وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق فرماتے ہیں ” مصنوعی طریقے سے ہمیں نکالنے کی کوشش کی گئی تو مزاحمت کریں گے۔” پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کہتے ہیں ” یہ نہیں ہو سکتا کہ ووٹ نواز شریف لے اور فیصلے کوئی اور کرے ” چند دن قبل جناب خواجہ یہ بھی کہہ چکے ہیں ہماری کتاب کے صفحات پورے ہیں جسے دکھائی نہیں دیتے آنکھوں کا علاج کروائے۔ ہم لوہے کے چنے ہیں جو چبانے کی کوشش کریگا اس کے دانت ٹوٹیں گے ۔ وفاقی اور پنجاب کے وزراء کے درجن بھر مزید ایسے بیانات پیش کئے جا سکتے ہیں جنہیں پڑھ کر آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کا مخاطب کون ہے ۔ اس اندازتکلم کی ضرورت کیوں ان پڑی اس پر لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں ۔ پانامہ کیس نے شرافت کی سیاست اور سیاست برائے دیانت کے نعروں کا بھانڈہ پھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ سپریم کورٹ پر حملے کا ”شاندار” ریکارڈرکھنے والی مسلم لیگ (ن )کے رہنمائو ں کے منہ سے پھول جھڑ نا شروع ہوگئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ہاتھ اوردامن صاف ہے ۔ کتاب کے صفحات پورے تو پھر اس قدر گھبراہٹ کیوں ہے ؟ 16کروڑ روپے کی فیسیں وکلاء کو دی گئیں پاکستانی تاریخ کے مہنگے ترین عدالتی مقدمے کے نتائج زیادہ سے زیادہ کیا ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ نون لیگ کے رہنمائوں کی تقاریر بیانات قومی اسمبلی میں ہلٹر بای سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ بہتر ین تجربہ کار ٹیم رکھنے والی نواز لیگ 2013ء میں جب بر سر اقتدار آئی تھی تو 22کروڑ کی آبادی والے ملک کا ہر شہری 67,560روپے کا مقروض تھا۔ پونے چار سال بعد یہ قرض فی کس کے حساب سے 137,500 روپے ہے ۔ اس میں سی پیک کے قرضے شامل نہیں۔ دوسری طرف یہ عالم ہے کہ 3ارب روپے سالانہ خسارے میں چلنے والے لاہور میٹرو بس منصوبے کی تشہیر کے لئے پچھلے تین سال کے دوران سرکاری خزانے سے 16کروڑ 79لاکھ 37ہزار روپے خرچ ہوئے یعنی تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ روپے سالانہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میٹرو بس منصوبے کی تشہیر پر اٹھے یہ اخراجات پنجاب حکومت نے خود ادا کرنے کی بجائے مختلف محکموں اور ضلع کونسلوں کے فنڈز سے ادائیگیاں کروائیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں تمام تر دعوئوں کے باوجود شرح خواندگی حقیقی معنوں میں 20 سے 21فیصد ہو سالانہ پانچ لاکھ بچے اور تین لاکھ مائیں موت کا رزق بنتی ہوں۔ پنجاب کے پانچ بڑے شہروں لاہور’ ملتان’ راولپنڈی’ فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں 61 سے 67 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو وہاں میٹرو بس اور اورنج ٹرین منصوبوں کی ضرورت تھی یا بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی؟ یہ ایسا سوال ہے جو اگر مسلم لیگ(ن) کے ذمہ داران سے دریافت کیا جائے تو ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں۔ مخالفین پر تنقید کرتے وقت زمینی حقائق اور دوسرے معاملات کو یوں نظر انداز کرتے ہیں کہ لوگ قہقہے لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل کراچی میں آدھی پونی موٹر وے کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا ”کرائے کے جہازوں اور دوستوں کے ہیلی کاپٹروں میں سفر کرنے والوں کو کیا معلوم کہ سڑکیں بننے سے کیسے ترقی ہوتی ہے اور لوگ خوش ہوتے ہیں”۔ اس تقریب سے خطاب کے بعد وزیر اعظم ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر گورنر ہائوس چلے گئے۔ اللہ ہی جانتا ہے وزیر اعظم اور ان کے رفقا کو کس نے یہ باور کروا دیا ہے کہ سڑکیں’ میٹرو’ پل’ فلائی اوورز اور اورنج ٹرین جیسے منصوبے ترقی کی علامت ہیں۔ دنیا بھر میں ترقی کا معیار’ تعلیم و طبی سہولتیں’ روز گار کے زیادہ مواقع قرار پاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ہرچیز کا باوا آدم نرالا ہے۔ مثال کے طور پر لاہور میں پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال کے سربراہ کا شرمناک سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صوبائی حکومت انہیں کسی تاخیر کے بغیر برطرف کرکے تحقیقات کرواتی مگر یہاں سیکرٹری صحت اور دوسرے سرکاری ہر کارے ان صاحب کو مناتے پھر رہے ہیں۔ بد انتظامیوں’ اختیارات سے تجاوز اور دستیاب وسائل کو چونچلوں پر اڑانے کے شوقین مسلم لیگی رہنما جس طرح ہر بات کا ملبہ عمران خان پر ڈالتے ہیں اس پر کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ کہیں رانا ثناء اللہ جیسے اچھوتے خیالات رکھنے والے لیگی وزیر یہ نہ کہہ دیں کہ تخلیق آدم کے بعد جناب آدم اور اماں حوا کو جنت سے نکلوانے کی ذمہ داری بھی عمران خان اور تحریک انصاف کے دھرنوں پر عائد ہوتی ہے۔ اب چلتے چلتے یہ بھی جان لیجئے کہ 18ارب سے 85ارب روپے تک پہنچ جانے والے نندی پور پاور پلانٹ منصوبے کو بخیر و خوشی وفاقی حکومت نے 10سال کے لئے ایک چینی کمپنی کے حوالے کردیا ہے۔ سوموار کو حوالگی کے معاہدہ پر دستخط بھی ہوگئے۔ بجلی و پانی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف معاہدہ والے مقام سے سینکڑوں کوس دور تھے۔ 10سال تک نندی پور پراجیکٹ کے تمام ٹیکس وفاقی حکومت ادا کرے گی اور مرمت و پرزہ جات کی فراہمی پیسکو کے ذمہ ہوگی۔ چینی کمپنی منافع گھر لے جائے گی۔ اس منافع میں کون کون شریک ہوگا اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پلانٹ کو ڈیزل اور فرنس آئل سے گیس پر منتقل کرنے کے بھاری بھر کم اخراجات بھی خفیہ رکھے جا رہے ہیں۔ سادہ سا سوال یہ ہے کہ جن شرائط پر منصوبہ چینی کمپنی کے حوالے کیاگیا ان شرائط پر مقامی فنانسرز کو دینے میں کیا برائی تھی؟۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کا رد عمل کیا ہوتا ہے کیا پی آئی اے اور سٹیل مل کے معاملات کی طرح اب بھی اپوزیشن فقط لفاظی کرے گی یا موثر احتجاج؟ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ”کسی” کو بہت جلدی ہے سب کچھ سمیٹ لینے کی۔ اس جلدی میں چند افراد کا فائدہ تو ہوگا مگر عوام کا نقصان ہی ہے مگر عوام سے یہاں کسے دلچسپی ہے اور خود عوام کو بھی اپنے مفادات آئندہ نسلوں کے مستقبل سے کیا دلچسپی ہے وہ تو اپنے اپنے لیڈروں کو آسمانی اوتار بنائے جی رہے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn