ہمارے نصاب ہائے تعلیم سے بندھی تاریخ کا انڈس ویلی (موجودہ پاکستان) کی قد یم تہذیب و تمدن اور تاریخ سے کتنا رشتہ اور تعلق خاطر ہے اس پر بہت زیادہ مغز کھپانے کی ضرورت نہیں۔ بہت ادب کے ساتھ اگر یہ عرض کیا جائے کہ جس ملک میں پچھلے ستر سال کی تاریخ مرتب کرنے کو گناہ بے لذت سمجھا گیا اور ایک خاص فہم کے لوگوں کی تحریروں کو تاریخ کے طور پر پیش کیاگیا وہ سچ۔ حرمت انسانی قومی جمہوریت سے محبت کیسے پروان چڑھ سکتی ہے۔ تاریخ کے حوالے سے خاص سوچ سے جڑی ریاستی خواہشات ہیں یا پھر رجعت پسندوں کی وہ تحریریں جن کی وجہ سے معاشرے میں ایسے ایسے تضادات پیدا ہوئے کہ اب عدم برداشت کاجن بے قابو ہو چکا۔ جن چند بزرگوں اور سینئر دوستوں نے اپنی سوانح عمریوں میں تاریخ کے ان گوشوں سے پردہ اٹھایا وہ لائق تحسین ہیں۔ پچھلے ستر سال کی حقیقی تاریخ کے سارے رخ اگر دیکھنے کو مل سکتے ہیں تو وہ تاریخ اور نصابی کتب کی بجائے ان دو اڑھائی درجن سوانح عمریوں کی بدولت ہی ممکن ہیں۔ گو ان میں سے چند پر یہ رائے صادق آتی ہے کہ انہوں نے خود کو تاریخ بنا کر پیش کیا۔ پھر بھی بہت ساری کتب ایسی ہیں جن کی بدولت آپ پاکستانی تاریخ کے اس حقیقی رخ سے آگاہ ہوسکتے ہیں جو ایک منصوبے کے تحت چھپایاگیا اور مقصد رجعت پسندوں کی فہم اور تعصبات کو تاریخ کے طور پر رٹوانا تھا۔ سید علی جعفر زیدی ہمارے ان سینئرز میں سے ہیں جو بٹوارے سے اب تک کی تاریخ اور زمینی حقائق کے چشم دیدہ گواہ ہیں۔ ترقی پسند طلباء سیاست کے سرخیلوں میں سے ایک زیدی صاحب کاخاندان تقسیم برصغیر کے وقت متحدہ ہندوستان کے مردم خیز خطے یوپی کے گائوں بارہہ سے اٹھ کر پاکستان پہنچا۔ ان کے والد انڈین پوسٹل سروس میں تھے ۔ ابتدائی تعلیم سرگودھا میں حاصل کی۔ ترقی پسند طلباء سیاست میں ایوبی دور میں ہی سرگرم عمل ہوئے ۔ اس حساب سے وہ مرحوم معراج محمد خان کے ہم عصر اور دوستوں میں شامل ہیں۔ شاہ جی پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں شامل ہیں۔ مرحوم حنیف رامے کے ساتھ پیپلز پارٹی کے ترجمان ہفت روزہ ”نصرت” کے ایڈیٹر رہے۔ جناب رامے اس کے چیف ایڈیٹر تھے۔
سید علی جعفر زیدی کی آپ بیتی ”باہر جنگل اندر آگ” کے نام سے شائع ہو کر تاریخ کے طالب علموں میں مقبول ہوچکی۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں دوسری بار ہجرت کا بوجھ اٹھائے پاکستان سے برطانیہ جا بسے اور اب بھی وہیں مقیم ہیں۔ ان کی آپ بیتی پاکستان کی پہلی چار دہائیوں کی تاریخ کا احوال لئے ہوئے ہے۔ وہی احوال جو ہم میں سے اکثر جاننا نہیں چاہتے کہ اگر جان گئے تو پھر عقیدتوں بھرے وہ بت ٹوٹ جائیں گے جو سینوں میں چھپائے پوجتے ہم ماہ و سال بیتا رہے ہیں۔ پاکستانی طلباء سیاست کے اس چندے آفتاب کی تصنیف بہت سارے نئے در وا کرتی اور فکر کی دعوت دیتی ہے تو اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں ستر سال میں کچھ بھی نہیں تبدیل ہوا۔ خاک تبدیل ہوتا یہاں کہ پچھلے ستر سال سے یہ بحث ہی نہیں تھم رہی کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی و معاشی مفادات کے تحفظ کے لئے یا پھر غروب ہوتے ہوئے برطانوی سامراج کی جگہ دنیا کی قیادت سنبھالنے والے امریکی سامراج کے درمیان جنوبی ایشیاء کے حوالے سے کوئی انتظام تھا۔ جب کبھی کہیں ایسی بحث سنتا ہوں تو استاد مکرم سیدعالی رضوی مرحوم یاد آجاتے ہیں۔ فرمایا کرتے تھے ” بٹوارے پر لا یعنی بحثیں اٹھانے کی بجائے اب اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو کیسا پاکستان دینا چاہتے ہیں۔ گھٹا ہوا تعصبات سے چور چور یا ایک روشن خیال اور ترقی کی طرف گامزن پاکستان؟ ۔ زیدی صاحب نے کمال محنت سے ابتدائی چار دہائیوںکی تاریخ کے سفر کو اپنی آپ بیتی کے طور پر پیش کیا۔ سو ایک طالب علم کی حیثیت سے امید ہے کہ باہر جنگل اندر آگ کا دوسرا حصہ ہماری آئندہ نسلوں کی رہنمائی کے ساتھ رجعت پسندوں کی رام لیلائوں کا پول بھی کھولے گا۔سچ یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان ہو یا پھر تقسیم کے بعد کے ہندوستان اور پاکستان سرحد کے دونوں طرف کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ نئی سوچ اور انقلابی افکار آج بھی فتوئوں کی زد میں ہیں۔ اندھیروں اور غلامی میں نسل در نسل زندگی بسر کرنے والے آج بھی روشنی اور افکار تازہ سے ڈرتے ہیں۔ ہم فقط مسلمانوں کی بات کریں تو کب افکار تازہ کا علمبردار فتوئوں کی زد میں نہیں آیا شہید ثالث سے بات شروع کریں یا دارا شکوہ سے۔ سر سید احمد خان سے آغاز کریں یا ذوالفقار علی بھٹو سے۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال بھی تو فتوئوں کی زد میں آئے۔ عجیب تاریخ ہے ہماری’ رجعت پسند افکار تازہ سے اور بندوقوں والے نہتی لڑکی سے ڈرتے پھرے۔ یہاں حسین شہید سہر وردی بے وقعت ہوئے۔ بھٹو پھانسی چڑھے۔ جونیجو ذلیل کرکے نکالے گئے۔ بے نظیربھٹو سڑک پر مار دی گئیں۔ اس سر زمین کے حقیقی فرزند (زمین زادے) غدار قرار پائے۔ سارے خواب چکنا چور ہوئے جو تقسیم کے وقت دیکھے تھے۔ ایک روشن خیال ترقی پذیر پاکستان کی جگہ جو پاکستان ہماری نسل کو ملا وہ ان خوابوں کی تعبیروں سے یکسر مختلف ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ستر برسوں میں انسان سازی کاایک ادارہ نہیں بن پایا۔ ہم من حیث القوم جہاں کھڑے ہیں لگ بھگ تازہ 70برسوں سے یہیں کھڑے ہیں چند قدم کیا ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پائے کہ ابھی شناخت پر مکالمہ اٹھانا کفر ہے۔ خدا کرے کہ اس ارض وطن پر بہاروں کا دروازہ کھلے اور ہماری آئندہ نسلوں کو ان عذابوں سے دو چار نہ ہوناپڑے جو ہمارا مقدر ہوئے۔
بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn