Qalamkar Website Header Image

سوشل میڈیا اور کالا باغ ڈیم کا مسئلہ – حیدر جاوید سید

سوشل میڈیا کی دنیا بھی عجیب ہے۔ آپ جودل چاہے اپنی وال پر لکھ سکتے ہیں’ فکر نہ فاقہ۔چند صاحبان علم و حلم کے طفیل ہم سے طالب علموں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی میسر ہوتا ہے تو کچھ ”نک چڑھے” منہ بھر کے گالیاں بھی دیتے ہیں۔ فتوے اورغداری کے الزامات بلا قیمت فروخت کرنے کے لئے سوشل میڈیا ایسابازار ہے جہاں سب اپنا مال بیچنے میں آزاد ہیں۔ دنیا میڈیا کے اس میڈیم سے سیکھنے کے عمل کو دوام دیتی ہے اور ہم ہیں کہ من مانی میں آزاد ہیں۔ کیا یہ اجتماعی سماجی رویہ ہے عدم برداشت’ مردوں کے کفن پھاڑنا’ تاریخ کے اوراق سے پسند کی سطور لکھ کر بھد اڑانا فیس بکی مجاہدین کا محبوب مشغلہ ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ سوشل میڈیا کے خالقوں نے ان فرینڈ کرنے اور بات برداشت سے باہر ہو جانے پر بلاک کرنے کے آپشن رکھ چھوڑے لیکن پاکستانی دوسرے بہت سارے خطوں کے لوگوں کی طرح سیانے بہت ہیں۔ ادھر ان فرینڈ یا بلاک ہوئے ادھر دوسرے نام سے حاضر۔ بہت کم آپ کو ایسا لگے گا کہ مکالمہ ہوسکتا ہے ورنہ مظاہرہ ہی ہوتا ہے۔ جس کی بات کڑوی لگے۔ امریکہ’ بھارت’ ایران ‘ سعودی عرب اور افغانستان کا تنخواہ دار ملازم قرار دے کر غدار ٹھہرا دیجئے۔ اگر آپ باقاعدگی سے سوشل میڈیا پر موجود ہیں تو اندازہ کرسکتے ہیں اس میڈیم کی اکثریت جمہوریت کو کرہ ارض کی سب سے بڑی برائی سمجھتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ مجاہدین سوشل میڈیا کی اکثریت ایک ایسے نظام ہائے حکومت کی خواہش مند ہے جو جنرل ضیاء الحق کے عہد کی یادیں تازہ کروادے۔ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ جو عمومی رویہ ہمارا عملی زندگی میں ہے وہی اس میڈیم پر بھی دکھائی دیتا ہے۔ قصور کس کا ہے۔ اس سوال پر غور کرتے وقت اگر انفرادی طور پر اپنی اپنی ادائوں پر غور کرلیا جائے تو جواب مل سکتا ہے۔ اصل میں ہم عدم برداشت سے گندھے سماج میں رہ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے کچھ دوست کالا باغ ڈیم کی مخالفت یا اس مسئلہ پر خاموشی کو تو غداری سمجھتے ہی ہیں مگر اب متوازن رائے رکھنے والے بھی غدار اور بھارت کے ایجنٹ کہے جا رہے ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ پانچ قومیتوں اور چار حاضر صوبائی اکائیوں کی فیڈریشن کو پاکستان کہتے ہیں۔ کوئی ایسا منصوبہ جس پر فیڈریشن کی اکائیوں کے درمیان کامل اتفاق نہ ہو کیسے بن سکتا ہے۔ اپنی ذات کی پسند و نا پسند پر فیصلے نہیں دئیے جاسکتے۔ کا لا باغ ڈیم سرائیکی وسیب کی سرزمین پر تعمیر ہونا تھا۔ سرائیکی وسیب اتفاق سے پنجاب کے صوبے میں شامل ہے۔ مگر کیا کبھی کسی نے سرائیکی عوام کو اصل فریق سمجھا؟ سادہ سا جواب ہے ‘ جی بالکل نہیں۔ سرائیکی قوم پرستوں کی اکثریت کی رائے ہمیشہ یہ رہی کہ اگر سرائیکی صوبہ موجود ہوتا تو ہم سندھ’ بلوچستان اور پختونخوا کی اکائیوں سے اس مسئلہ پر مساوی حیثیت میں بات کرتے ۔ضرورتیں اور تحفظات زیر بحث آتے ،عین ممکن ہے درمیانی راستہ نکل سکتا۔ مگر سرائیکی عوام کو فریق تسلیم نہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلاکہ کالا باغ ڈیم پرز مینی حقائق کی روشنی میں مکالمہ نہ ہوا بلکہ یہ پنجاب کا منصوبہ قرار پایا اور پھر اس کے ساتھ وہی ہوا جو ”لدھیانہ میں اکثر ہوتا ہے”۔ تاریخ و سیاست کے اس طالب علم کی رائے بھی یہی ہے کہ ہمسایہ اقوام سے مکالمے کے بغیر سرائیکی لوگ اپنا وزن تخت لاہور کے پلڑے میں کیوں ڈالیں۔ اورکیا کسی کے پاس اس بات کی ضمانت ہے کہ اگر ڈیم بنتا ہے تو سرائیکی علاقوں میں باہر والوں کو اراضی دینے کی بجائے مقامی لوگوں کو ترجیح دی جائے گی؟ یہ اور اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں ان کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ طاس کا معاہدہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے کیا۔ دریائے ستلج بھارت کو دے دیا گیا۔ پورا بہاولپور ڈویژن ہی نہیں بلکہ نصف سے زیادہ سرائیکی وسیب اس معاہدے کے متاثرین میں شامل ہے۔ دریائے چناب پر بھارت نے بلا جواز ڈیم تعمیر کئے اس سے پاکستان کے جو علاقے متاثر ہوئے اس میں زیادہ حصہ سرائیکی وسیب کا ہے۔ پانی کا مسئلہ دن بہ دن سنگین تو ہوتا جا رہاہے مگر کیا واحد حل کالا باغ ڈیم ہے؟ جی نہیں کالا باغ ڈیم واحد حل نہیں پانی اور توانائی کے بحرانوں کا متبادل حل موجود تھاان پر کام نہ ہونے کا مجرم کون ہے؟۔ اپنا اپنا ظالم اور اپنا اپنا مظلوم رکھنے والوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جمہوریت کی بجائے مارشل لاء کو اصلاح احوال کا واحد حل سمجھنے والے اس امر سے لا علم ہیں کہ کالا باغ ڈیم کو قوم پرستوں سے پہلے جنرل فضل حق نے متنازعہ بنایا۔ بہر طور اب اس پر بحث بیکار ہے۔ اٹھارہویں ترمیم نے اس کا دروازہ بند کر دیا ۔ کیا 18ویں ترمیم پنجاب کی رضا مندی کے بغیر ہوئی؟ بالکل نہیں پنجاب کے ارکان قومی اسمبلی کی تائید سے اٹھارہویں ترمیم منظور ہوئی۔ مطلب یہ کہ 2008ء سے 2013ء تک کی قومی اسمبلی میں پنجاب کے جو ارکان تھے انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ منصوبہ صوبائی منافرت پیدا کرے گا۔ ارکان اسمبلی کو قانون سازی کے لئے ہی تو ہم ووٹ دیتے ہیں۔ سو زیادہ بہتر یہ ہے کہ محض سرائیکی قوم پرستوں کو گالی دینے یا ڈیم کے مخالف متوازن رائے رکھنے والے طبقات کو غدار غدار قرار دینے کی بجائے مسئلہ کی بنیادی وجوہات پر بھی غور کرلیا جائے۔ آبی نظام میں دریا کے پانی پر بہائو کی طرف کے نچلے علاقوں کا حق زیادہ ہوتا ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی مرضی کے بغیر دریائے سندھ پر موجودہ صوبہ پنجاب کی حدود میں کوئی ڈیم بنا لیا جائے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لٹھ بازی نہیں دلیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اچھا اگر پیپلز پارٹی کالا باغ ڈیم کے مسئلہ پر مجرم ہے تو دو تہائی اکثریت ہے موجودہ قومی اسمبلی میں پنجاب کی نمائندہ مسلم لیگ (ن) کے پاس اس۔ کی قیادت سے سوال کیجئے کہ اگر کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو ترک کرنے کا فیصلہ غداری تھاتو اس نے حب الوطنی کا چراغ کیوں نہیں جلایا؟ بات تو کیجئے۔ سوال کیجئے نون لیگ سے یا فقط گالیوں سے جی بہلانا ہے؟۔

یہ بھی پڑھئے:  سانحہ مردان یونیورسٹی، عوام صرف انصاف چاہتے ہیں - حیدرجاوید سید

حالیہ بلاگ پوسٹس