Qalamkar Website Header Image

وفاقی وزیرداخلہ کی رام لیلائیں – حیدر جاوید سید

تین دہائیوں میں اگر 40 ہزار افراد کو فرقہ وارانہ تشدد اور پچھلے 16 برسوں کے دوران چالیس ہزار کے قریب معصوم شہریوں کو دہشت گردی کا رزق بنوا کر بھی ہمارے پالیسی سازوں سے "عقل شریف” روٹھی ہوئی ہے تو دستِ دعا بلند کرنا بیکار ہے۔ یہاں مصلحتوں کا شکار کون نہیں ہوا؟ حکومت کرنے کے آداب ہم اور آپ سے زمین زادے کیا سمجھ پائیں گے۔ عجیب سا ماحول بن گیا ہے۔ کسی چور سے اگر کہتے ہیں کہ چوری لعنت ہے تو ٹک سے جواب ملتا ہے "وہ” بھی تو چور ہے۔ ایک ہمارے وزیرداخلہ ہیں ایان علی کے "حقیقی وارثوں ” سے تعلق نبھانے میں اتنی دور نکل گئے کہ اپنے زیرِ بار چند صحافیوں کے ذریعے ماڈل ایان علی کا تعلق آصف زرداری سے جڑوا دیا۔ اب ٹھٹھہ اڑاتے ہیں اس بات کو لے کر ہر محفل میں زرداری اور پیپلز پارٹی کا۔ مگر دھمیال کے اس چوہدری میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ کبھی  اس سابق آرمی چیف کے بھائی کا نام لے پائیں جو ایان علی کا حقیقی سرپرست مالک اور وارث ہے۔ وجہ فقط اتنی ہے کہ اس سابق آرمی چیف کا مفرور بھائی خود جناب چوہدری کا کاروباری رفیق ہے۔ کاروبار کیا ہے وہی جس کے تحفظ کے لئے وہ ہمیشہ بطور وزیر راولپنڈی ضلع میں ڈپٹی کمشنر سے پٹواری تک اپنی مرضی کا لگواتے ہیں۔ ادھر کسی کا تبادلہ ہوا ادھر "حضرت” ناراض ہو کر گوشہ نشین ہو جاتے ہیں۔ کاش کبھی چوہدری جی اصلی اور کھرے راجپوتوں کی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیتے۔ راجپوت مردِ میدان ہوتے ہیں۔ دوستی اور دشمنی کھلے میدان میں نبھانے کے ہنر میں یکتا۔ رانا سانگا نے بڑی خوبصورت بات کہی تھی "راجپوت پیچھے سے وار نہیں کرتا، دشمن کی خواتین کا احترام کرتا ہے، حریف کو شکست دینے یا ذلیل کرنے کے لئے عورتوں کا سہارا نہیں لیتا، بہتان باندھنے کی بجائے صاف سامنے سے وار کرتا ہے”۔ دھمیال کے چوہدری میں ایسی کوئی خوبی نہیں۔ ویسے بھی یہ چودہراہٹ جس بزرگ کی مرہون منت ہے اس نے متحدہ ہندوستان کی جنگ آزادی کے مجاہدین کی مخبریوں اور سرکوبی میں انگریز بہادر سے کمائی ہے۔

بات کچھ تلخ اور بہت پیچھے چلی گئی ۔ ہم واپس پلٹتے ہیں۔ ہمارے وزیرِ داخلہ کو نیلے آسمان کے نیچے یہ بات سمجھانے والا کوئی نہیں کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے سوتے اس قبیح قسم کی فرقہ واریت سے پھوٹے جو ان کے مرحوم گاڈ فادر جنرل ضیاء الحق کے دور میں حکومتی سرپرستی میں شروع ہوئی تھی۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائی کے تاریک ترین بیس سالوں کے دوران کیسے کیسے اجلے صاحبان علم و کمال اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔ سید عارف الحسینی سے ڈاکٹر سید محمد علی نقوی اور علامہ احسان الہٰی ظہیر سے بدر عباس زیدی تک کیسے کیسے نگینے رزقِ خاک ہوئے۔ مرنے والوں کے دکھ ان کے ورثا ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ قاتلوں کی نرسریاں لگانے والوں کے سیاسی وارث کیا سمجھیں گے اس دکھ کو؟ صحافت کے اس طالب علم کو احساس ہے کہ وزیرِ داخلہ کیوں ایک سکہ بند کالعدم تنظیم کے وکیل صفائی بنے پھرتے ہیں۔ دو وجوہات ہیں۔ اولاََ یہ کہ وزیرِ داخلہ مخبریوں کے احسان کا بدلہ چکا رہے ہیں دوسری بات ایک راوی کی ہے۔ "راوی کہتا ہے کہ وزیرِ داخلہ کو کہیں سے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ ایک کالعدم جماعت کے سربراہ کو اعتماد میں لیں تاکہ اگلے مرحلہ پر جب شریف برادران کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کی فائل کھلے تو کالعدم تنظیم کے یہ سربراہ ان چہروں سے پردہ اٹھانے میں حکومت کی مدد کریں جنہیں 17 جون 2014 کو پنجاب پولیس کی وردیاں پہنا کر ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن کو فتح کرنے کے لئے لیجایا گیا تھا”۔ دونوں باتوں میں موجود حقیقت کو دستیاب معلومات کی بنا پر رد کرنا اس صحافی کے لئے ممکن نہیں۔ سو فیصد درست باتیں نہ بھی ہوں تو 80 فیصد حقیقت کے قریب ترین ہیں۔ لیکن کیا مستقبل کے مفادات کے لئے زمینی حقائق کو مسخ کردیا جائے گا؟

یہ بھی پڑھئے:  وفاقی وزیرِداخلہ کی پھلجڑیاں

یہ سوال جناب چوہدری کو کون بتلائے۔ وہ بولتے ہیں تو بولتے چلے جاتے ہیں۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ ایک وزیرِ داخلہ کی حیثیت سے انہوں نے کالعدم تنظیوں کے خلاف کیا اقدامات کئے؟ اور کیا جس وقت وہ ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ کے وکیلِ صفائی کی حیثیت سے راولپنڈی میں کلر سیداں کے مقام پر صحافیوں کو رام لیلا سنا رہے تھے اس سے محض دو دن قبل ان کی وزارت کو حساس اداروں کی یہ رپورٹ موصول نہیں ہوئی کہ "اس کالعدم تنظیم کی ذیلی اوردوسری کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے جو لوگ عراق اور شام میں داعش کے ساتھ مل کر جہاد کرنے گئے تھے شام اور عراق میں بدلتی ہوئی صورتحال کی بدولت وہ افغانستان کے راستے واپس لوٹ رہے ہیں۔ خود چوہدری جی کی وزارت نے جمعتہ المبارک کے دن پنجاب کی وزارتِ داخلہ کو اسی رپورٹ کی بنیاد پر ہی صوبے میں سیکیورٹی  مزید سخت و بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے۔ قربان جائیے وزیرِ داخلہ کی رام لیلاؤں اور بے نیازی پر۔ مسلم لیگ (ن) 2013ء کے انتخابی دنگل میں اس کالعدم تنظیم کے احسانوں کا بدلہ اتار رہی ہے اور وزیرِ داخلہ مستقبل کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ چوہدری جی ایک بار پھر مختصر مدت کے لئے وزیرِ اعظم بننے کے لئے پرامید ہیں۔ وہ ایک طرف تو برادری برادری کھیل رہے ہیں۔ یہ کھیل انہوں نے پہلے بھی کھیلا تھا۔ بقول راوی 82 ارکان قومی اسمبلی جمع کیے تھے۔ ان  82 میں سے 60 کے محترمہ مریم نواز شریف کے دربار میں حاضری اور فنڈز پانے کی خبروں کے ساتھ بہکائے جانے کی تفصیل کچھ عرصہ قبل انہی سطور میں عرض کر چکا۔ اب تو جناب چوہدری کے پاس مشکل سے 35 ایم این اے رہے ہیں۔ تو کیا اگر پانامہ کیس میں عدالتی فیصلہ شریف خاندان کے خلاف آتا ہے تو چوہدری صاحب 35 ایم این اے کے بل بوتے پر مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لیں گے ؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ وجہ میں آپ کے گوش گزار کئے دیتا ہوں۔ آصف زرداری پر جناب چوہدری کی تازہ برہمی اور پیپلز پارٹی پر گرم جملوں کا وار بلاوجہ ہرگز نہیں۔ جناب زرداری پاکستان کے اصلی مالکوں سے معاملات طے کر کے وطن واپس تشریف لائے ہیں۔ ملٹری اسٹبلشمنٹ بہر طور اب اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگی ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے خلاف کئے گئے ہر اقدام کے باوجود فوج کی مخالفت میں بے صبری نہیں ہوئی۔ مقابلتاََ نواز لیگ نے ظاہر مفاہمت کے باوجود فوج کو بطور ادارہ ٹارگٹ بنارئے رکھا۔ وزیر داخلہ کے طور پر چوہدری سارے رازوں اور چالوں کے بھیدی ہیں۔ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی سے ان کی نفرت سیاست سے زیادہ روحانی مسئلہ ہے۔ فکری طور پر وہ جنرل ضیاء الحق کے سیاسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جب پیپلز پارٹی پر وار کرنے کی معمولی سی وجہ بھی دستیاب ہو۔

یہ بھی پڑھئے:  کشمیر کی آزادی اور امریکہ

بھائیوں کانام لے کر یاروں کورونا اسے ہی کہتے ہیں۔ چوہدری صاحب شطرنج کے شوقین لیکن شطرنج کی بساط بچھا کر مخالف سمت میں کھلاڑی نہیں بٹھاتے۔ ان کی خواہش رہی ہے کہ دونوں طرف کی چالیں وہ خود چلیں۔ یوں ہر صورت فتح گھر کی لونڈی رہے۔ اب بھی وہ اپنے مہرے، پیادے، فیل اور وزیروں کی چالیں خود چل رہے ہیں اور بادشاہ وہ خود ہی ہیں۔ لیکن شطرنج کا کھیل کچھ اور لوگ بھی جانتے ہیں اور چالیں اور چلن انہیں بھی آتا ہے۔ چوہدری جی کے فیلوں کا حشر وہی ہو گا جو 60 پیادوں کا ہوا۔ البتہ اس بار دربار کہیں اور لگے گا۔ وفاداری کی قسمیں کہیں اور کھائی جائیں گی۔ "گڈی فیر خالی ای آنی اے” چلئے ان جھمیلوں کو رہنے دیجئے۔ سیاست کی شطرنج کے دوسرے کھلاڑی بھی پرجوش و سرگرم ہیں۔ ہم تو ان کی خدمت میں یہی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ فرقہ پرست تنظیموں کی زہر افشانیوں نے جن پرتشدد واقعات کی راہ ہموار کی اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ جس تنظیم کے وہ وکیل صفائی ہیں اس کی بنیاد ہی ایک مسلم فرقے کی تکفیر پر رکھی گئی ۔ سو خود انہیں فرقہ وارانہ عقائد پر استوار ہوئی جماعتوں اور تکفیر پر قائم تنظیم کے درمیان فرق قائم رکھنا ہو گا۔ کیا وہ ہمیں بتانا پسند کریں گے کہ کیا کبھی تحریکِ جعفریہ، جمیعت علمائے پاکستان، جماعت اہلحدیث، جمیعت علمائے اسلام نامی جماعتوں نے جو خالصتاََ چار مسلمہ مسلم مکاتب فکر کی سیاسی جماعتیں ہونے کی دعویدار ہیں کسی دوسرے فرقے کی تکفیر کا فتویٰ دیا؟ معاف کیجئے گا چوہدری صاحب کالعدم انجمن سپاہ صحابہ جو اب تیسرے نام سے بھی کالعدم ہے اس ملک کی واحدفرقہ وارانہ تنظیم ہے جس کا منشور مخالف مکتب کی فکری کی تکفیر سے عبارت ہے۔ اس جماعت میں شمولیت اور حلف رکنیت کے لئے جو "کلمہ” حلف بنایا گیا ہے وہ تکفیر سے عبارت ہے۔ اور اس کا خمیازہ پاکستان کے عوام پچھلے 30 سالوں سے بھگت رہے ہیں۔ ان تلخ حقائع کی موجودگی میں وزیرِ داخلہ کا اس کالعدم تنظیم کے وکیل صفائی کے طور پر دلائل کا "ڈھیر” لگاتے رہنا کس بات کی غمازی کرتا ہے؟ آپ ہی اپنی اداؤں پر غور کیجئے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس