی”۔ ان برسوں میں ملک کے تین صوبوں اور وفاق میں پیپلز پارٹی اتحادیوں کے ساتھ بر سر اقتدار تھی۔ وہی پیپلز پارٹی جس نے ”آغاز حقوق بلوچستان” کا پروگرام دیا۔ اس پروگرام کے حوالے سے عرض کیا کہ ”اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے سردار توفیضیاب ہو رہے ہیں بیوروکریسی بھی گنگا نہانے میں مصروف ہے۔
مگر عام بلوچوں کے حالات وہی ہیں’ شکایات اور مسائل بھی۔” پیپلز پارٹی کے اس وقت کے صوبائی صدر فتح محمد حسنی نے عجیب انداز میں شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ”نجانے کس کے ایجنڈے پر پی پی پی کے بلوچستان پروگرام کے ثمرات پر مٹی ڈال رہا ہوں”۔ جو اب انہیں دنوں عرض کر دیا تھا اب تکرار کی ضرورت نہیں۔ آج پیپلز پارٹی کی جگہ بلوچستان میں نون لیگ اتحادیوں کے ساتھ اقتدار میں ہے۔ وفاق اور پنجاب اسی کے قبضہ قدرت میں۔ بلوچستان کے مسائل جوں کے توں نہیں کچھ زیادہ گمبھیر ہیں۔ تلخ نوائی پر اگر پیشگی معذرت قبول ہو تو عرض کروں پونے چار سال میں یہ طے نہیں ہوا کہ بلوچستان کا اقتدار اعلیٰ کس کے پاس ہے۔ اڑھائی برس تک ہمارے قوم پرست دوست ڈاکٹر عبدالمالک صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے اب نون لیگ کے ثناء اللہ زہری ہیں۔ گورنری کے منصب پر محمود خان اچکزئی کے بھائی جلوہ افروز ہیں۔ مگر بے چینی’ شکایات’ شکوے اور الزامات (دو طرفہ الزامات بھی ہیں) جوں کے توں ہیں۔ سب سے اہم شکایت یہ ہے کہ باقی تین صوبوں کے لوگ بلوچستان کے حوالے سے تصویر کا وہی رخ دیکھتے ہیں اور خبریں جان پاتے ہیں جوریاست کی منشا کے قریب تر ہوں۔ آگے بڑھنے سے قبل ہمیں کھلے دل سے تسلیم کرلینا چاہئے کہ فی الوقت پاکستان میں قومی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاکاکوئی وجودنہیں۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی بدولت باقی تین صوبوں کے لوگ بلوچستان کے حوالے سے سرکاری موقف کے سوا کچھ نہیں جان پاتے۔اہل صحافت کی روزی روٹی اور دھڑے بندی سے عبارت مجبوریاں ہیں۔ سب سازشوں کی کہانیاں سناتے اڑاتے جی شاد کر رہے ہیں۔ ایک آدھ آواز اگر دوسری کہانی سناتی ہے تو پھبتی کسی جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امور مملکت اسی طرح چلتے رہیں گے۔ خبروں اور تجزیوں کے لئے ریاست کی محتاجی ایمان کا حصہ رہے گی؟ بہت ادب سے عرض کروں اوروں کو نہیں تو اہل صحافت کو اپنا فرض اور عصری تقاضے نبھانے ہوں گے۔یہاں ایک سادہ سا سوال ہے کہ چند دن قبل بلوچستان کے ایک علاقے میں آپریشن کے دوران ایک پانچ ماہ کی حاملہ خاتون فاطمہ بلوچ اور اس کے سسر جاں بحق ہوگئے ریاستی ادارے خاموش ہیں یہ پوچھنا ہمارا حق ہے کہ آپریشن کس کے خلاف ہوا اور کیسے ایک سسر بہو فائرنگ کی زد میں آئے ؟ معاف کیجئے گا یہ پہلا واقعہ ہے نا پہلا سانحہ اس لئے وضاحت بہت ضروری ہے اور وہ بھی حقیقت سے قریب تر کی وضاحت ، افسوس کہ ہم نے سقوط مشرقی پاکستان سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔افسوس ہے کہ ہم نے سقوط مشرقی پاکستان سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ سادہ سی بات عرض کئے دیتاہوں پاکستان کے وجود سے انکاری چند لوگوں کے خلاف کارروائیوں کے نام پر پچھلے چند برسوں سے بلوچستان میں جو ہو رہاہے وہ ناقابل فہم نہیں۔ یہ آگ جنرل پرویز مشرف کی لگائی ہوئی ہے۔ ان کی رخصتی کے 9سال بعد بھی بلوچستان کے حوالے سے اندھی ریاستی پالیسی اور غیر اعلانیہ سنسر پر عمل کیا جا رہاہے۔ہوسکتا ہے ہر دو باتیں غلط ہوں مگر جواب کس نے دینا ہے۔
مسائل سنگین تب ہوتے ہیں جب اطمینان بخش وضاحت کی بجائے فتوئوں کی چاند ماری ہو۔ بلوچستان کے حوالے سے یہی ہو رہا ہے۔ ہم قوم پرستوں کے اس الزام کہ 10برسوں کے دوران 20ہزار بلوچ غائب کئے گئے کو سو فیصد غلط بھی مان لیں تو ڈاکٹر مالک کی وزارت اعلیٰ کے دور میں سامنے آنے والی اس فہرست پر تو صاد کرنا ہوگا کہ اڑھائی سے تین ہزار لوگ غائب کئے گئے۔ اسلام آباد میں مقیم ایک صاحب نے ان دنوں دعویٰ کیا کہ اڑھائی تین ہزار غائب لوگوں کی فہرست میں سے بھی ہزار بارہ سو افراد خلیجی ریاستوں میں ملازمتیں کر رہے ہیں۔ سوال ہوا تھا امیگریشن کے ریکارڈ سے اعداد و شمار سامنے لائیں تاکہ ابہام دور ہو؟ جواب کسی نے نہیں دیا۔ جواب تو کوئی اس سوال کا بھی نہیں دیتا کہ پچھلے 70برسوں کے دوران جتنے وسائل سرداروں اور سردار زادوں کے لاڈ اٹھانے پر اڑائے گئے اس کا دسواں حصہ بلوچستان کے عام لوگوں کے حالات بہتر بنانے کے لئے کیوں نہ صرف کیا گیا؟ تاریخ و سیاسیات کے اس طالب علم کو سیاسی شعور کے حوالے سے پختونخوا کے بعد دوسرے نمبر پر آنے والے بلوچستان کی حالت زار پر افسوس ہوتاہے۔ مجھے معلوم ہے کہ محض افسوس سے دوریاں’ مسائل’ نفرتیں’ شکایات اور محرومیاں ختم نہیں ہوسکتیں۔ اس سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر منہ بگاڑ کر بلوچستان پر تجزیہ کرنے والوں کی 99فیصد تعداد نے زندگی میں بلوچستان نہیں دیکھا۔ سی پیک سے بلوچ قوم پرستوں کو شکایات ہیں۔ ملتی جلتی شکایات پشتونوں’ سرائیکی اور سندھیوں کو بھی ہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ اس اور دیگر معاملات پر ریاست اپنی پوزیشن واضح کیوں نہیں کرتی۔ مکرر عرض ہے داخلی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیجئے۔ بلوچستان کے مسئلہ پر آل بلوچ پارٹیز کانفرنس کے علاوہ ملک گیر جماعتوں کی کانفرنس اور پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلائے جانے کی ضرورت ہے۔ بھارت کی گود میں بیٹھنے والوں کو دفع کیجئے مگر اپنی سر زمین پر موجود لوگوں سے تو بات کیجئے مسئلہ کا حل مکالمے میں ہے۔ مکالمہ نتیجہ خیز تب ثابت ہوگا جب مسائل حل کرنے اور شکایات دور کرنے کا جذبہ کار فرما۔ درد مندی کے ساتھ قدم بڑھائیے بات کیجئے ناراض لوگوں کو گلے سے لگائیے اور شکایات دور کیجئے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn